بھارت میں ہٹلر کا راج
بھارتی حکومت اور فورسز نے کشمیری عوام کو زیر کرنے کے لیے ہر قسم کا ظالمانہ اقدام کیا ہے
RAWALPINDI:
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر جمہوریہ سمجھا جانے والا بھارت مودی حکومت کے متشددانہ، متعصبانہ اور ظالمانہ اقدامات کے باعث تعصب ، تنگ نظری ، مذہبی تفریق اور انتہا پسندی کی ریاست بن چکا ہے۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد سے نریندر مودی کی حکومت بھارت میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف ایسے اقدامات کر رہی ہے، جنھیں انتہا پسندی کے سوا کوئی بھی نام نہیں دیا جاسکتا۔ مسلم دشمنی میں پروان چڑھی سوچ کی حامل جماعت بی جے پی کے رہنما نریندر مودی حکومت سنبھالنے کے بعد سے مشن سمجھ کر بھارتی مسلمانوں کے خلاف جارحانہ اقدامات کر رہے ہیں۔ اب بھارتی حکومت نے مسلم دشمن شہریت قانون پاس کیا ہے، جس کے تحت پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ترکِ وطن کرکے 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت پہنچنے والے ہندو ، عیسائی ، سکھ ، پارسی ، بودھ اور جین مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی ، لیکن مسلمان اس فہرست سے باہر رہیں گے۔
بھارتی حکومت اس قانون کے تحت نہ صرف پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے سالہا سال پہلے بھارت جانے والے مسلمانوں کے حقوق شہریت تسلیم نہیں کر رہی ، بلکہ جو مسلمان صدیوں سے وہاں آباد ہیں ، ان سے بھی بھارتی شہری ہونے کے ثبوت مانگ رہی ہے۔ یہ بھارت کو ہندو مملکت بنانے کی طرف دیگر بہت سے اقدامات کی طرح ایک اور سنگدلانہ اقدام ہے ، جو انتہا پسند ہندوؤں کے فلسفہ ''ہندو توا '' پر عمل درآمد کے لیے کیا جا رہا ہے۔ مودی سرکار نے پہلے مقبوضہ کشمیرکو بھارت میں مدغم کرنے کا غیر آئینی قدم اٹھایا جس کا مقصد وہاں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کے لیے ہندوؤں کو بسانا ہے۔
بھارتی حکومت اور فورسز نے کشمیری عوام کو زیر کرنے کے لیے ہر قسم کا ظالمانہ اقدام کیا ہے، 5 اگست کے بعد سے اب تک وہاں کرفیو نافذ ہے اور نظام زندگی معطل ہے ، لیکن غیور کشمیریوں کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس کے بعد خود بھارت میں بھی مسلمانوں کے خاتمے کے لیے پارلیمنٹ سے قانون منظورکرا لیا گیا۔
نریندر مودی کا بھارت غاصبانہ سوچ ، جنگی جنون اور نفرت انگیز نسل پرستی کا علم بردار بن کر علاقائی اور عالمی امن کے لیے جتنے سنگین خطرے کی حیثیت اختیارکر چکا ہے، وہ ساری دنیا پر عیاں ہے۔ مودی حکومت کے گزشتہ دور حکومت میں نسلی بالا دستی کے سفاک نظریے ہندو توا کے سائے میں بھارت کا رخ ہندو راشٹرا کی جانب موڑا گیا اور اپنے دوسرے دور میں مودی سرکار اپنے نسل پرستانہ پروگرام کی تکمیل کے لیے تیزی سے اقدامات کر رہی ہے۔ مودی حکومت کے فساد انگیز شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بھارتیوں کی ایک بڑی تعداد احتجاج کی راہ پر چل نکلی ہے۔
شہریت قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں صرف مسلمان نہیں ، بلکہ بھارت کی تمام اپوزیشن جماعتیں اور ہر مذہب و مسلک کے لوگ شریک ہیں۔ پورا بھارت احتجاج کی لپیٹ میں ہے۔ پورے بھارت میں کرفیو کی سی کیفیت ہے۔ ہر شہرمیں مظاہرے احتجاج اور ریاستی تشدد سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں اورگرفتاریوں کانہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے کیے گئے حالیہ مسلمان مخالف فیصلوں پر بھارت میں مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دی جانے لگی ہے،کیونکہ نریندر مودی مسلمانوں کے معاملے میں ہٹلرکا کردار ادا کر رہا ہے۔
مودی بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کر کے انھیں ختم کرنا چاہتا ہے، اس مقصد کے لیے ہر غیرآئینی اقدامات پر عمل کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ بھارت میں کبھی اس قدر شدید ردعمل نہیں آیا ، جتنا شہریت بل کی منظوری پر آیا ہے۔ مودی حکومت مظاہرین کو دبانے کے لیے ظلم و جبر کے بد ترین حربے استعمال کررہی ہے، لیکن مظاہرین کو دبانے اور روکنے میں بری طرح نا کام ہو رہی ہے۔ سخت سردی اور حکومت کے تما م تر ستم وجبرکے باوجود مظاہرین اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
