امریکی ڈرون حملہ امن مذاکرات کو لے ڈوبا

چوہدری نثار نے طالبان کو مذاکرات کیلئے آمادہ کیا تو امریکا نے حملہ کر کے امن مذاکرات کی دھجیاں بکھیر دیں۔


فیاض ولانہ November 05, 2013
حکیم اللہ محسود کے ہاتھ پاکستان اور امریکا کے شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے، جان کیری فوٹو: اے ایف پی/ فائل

پاکستان کی داخلی صورت حال اور پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے دیکھا جائے تو وطن عزیز اپنی تاریخ کے ایک انتہائی اہم موڑ پر کھڑا ہے۔

دسمبر2014ء سے قبل امریکی ونیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء سے تک پاکستان نے کن کن امتحانات سے گزرنا ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا مگر گزشتہ ہفتے امریکا کی جانب سے پاکستان کے شورش زدہ علاقے شمالی وزیرستان پر کئے گئے ڈرون حملے نے ایک جھلک ضرور دکھادی۔

حکومت پاکستان کی ذمہ دار ترین شخصیات کا کہنا یہ ہے کہ امریکا کے اعلیٰ ترین حکومتی عہدیداروں سے جب کہا گیا کہ طالبان سے امن مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ کئے جائیں تو انہوں نے ایسا ہی کرنے کی یقین دہانی کرائی مگر اب جبکہ امن مذاکرات کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے مقرر کئے گئے فوکل پرسن وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کئی ہفتوں کی رات دن کی محنت کے بعد متعدد رابطہ کاروں وسہولت کاروں کے ذریعے طالبان کو مذاکرات کے لیے آماہ کرلیا اور اب 3رکنی حکومتی وفد طالبان سے مذاکرات کے آغاز کے لیے شمالی وزیرستان جانے والاتھا تواس سے ایک روز قبل امریکا کی جانب سے ڈرون حملہ کرکے امن مذاکرات کو سبوتاژ کردیا گیا۔

یہ بات بھی پوری قوم جانتی ہے کہ حکیم اللہ محسود نے حکومتی رٹ کوچیلنج ہی نہ کر رکھاتھا بلکہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے مطابق اس کے ہاتھ پاکستان اور امریکا کے شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ پاکستان کے ذمہ داران کو بھی حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر افسوس ہرگز نہیں بلکہ ان کا اعتراض اور غم وغصہ اس بات پر ہے کہ ایک ایسے وقت میں ڈرون حملے کئے گئے جب پاکستان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے بڑی مشکل سے راہ ہموار کرتے ہوئے بات چیت کی میز پر بیٹھنے والا تھا ۔

انہیں غصہ اس بات پر بھی ہے کہ حکومت پاکستان سے وعدہ کرکے خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرون حملے کئے گئے۔ اس صورت حال میں توجہ طلب معاملہ یہ ہے کہ آج پاکستان میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار کا کردار اپنی سابقہ سیاسی پارلیمانی روایات سے ہٹ کر ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔آج حکومت تو مسلم لیگ(ن) اور اس کے اتحادیوں کی ہے مگر ڈرون حملوں کے تناظر میں ان کا ردعمل اپوزیشن جماعتوں کا سا ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن کی قیادت پاکستان پیپلزپارٹی کے سید خورشید احمد شاہ کر رہے ہیں مگر صوبہ خیبرپختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ بھی وہی ہے، اس تناظر میں ڈرون حملوں کے حوالے سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہی اپوزیشن کا حقیقی کردار ادا کررہے ہیں مگر عوام کے لیے یہ ایک خوشگوارحیرت سے کم نہیں کہ وہ مخالفت برائے مخالفت کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے روایتی اپوزیشن کرنے کی بجائے وفاقی حکومت اور ان کے وزیرداخلہ کے اب تک کے کردار سے مطمئن ہیں اور آئندہ بھی ڈرون حملے رکوانے کے لیے نیٹو سپلائی بند کروانے سمیت ہر اہم معاملے پر وفاقی حکومت کو اعتماد میں لیتے ہوئے اپنااحتجاج قومی وعالمی سطح پر ریکارڈ کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اسے آپ ایک نیا پاکستان ہی کہیں کہ پہلی بار اہم قومی مسئلے پر جس سے ایک عام شہری کی انتہائی جذباتی وابستگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان اور ان کی پارٹی کی ایک کال کراچی تا پشاور ہڑتال اور گھیراؤ جھلاؤ کے روایتی انداز میں کاروبار زندگی مفلوج کرسکتی تھی ، عملاً اس سے حاصل کچھ ہوتا تھا یا نہیں البتہ ایک روز میں پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان ضرور ہوناتھا۔ اب چوہدری نثارعلی خان ،عمران خان ،شاہ محمود قریشی ،مولانافضل الرحمن اوردیگر رہنماؤں کی امریکا کے خلاف قومی اسمبلی وسینیٹ میں دھواں دھار تقریروں سے عوام کے دلوں کی بھڑاس نکالنے کا عمل بھی جاری رہے گا۔ امریکا اور دیگر اقوام تک ہمارا پیغام بھی پہنچے گا اور سب سے اہم یہ کہ دنیا کو پہلی بار ایک پیغام جائے گا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت، میڈیا اورسول سوسائٹی ایک نکتے پر اس حد تک متفق ہیں کہ کوئی بھی سازش کامیاب نہ ہونے دیں گے۔



