جھٹکا
ترکی کے صدر طیب اردگان بھی پاکستان کے سچے وفادار دوست ہیں
سعودی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اس بیان کا یقینا خیر مقدم کیا جانا چاہیے کہ اس نے کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کے سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان پرکوئی دباؤ نہیں ڈالا تھا مگر وزیر اعظم نے سعودی عرب کے دورے کے بعد جس طرح فوری طور پرکوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا اور پھر دوسرے دن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس سمٹ میں شریک کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ سعودی حکومت کوالالمپور سمٹ کے بارے میں کچھ وضاحتیں چاہتی ہے مگر چونکہ وقت کی کمی کی وجہ سے پاکستان وہ وضاحتیں کرنے سے قاصر ہے اس لیے اب پاکستان اس سمٹ میں شرکت نہیں کرے گا۔ اس کے بعد اس سمٹ کے سلسلے میں وزیر اعظم کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔
اٹھارہ دسمبر سے کوالالمپور کانفرنس شروع ہوگئی۔ ترکی کے صدر اردگان نے اپنے خطاب میں عمران خان کے سمٹ میں شریک نہ ہونے پر افسوس کا اظہارکیا اور ساتھ ہی ان کی مجبوری کا ذکر کرتے ہوئے بتایا چونکہ اس وقت پاکستان کی مالی حالت درست نہیں ہے۔ اس لیے پاکستانی حکومت کو اپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے قرض لینا پڑا۔ اب قرض دینے والے ملک نے عمران خان سے کہا ہے کہ اگر وہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کرتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنا قرض واپس طلب کر لے گا بلکہ اپنے ہاں کام کر رہے تمام پاکستانیوں کو واپس وطن بھیج دے گا۔
اگر سمٹ میں شرکت نہ کرنے کی یہ وجہ نہیں تھی تو پھر وزیر اعظم کو فوراً طیب اردگان کے اس بیان کی تردید کردینی چاہیے تھی مگر پاکستان کی طرف سے مکمل خاموشی طاری رہی جس سے پتا لگتا ہے کہ اگر عمران خان کو دھمکی نہیں دی گئی تھی تو کم سے کم کچھ خلاف توقع شرائط ضرور سامنے رکھی ہوں گی، ورنہ عمران خان کا اس سمٹ میں شرکت نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اس کا انعقاد ان کے ہی مشورے پر کیا گیا تھا۔
تاہم غیر ملکی شرائط یا دھمکیوں سے مرعوب ہونا سراسر ہماری سفارتکاری کی شکست ہی سمجھا جائے گا پھر وزیر اعظم کو اپنی مدبرانہ حکمت عملی سے شرائط یا دھمکیوں کے باوجود بھی سمٹ میں شرکت کا راستہ بنا لینا چاہیے تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی ممالک کی ناراضگی کے باوجود بھی اسلامی کانفرنس منعقد کی تھی اور نواز شریف نے سخت امریکی دھمکیوں کے باوجود ایٹمی دھماکے کیے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک مسلم حکومت کوالالمپور کانفرنس سے سخت نالاں ہے وہ اسے او آئی سی کا متبادل خیال کر رہی ہے حالانکہ مہاتیر محمد نے خود اس مسلم حکومت سے وضاحت کردی تھی کہ یہ سمٹ ہرگز او آئی سی کا متبادل نہیں ہے مگر لگتا ہے وہ حکومت پھر بھی اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہوئی تھی جب ہی تو او آئی سی کے سیکریٹری جنرل سے کوالالمپور سمٹ کے خلاف سخت بیان دلوایا گیا جس میں اس سمٹ کے انعقاد کو او آئی سی کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش قرار دیا گیا۔
کیا او آئی سی اپنی سمت کھو چکی ہے۔ مسلم ممالک نے اسے اپنے جن مقاصد کے لیے قائم کیا تھا کیا وہ تمام پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ اب اس ارادے پر ایک مسلم حکومت کے ذریعے مغربی ممالک اثرانداز ہو رہے ہیں۔ کیا یہ او آئی سی پر مغرب کے غلبے کا اثر نہیں ہے کہ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ بنالیا اور امریکا نے اسے اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرلیا پھر ٹرمپ حکومت نے فلسطینی حکومت کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا ادھر امریکی شے پر بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر اپنا کنٹرول قائم کرلیا مگر او آئی سی نے ان تمام مذموم کارروائیوں کے خلاف کچھ نہیں کیا۔
شاید اس لیے کہ یہ مسلم حکومت امریکا اور بھارت سے اپنے تعلقات کو خراب کرنا نہیں چاہتی۔ کشمیر پوری مسلم امہ کا مسئلہ ہے مگر حال ہی میں ان مسلم حکومتوں کی جانب سے پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اس مسئلے کو پوری امت کا مسئلہ نہ بنائے شاید کہ اس وجہ سے ان کے بھارت کے ساتھ مالی مفادات متاثر ہو رہے ہیں۔
گزشتہ سال جولائی میں منعقدہ او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں سابق بھارتی وزیر خارجہ کو مدعو کیا گیا اور یو اے ای حکومت اس بات پر زور دیتی رہی کہ بھارت کو بھی او آئی سی کا ممبر بنا لیا جائے جب کہ او آئی سی کے چارٹر کے مطابق کسی بھی غیر مسلم ملک کو اس کا ممبر نہیں بنایا جاسکتا۔ ان مسلم حکومتوں کے انھی غیر ذمے دارانہ رویوں اور او آئی سی کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے اب مسلم ممالک اپنے مسائل کے حل کے لیے ایک فعال اسلامی تنظیم قائم کرنے کی شدت سے ضرورت محسوس کر رہے ہیں اور اسی مقصد کے تحت طیب اردگان اور مہاتیر محمد نے ایران اور قطر کے ساتھ مل کر 2014 سے کوالالمپور سمٹ کا آغاز کردیا تھا۔ حالیہ کوالالمپور سمٹ میں باون اسلامی ممالک کے نمایندگان کے علاوہ ترکی، ایران، قطر اور ملائیشیا کے سربراہان مملکت کی شرکت ایک حوصلہ افزا واقعہ ہے۔
مسلم ممالک کی اس دلچسپی سے صاف ظاہر ہے کہ او آئی سی نے اپنے منشور کے مطابق مسلمانوں کو غیروں کی اجارہ داری اور محکومی سے نجات دلانے، اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے اور مسلم ملکوں کے معاشی حالات سدھارنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ خوش قسمتی سے کوالالمپور کانفرنس میں کئی اہم تجاویز پیش کی گئیں جن میں ایک اسلامی ٹی وی چینل کا قیام، تمام مسلم ملکوں کی ایک مشترکہ کرنسی کا اجرا اور مشترکہ منڈی کے علاوہ مشترکہ دفاعی نظام قائم کرنا شامل ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکی اشارے پر پاکستان کو اس سمٹ میں شرکت کرنے سے روکا گیا تھا۔ پاکستان کے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کے اعلان کے فوراً بعد ہی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے تعریف میں ایک ٹوئیٹ کیا ۔
ابھی حال میں کشمیر کے مسئلے پر ترکی اور ملائیشیا نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ دیگر اسلامی ممالک کی طرح انھوں نے اپنے مالی مفادات کا بھی خیال نہیں کیا تھا بھارت ملائیشیا سے ہر سال کروڑوں روپے کا پام آئل امپورٹ کرتا ہے مگر کشمیر پر پاکستانی موقف کی ترجمانی کرنے پر بھارتی تاجروں نے نریندر مودی کے حکم پر ملائیشیا سے پام آئل درآمد نہ کرنے کا اعلان کردیا تھا اس کے علاوہ بھارت نے ملائیشیا سے پاکستان کا ساتھ دینے پر سخت احتجاج بھی ریکارڈ کرایا تھا مگر مہاتیر محمد نے نہ اپنے تیل کی فروخت کے نقصان کی پرواہ کی اور نہ بھارتی احتجاج کو گھاس ڈالی۔
ترکی کے صدر طیب اردگان بھی پاکستان کے سچے وفادار دوست ہیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں سے ان جیسی محبت کوئی اور نہیں کرسکتا مگر افسوس کہ وزیر اعظم کی کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے سے ہمارے ان دونوں مخلص دوستوں کو سخت صدمہ پہنچا ہے امید ہے کہ اس کے باوجود بھی وہ پاکستان کے دوست اور ہمارے مفادات کے لیے سرگرم رہیں گے اب جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے کوالالمپور سمٹ میں ایغور مسلمانوں کا معاملہ اٹھایا جانا تھا تو اس سلسلے میں چین کو اعتماد میں لیا جاسکتا تھا البتہ اب ہمیں محتاط رہنا ہوگا۔
جب خانہ کعبہ پر سعودیوں کے مخالف گروپ نے قبضہ کرلیا تھا اور اس وجہ سے سعودی حکومت کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا تھا یہ پاکستانی فوج تھی جس نے وہاں حالات سدھارے تھے اس کے علاوہ سعودی شاہی خاندان کی حفاظت کے لیے برسوں سے پاکستانی فوجی دستے وہاں موجود ہیں۔ سعودی حکومت کی فرمائش پر اسلامی ممالک کو دہشت گردی سے پاک رکھنے کی غرض سے قائم ہونے والی فوج میں پاکستان نے بھرپور حصہ ڈالا ہے اور اس فوج کا سربراہ بھی ایک پاکستانی ہے۔
متحدہ عرب امارات کے لیے بھی پاکستان نے مختلف مواقع پر دل و جان سے خدمات انجام دی ہیں۔ کوالالمپور کانفرنس کے انعقاد کی مذمت کرنا بعض مسلم ممالک کو زیب نہیں دیتا اگر وہ او آئی سی کو آزادانہ کام کرنے کا موقع فراہم کریں اور مسلمانوں کے دشمنوں کی ہمت افزائی کرنے کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں تو مسلمان او آئی سی کی متبادل کسی دوسری مسلم تنظیم قائم کرنے کا کبھی خیال بھی دل میں نہیں لائیں گے۔ تاہم ہماری حکومت نے کوالالمپور سمٹ کے حوالے سے جو مرعوب ہونے والا رویہ اختیار کیا ہے اس سے اس کی خودداری کو جھٹکا لگا، ہمارے دشمنوں کو خوشی ملی اور دوستوں کو ہم سے محتاط رہنے کا تاثر ملا۔