انتہا پسند مودی اور اس کی جماعت کی جانب سے مسلم دشمن شہریت قانون سازی '' ہندوراشٹرا'' کے تصورکو عملی شکل دینے کی طرف ایک اور بڑا قدم ہے۔ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ، سمجھوتہ ایکسپریس کے سانحہ ، گائے کے محافظ جتھوں کے ہاتھوں بہت سے مسلمانوں کا قتل ، گھر واپسی اور ایسی ہی کئی دیگر بدنام زمانہ مہموں کے علاوہ مسیحیوں ، سکھوں ، جین اور دلت جیسے نچلی ذات کے ہندوؤں پر بہیمانہ تشدد انتہا پسند بھارتی ذہن کی پوری طرح تشریح اور تعارف پیش کرتے ہیں۔ بھارتی قانون سازی نے ایک بار پھر بھارتی ''جمہوریت'' اور ''سیکولر ازم '' کے کھوکھلے دعووؤں کو بے نقاب کر دیا ہے۔
نریندر مودی اور ان کی پارٹی نے بھارت میں اقتدار پانے کے بعد اپنے مسلم دشمن ہندو فرقہ پرست چہرے کی ساری نقابیں اتار پھینکی ہیں اور اب بھارت بھر میں ہندو انتہا پسندی کا رقصِ وحشت جاری ہے۔ کشمیریوں کے حق خود ارادی پر ڈاکا ڈالنے کے بعد شہریت کا یہ فرقہ پرستانہ قانون نافذ کر دیا گیا جو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ایک بد ترین مثال اور بھارت کے سیکولر غیر جانبدارانہ کردار کے خاتمے کا حتمی اعلان ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مذہبی تعصب ، فرقہ وارانہ منافرت اور مسلم دشمنی پر مبنی پالیسیوں کے خلاف بھارت میں پوری اپوزیشن اور تمام اعتدال پسند عناصر کی جانب سے جاری ہمہ گیر احتجاج کو پوری دنیا نہ صرف دیکھ رہی ہے، بلکہ اْس کے خلاف عالمی سطح پر واضح ردِ عمل بھی نظر آرہا ہے۔ بھارت کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس قانون کو مسترد کر دیا ہے اور عالمی برادری نے بھی اس کے خلاف واضح طور پر منفی رد عمل ظاہرکیا ہے۔ بھارت میں سیکولر سوچ رکھنے والا ہر بھارتی اس قانون کی مذمت کر رہا ہے، کیونکہ اس قانون سے بھارتی سیکولر ازم ، جس کی ضمانت بھارت کے آئین میں دی گئی ہے، بری طرح سے مجروح ہوگا۔ بھارت سیکولر نظریے کی بنیاد پر قائم کی گئی ریاست ہے ، سیکولر ریاست پر لازم ہوتا ہے کہ وہ کسی خاص مذہب اور فرقے کے نظریات کی علمبردار نہیں اور وہاں تمام مذاہب کو یکساں حقوق دیے جائیں گے ، لیکن بھارت میں سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔
بھارت کو ہندوؤں کے لیے تو جنت بنایا جا رہا ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے جہنم بنا دیا گیا ہے۔ یہ قانون بھارتی سیکولر ازم کی موت ثابت ہوگا۔ بھارت میں سیکولر ازم کی موت کے ساتھ ہی بھارت کی موت شروع ہو جائے گی، کیونکہ بھارت میں بہت سی علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں ، اگر بھارتی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ کارروائیوں ، نفرت آمیز رویوں اور ظالمانہ قوانین کا سلسلہ جاری رکھا تو بھارت میں علیحدگی کی ایک بہت بڑی تحریک مسلمانوں کی ہوگی ، جس کوکامیاب ہونے سے مودی سرکار نہیں روک سکے گی۔
انسانی حقوق کا عالمی منشور ہر طرح کے امتیازات اور مذہب و عقائد کی بنیاد پر تعصبات کی نفی کرتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت پوری عالمی برادری کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے مختلف ملکوں کے خلاف حسبِ ضرورت سخت اقدامات کیے جانے کی بہت سی مثالیں اقوام متحدہ کی تاریخ میں موجود ہیں۔
مقبوضہ کشمیر اور اس کے بعد پورے بھارت کو مسلمانوں کے لیے اندھیر نگری مچانے سے مودی سرکارکو روکنے کے لیے عالمی برادری کی جانب سے موثر مداخلت ضروری ہے۔ یہ عالمی برادری کی ذمے داری ہے، اگر اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس ضمن میں ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھاتے تو ان کی سوچ کو بھی دوغلا پن قرار دیا جائے گا ، کیونکہ جہاں مسلمان متاثر ہوں وہاں عالمی برادری خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے، یہ سرا سر نا انصافی ہے۔