عمران خان نے تو وفاقی حکومت کو 20نومبر کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ اس سے پہلے امریکا سے یہ ضمانت حاصل کی جائے کہ وہ اب ہمارے امن مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ کرے ۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے قومی اتحاد واتفاق رائے کو دیکھتے ہوئے امریکا کو ازخود سامنے آکر اپنا موقف بھی واضح کرنا پڑے گا اور وہ پاکستان کی قومی قیادت کی خواہش کا احترام کرنے پر بھی مجبور ہوجائیں گے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ چین اور روس سمیت تمام اہم قوتیں سفارتی ذرائع سے بھی حکومت پاکستان تک اپنے تاثرات پہنچائیں گی مگر قومی اتحاد واتفاق رائے کا جادو اسی وقت سرچڑھ کر بولے گا جب ہم اس پر سختی سے کاربند رہیں اور اب تک کے شواہد بتاتے ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت میچوریٹی کی منازل تیزی سے طے کررہی ہے ۔

حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور امریکی ڈرون حملوں کے بہانے ہی سہی اگرہمارے قائدین اتفاق رائے سے قومی معاملات کا حل تلاش کرنے کے سفر پر چل نکلے ہیں اور پوری قوم کی دعائیں بھی ان کے ساتھ ہیں تو ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ وہ توانائی کے بحران کے خاتمے اور ملک وقوم کو اقتصادی ترقی وخوشحالی کے سفر پر گامزن کرنے کے لیے بھی قومی اتفاق رائے قائم کرتے ہوئے بے مثال قومی اتحاد کا مظاہرہ کریں گے۔ اس کام کے لیے بھی سید خورشید احمد شاہ خود لوئر آرڈر پر بیٹنگ کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے اوپر کے نمبروں پر کھیلنے کے لیے عمران خان کو گراؤنڈ میں اتاردیں۔

نئے پاکستان کے نعرے کے ساتھ نئی روایات قائم کرنے کی ذمہ داری بھی عمران خان کی ہی بنتی ہے اور ویسے بھی انہیں دہشت گردی کے خلاف لڑتے لڑتے چھلنی چھلنی ہوجانے والے صوبہ خیبرپختونخواہ کی تعمیر نو بھی کرنا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کی جانب سے یوں بھی سید خورشید شاہ کو یہی ہدایات موصول ہو رہی ہیں کہ جب تک حکومت وقت قومی احتساب بیورو میں موجود ان کی سابقہ حکومت کے اہم عہدیداروں کے خلاف بدعنوانی کے کیسز کا پٹارہ نہیں کھولتی ، ان سے تعاون جاری رکھاجائے۔ تعاون در تعاون کے اس کھیل میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) یوں بھی ایک دوسرے کی ممنون ومشکور ہیں کہ اگر اتفاق رائے نہ ہوتا توکراچی میں جاری آپریشن اتنی کامیابی سے ہمکنار کبھی نہ ہوتا۔ وہاں سے موصولہ اطلاعات ونتائج سے نہ صرف دوسری بڑی سیاسی قوتیں مطمئن ہیں بلکہ کراچی کے شہری بھی خوش نظر آرہے ہیں کہ انہیں زندگی کا معمول پر واپس آنا یقینی محسوس ہو رہا ہے۔

وزیراعظم نوازشریف کی حکومت افہام وتفہیم سے مسائل کے حل میں اب تک کامیاب نظر آرہی ہے مگر چیف آف آرمی سٹاف،چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، قومی اسمبلیوں کی قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کی تقرریوں،وزٕیرخارجہ ،وزیردفاع ،وزیر مواصلات اور گورنرصاحبان کی تقرریوں اور اہم قومی اداروں کے سربراہوں کی تعیناتیوں سمیت درجنوں اہم معاملات وزیراعظم نوازشریف کی کمزور قوت فیصلہ یا انجانے خوف کا عکاس نظر آتے ہیں۔ اہم قومی فیصلے کرتے ہوئے ایک نہیں بار بار بلکہ ہزار بار سوچنے کی عادت بہت اچھی بات قراردی جائے گی مگر فیصلوں میں حد سے زیادہ تاخیر کے باعث ہونے والے قومی نقصان کا ذمہ دار کسے قراردیاجائے اور پھر اس دوران عام آدمی کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے ابہام اور ان کے دلوں میں جنم لینے والے عدم اعتماد کا خاتمہ شاید وزیراعظم نوازشریف اور ان کی ٹیم کے لیے گزرتے وقت کے ساتھ مشکل تر ہوتاجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