محکمہ داخلہ پنجاب میں اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 17 ارب روپے کی بدعنوانیوں کی نشاندہی پر مشتمل رپورٹ پنجاب اسمبلی میں جمع کرادی


طالب فریدی December 30, 2019
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 17 ارب روپے کی بدعنوانیوں کی نشاندہی پر مشتمل رپورٹ پنجاب اسمبلی میں جمع کرادی فوٹو:فائل

محکمہ داخلہ پنجاب میں اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 17 ارب روپے سے زائد بے ضابطگیوں و بدعنوانیوں کی نشاندہی پر مشتمل رپورٹ پنجاب اسمبلی میں جمع کرادی۔ رپورٹ کے مطابق پولیس ٹرانسپورٹ شعبہ میں گاڑیوں کی مرمت کے نام پر 2 کروڑ روپے سے زائدحاصل کئے گئے جبکہ گاڑیاں سرکاری کھاتوں میں موجود نہیں تھیں۔

2014 سے 2017 کے دوران سیکڑوں پولیس ملازمین کے نام پر 16 کروڑ 80 لاکھ اضافی رقم غیر قانونی طور پر الاؤنسز کے نام پر سرکاری خزانے سے حاصل کی گئی، 37 ادائیگیاں 2014 سے 2017 کے دوران کی گئی جس میں 2 ارب 81 کروڑ 61 لاکھ روپے سے زائد ادائیگیوں کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔

پنجاب بھر کے مختلف پولیس افسران کے دفاتر، فرانزکس سائنس ایجنسی، چائیلڈ پروٹیکشن بیورو اور مختلف جیلوں میں 2 ارب 11 کروڑ 85 لاکھ روپے کی خریداری پیپرا قوانین کے بر خلاف کی گئی۔

آٹھ اضلاع کے ڈی پی اووز، چار اضلاع کے سی ٹی اووز سمیت پولیس کے مختلف شعبوں میں مختص کر دہ بجٹ سے 73 کروڑ روپے زائد بغیر منظوری کے خرچ کئے گئے۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سی ٹی ڈی لاہور کے دفتر سمیت، جہلم، اوکاڑہ، راجنپور، اسپیشل برانچ ملتان، ڈسٹرکٹ جیل لاہور، وہاڑی سمیت دیگر دفاتر میں خریداری کے لئے غیر قانونی طور پر 20 کروڑ روپے سے زائد کیش کی صورت میں ادا کئے گئے۔

سیکرٹ سروسز کے نام پر سی ٹی ڈی لاہور، ڈی آئی جی سیکورٹی، ہوم سیکرٹری، اسپیشل برانچ، ڈی پی او سیالکوٹ، سرگودھا، خوشاب، جھنگ سمیت ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کے دفتر میں 60 کروڑ روپے سے زائد کی کیش ادائیگیوں کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

سی ٹی ڈی لاہور، اسپیشل برانچ، 22 ڈی پی اووز سمیت مختلف پولیس افسران کے دفاتر میں پٹرول کی مختص کردہ مقدار سے 40 کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگیاں کی گئیں۔ پنجاب کی 10 جیلوں میں قیدیوں کو کھانا کھلانے کے نام پر 18 کروڑ 74 لاکھ روپے سے زائد کی غیر قانونی ادائیگیاں کی گئیں۔

ڈی پی او سرگودھا، بہاولپور، قصور، لیہ اور میانوالی کے دفاتر میں پولیس قومی رضا کاروں کے نام پر 2 کروڑ 42 لاکھ غیر قانونی زائد ادائیگیاں کی گئیں۔

تفتیشی اخراجات کے نام پر ڈی آئی جی انویسٹی گیشن، سی پی او راولپنڈی سمیت 11 ڈی پی اووز کے دفاتر میں 6 کروڑ 71 لاکھ روپے کی ادائیگیوں کا ریکارڈ موجود نہیں،پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی توسیع کے لئے خریدی گئی کی اراضی میں 4 کروڑ 35 لاکھ روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں، مختلف ٹھیکہ داروں کو خریداری کی مد میں ٹیکس کی کٹوتی نہیں کی گئی جس سے ٹھیکہ داروں کو 9 کروڑ 90 لاکھ روپے کا فائدہ پہنچا۔

گوجرانوالہ ،لاہور، جھنگ، سرگودھا، خوشاب سمیت دیگر اضلاع میں پولیس کی جانب سے مختلف اداروں، بنکوں اور دیگر کو دی گئی سیکورٹی کی مد میں 62 کروڑ روپے سے زائد کی رقم متعلقہ افراد سے وصول نہیں کی گئی۔

مختلف اضلاع میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں کرنے والے افراد سے 17 کروڑ 10 لاکھ روپے سے زائد کی رقم جرمانے کی مد میں وصول نہیں کی گئی۔ 57 ایسے پولیس افسران جو نوکری سے معطل رہے یا گیارہ دن سے زائد چھٹی پر رہنے کے باوجود 3 کروڑ 26 لاکھ روپے مختلف الاؤنسز کی مد میں وصول کرتے رہے۔

کمانڈنٹ سہالا، سپرنٹنڈنٹ اسپیشل برانچ ملتان، سپیشل برانچ لاہور، سی پی او راولپنڈی، ڈی پی او ننکانہ اور سی ٹی او لاہور 2015 سے 2017 کے دوران نوکری سے برخاست ہونے کے باوجود 40 لاکھ روپے سے زائد تنخواہ کی مد میں وصول کرتے رہے۔

ڈرائیونگ اسکول فیس، ڈرائیونگ لائسنس فیس، میڈیکل فنڈ اور کنٹین رینٹ کی مد میں 1 ارب 85 کروڑ 53 لاکھ سے زائد کی رقم قومی خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی۔ پولیس کی مختلف گاڑیوں سمیت دیگر سامان کی نیلامی نہ کرنے کی وجہ سے قومی خزانے کو 47 کروڑ 88 لاکھ سے زائد کا نقصان پہنچا۔

پولیس رضاکاروں کو 2015 سے2016 کے دوران تربیت دینے والے ٹرینرز کو 6 کروڑ کی ادائیگیاں کی گئیں جبکہ تربیت سے متعلق کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔

پولیس ٹریننگ کالج چوہنگ، ڈی پی او خوشاب، قصور سمیت بٹالین سات میں 31 کروڑ 59 لاکھ مبینہ طور پر گھوسٹ ملازمین پر خرچ کئے جانے کی نشاندہی کی گئی۔ ڈسٹرکٹ جیل لاہور میں موبائل فون جیمرز کی خریداری سمیت مختلف یوٹیلٹی بلوں کی مد میں 36 کروڑ 26 لاکھ روپے قانون کے خلاف ایڈوانس میں ادا کئے گئے۔

آڈیٹر جنرل نے سی ٹی ڈی، انویسٹی گیشن، اسپیشل برانچ، جیلوں سمیت مختلف اضلاع میں پولیس افسران و ملازمین کو الاؤنسز کی مد میں ادا کی گئی 88 کروڑ روپے کی رقم پر تحفظات کا اظہار کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں