70 فیصد ریونیو دینے والا کراچی آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم
اس عشرے کے دوران کئی سیاسی اور قانونی تبدیلیاں ہوئیں، کوٹہ سسٹم میں توسیع ہونے سے دیہی اور شہری فرق مزید گہرا ہوا
کراچی کے نام ور سیاست دانوں اور دیگر شخصیات کی اقامت گاہوں کا تذکرہ
سال2019 بھی اختتام کے قریب ہے لیکن ملک کو70 فیصد سے زائد آمدنی فراہم کرنے والا شہر گذشتہ کئی عشروں کی طرح آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔
اس عشرے میں کئی سیاسی اور قانونی تبدیلیاں ہوئیں، کوٹہ سسٹم میں توسیع ہونے کی وجہ سے دیہی اور شہری فرق مزید گہرا ہوا جو شہر کے نوجوان طبقے میں بے روزگاری و احساس محرومی کا سبب بن رہا ہے۔ شہر میں بدستور مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں، وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانبدارانہ پالیسیوں کے باعث دنیا کے تیسرے بڑے شہر میں شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
کوئی ایک مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوسکا ہے، شہر میں بدستور کچرے کے ڈھیر قائم ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پانی کا بدترین بحران، تباہ حال سیوریج سسٹم اور کمزور ترین بلدیاتی نظام کے باعث یہ شہر نشان عبرت بنا ہوا ہے، مختلف ٹیکسوں کی مد میں یہاں سے اربوں روپے ریونیو جمع ہوتا ہے۔
دو انٹرنیشنل بندرگاہیں، ایک ہوائی اڈہ اور صنعتی حب والا شہر جو پورے ملک کی معیشت کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے لیکن جمہوری حکومتوں نے کراچی کو جمہوری و منظم طریقے سے کبھی ترقی دینے کی کوشش نہیں کی، نہ تو اس کی صحیح آبادی کبھی ظاہر کی گئی اور نہ ہی اس شہر کے بنیادی مسائل حل کیے گئے، وفاقی حکومت کے تحت 2017 میں ہونے والی مردم شماری میں کراچی کی آبادی صرف ایک کروڑ 60 لاکھ ظاہر کی گئی ہے۔
جس میں کراچی کی شہری آبادی ایک کروڑ 50لاکھ اور کراچی کی دیہی آبادی 10لاکھ لاکھ تسلیم کی گئی ہے جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زائد ہے، اسی عشرے میں کراچی کے ساتھ مزید زیادتی کی گئی اور جمہوریت کی نرسری بلدیاتی اداروں سے وہ اختیارات بھی چھین لیے گئے جو انگریزوں کے دور میں تفویض کیے گئے تھے اور یہ انوکھا کام سندھ کی جمہوری حکومت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013کے تحت کیا۔
کراچی کے ساتھ ایک بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکمرانی ہے اور بلدیاتی اداروں میں ایم کیوایم سب سے بڑی جماعت ہے جبکہ وفاق میں تحریک انصاف ہے، اگرچہ کہ ایم کیوایم اور تحریک انصاف حلیف جماعتیں ہیں لیکن سندھ اسمبلی میں دونوں جماعتیں حزب اختلاف سے تعلق رکھتی ہیں اور صوبائی اسمبلی میں اتنی اکثریت نہیں رکھتیں کہ بلدیاتی اداروں کو با اختیار بنانے کے لیے سندھ اسمبلی میں قانونی ترمیم کے ذریعے کوئی کردار ادا کرسکیں۔
کراچی میں سیاسی و انتظامی ادارے منقسم ہیں لہذا جو تعمیراتی کام ہورہے ہیں وہ ایک چھتری تلے نہیں ہورہے ہیں جس کا ویژن پرویز مشرف نے شہری حکومت کی شکل میں دیا تھا جس کے تحت تمام اداروں کا ایک سربراہ ناظم کراچی تھا جس نے تمام شہری اداروں کو ایک پیچ پر لاکر بڑی حد تک مسائل حل کیے۔
اس کے برعکس موجودہ انتظامی سیٹ اپ نے مسائل میں کمی کے بجائے اس میں مزید اضافہ کردیا ہے، پیپلزپارٹی سندھ میں ساڑھے گیارہ سال سے حکمرانی کررہی ہے اور 2008تا 2013 پانچ سال وفاق میں بھی حکومت بنائی لیکن اس دوران شہر کراچی کو بری طرح نظر انداز کیا گیا، سندھ حکومت نے نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں منظور کیا جس میں بلدیاتی اداروں کو قانونی طور پر انتہائی کمزور کردیا گیا تاہم اس کے باوجود سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے پہلوتہی کرتی رہی، بلاآخر سپریم کورٹ کی ہدایت پر 2016میں سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات منعقدکرائے۔
اگرچہ کہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت نے چند سالوں سے کراچی کی اہم شاہراہوں پر فلائی اوورز، انڈر پاسز ، پانی و سیوریج کی میگا اسکیموں اور ماس ٹرانزٹ کی تعمیرات کا آغاز کردیا ہے تاہم ان میں سے بیشتر کام کراچی کے چہرہ کو تو خوبصورت بناسکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر کراچی کے شہریوں کے مسائل کا حل نہیں کرپائیں گے کیونکہ اندرون شہر اس طرح کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے کہ گاؤں گوٹھ کا منظر پیش کررہا ہے،بظاہر اربوں روپوں کا انفرااسٹرکچر تعمیر ہورہا ہے لیکن ان ترقیاتی کاموں میں اسقدر تاخیر و سست روی برتی جارہی ہے کہ کراچی والوں کی چیخیں نکل گئی ہیں۔
اس کی سب سے بڑی اور سادہ سی وجہ کمزور ترین بلدیاتی نظام ہے، وفاقی حکومت اور سندھ حکومت پالیسی ساز ادارے ہیں، یہ ان کا منصب نہیں ہے کہ شہروں کا کچرا اور صفائی ستھرائی کا نظام سنبھالیں یا پانی و سیوریج کی لائنیں بچھائیں، سڑکوں، پلوں، انڈر پاسز اور بس ریپیڈ ٹرانزٹ کی تعمیر کریں ، یہ کام بلدیاتی اداروں کا ہے جن کی رسائی عام آدمی تک ہوتی ہے، وہی اس کام کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے بھی کراچی کے بلدیاتی اداروں کو ترقیاتی فنڈز دینے کی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ خود ہی وہ کام کرنے کی کوشش کررہی ہے جو اصولی طور پر بلدیاتی اداروں کا ہے، مسلم لیگ(ن) سے وابستہ دو وزرائے اعظم نے کراچی کو تقریباً 50ارب کا ترقیاتی پیکیج دیا۔
دوسری جانب حکومت سندھ نے ناقص ترین بلدیاتی نظام نافذ کرکے کراچی کے شہریوں کے ساتھ مذاق کیا ہے، سندھ حکومت نے اس عشرے میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا نافذ کردہ شہری حکومت کا نظام ختم کرکے اپنا نیا بلدیاتی نظام 2013میں نافذ کیا جو کراچی کے بلدیاتی نظام کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا بدترین نظام قرار دیا جارہا ہے، انگریزوں نے جب کراچی کے لیے بلدیاتی نظام نافذ کیا تو اس وقت میئر کراچی کو کئی اختیارات دیے جسے سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے بام عروج پر پہنچاتے ہوئے کراچی کو ایک آئیڈیل بلدیاتی نظام دیا اور اختیارات کو گراس روٹ لیول تک پہنچادیا تاہم منتخب سندھ حکومت نے جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی نظام کے ساتھ شب خون مار کر اپنی جاگیردارانہ سوچ کا بھر پور اظہار کیا ، سیاسی امورکے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بلدیاتی اداروں کو طاقتور بنا کر متواتر بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے جائیں تو چند ہی سالوں میں نئی و نوجوان سیاسی قیادت ابھر کر سامنے آجائیگی اور روایتی سیاسی خانوادوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔
صرف اسی بنیاد پر پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے کبھی مضبوط بلدیاتی نظام کو پنپنے نہیں دیا ہے،18ویں ترمیم کے تحت وفاقی حکومت کے بیشتر اختیارات صوبائی حکومتوں کو سونپ دیئے گئے ہیں تاہم جہاں تک بات سندھ حکومت کی ہے تو دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سندھ حکومت نے ان اختیارات کو نچلی سطح پر دینے کے بجائے بلدیاتی اداروں کے بنیادی اختیارات بھی غصب کرلیے ہیں، سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کی بنیادی شناخت شہر کی شاہراؤں کی صفائی ستھرائی اور لینڈ فل سائیٹ پر کچرا اٹھانے و ٹھکانے لگانے کے فرائض بھی صوبائی محکمہ بلدیات کے زیر نظام سندھ سولڈ ویسٹ میجنمنٹ بورڈ کو سونپ رکھا ہے، سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی3سالہ کارکردگی انتہای مایوس کن ہے ، شہر میں پہلے ایک یونین کونسل میں ایک کچرا کنڈی ہوتی تھی اب ہر گلی میں کچرا کنڈی بن گئی ہے، پہلے سینیٹری ورکر ز منتخب یونین کونسل کے یوسی ناظم کو جوابدہ تھے ، اب جو سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا نظام تشکیل دیا گیا ہے اس کا چیئرمین وزیر اعلیٰ سندھ ہے۔
کیا وزیر اعلیٰ سندھ شہر یا گاؤں کی کسی گلی کی صفائی کی مانیٹرنگ کرسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ نظام مکمل طور پر فیل ہوچکا ہے اور کراچی کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے، شہر کراچی کے المیوں کی داستان بہت طویل ہے، یہ شہر جو پورے ملک کو پالتا ہے اس کا اپنا کوئی پرسان حال نہیں، لسانی تضادات اور اختیارات کی جنگ نے اس شہر کو اتنا نقصان پہنچایا ہے جس کی نظیر پوری دنیا میں نہیں ملتی، 2013میں کوٹہ سسٹم کی آئینی مدت ختم ہورہی تھی لیکن سندھ حکومت کی درخواست پر وفاقی حکومت نے اس میں مزید 20سال کی توسیع کردی جس سے سندھ کے شہری علاقوں کی ایک بار پھر حق تلفی ہورہی ہے، 1973میں جب کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا تھا تو اسوقت کہا گیا تھا کہ سندھ کے شہری علاقوں میں ایجوکیشن کے مواقع زیادہ ہیں اور پڑھے لکھے لوگوں کا تناسب بھی زیادہ ہے۔
اس کے برعکس دیہی علاقوں میں یہ مواقع انتہائی کم ہیں، آغاز میں کوٹہ سسٹم کا یہ نفاذ صرف دس سال کے لیے تھا تاہم بعد کی حکومتیں اس میں مزید توسیع دیتی رہیں اور اب موجودہ توسیع کے تحت 2033میں اسے 60سال ہوجائیں گے، اس کوٹہ سسٹم کے نفاذ کی وجہ سے پورے ملک بالخصوص سندھ میں اہل افراد پر روزگار کے دروازے بند ہیں جس کے نتیجے میں ہر سرکاری ادارہ تباہی کے آخری دھانے پر پہنچ گیا ہے، ارباب اختیار کراچی کے مسائل اور بے روزگاری کی وجہ سے پھیلنی والی بے چینی اور احساس محرومی کو محسوس کریں اور اس کے تدارک کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں، اگرچہ کہ شہر میں چار سال سے امن وامان قائم ہے لیکن عمرانی علوم کے ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی کے ساتھ زیادتیوں کے عوامل آج بھی وہ ہی ہیں جو گذشتہ چالیس سال قبل تھے، کراچی کے ساتھ اگر یہی رویہ جاری رہا تو ایک چھوٹا واقعہ کسی بڑے المیے کا سبب بن سکتا ہے جس طرح 1985میں بشریٰ زیدی ٹریفک حادثہ کے بعد شہر میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور طویل عرصے تک اس شہر میں خانہ جنگی کا ماحول رہا۔