اصلاحاتی ایجنڈے کے ساتھ بجلی منافع کے بقایاجات جلد ادا کرنا ہوں گے
موجودہ وزیراعظم عمران خان کو بھی اسی طرح کا اقدام کرنا ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان نے ہفتہ کے روز پشاور کا دورہ تو کرنا ہی تھا تاہم یہ دورہ ہنگامی حالات میں ہوگیا۔
وزیراعظم کراچی سے اسلام آباد جا رہے تھے تاہم موسم نے انھیں اسلام آباد اترنے کی اجازت نہیں دی جس کے باعث وہ پشاور آگئے اور اگلے ہی روز انہوں نے پشاور میں نہ صرف صوبائی کابینہ کے ارکان سے ملاقات کی بلکہ اوورسیز پاکستانیوں سے بھی انہوں نے خطاب کیا، وزیراعظم نے کابینہ اجلاس کے دوران واضح کردیا کہ خیبرپختونخوا کی عوام نے پی ٹی آئی پر دوبارہ اعتماد کا اظہارکیا ہے اس لیے اب ہمارا نمبر ہے کہ ہم ان کی خدمت کریں۔
وزیراعظم نے یہ بھی ہدایت کی کہ قبائلی اضلاع کے مسائل کو حل کرتے ہوئے انھیں ہر ممکن سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے اورتیسری بات انہوں نے اداروں میں اصلاحات کے ایجنڈے کے نفاذ سے متعلق کی ہے اور واضح کیا کہ اصلاحاتی ایجنڈے کا نفاذ ہر صورت میں کیا جائے گا اور اس کا نفاذ صرف محکمہ صحت کی حد تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے بعد یہ سلسلہ محکمہ تعلیم اور دیگر شعبہ جات تک بھی چلتا رہے گا اور اس کا دائرہ دیگر صوبوں تک بھی وسیع کیا جائے گا۔ وزیراعظم کا خیبرپختونخوا میں کھڑے ہوکر یہاں کی عوام کو مثبت پیغام دینا یقینی طور پرخوش آئند ہے۔
تاہم یہ زیادہ مناسب ہوتا کہ وہ پشاورمیں کھڑے ہوکرخیبرپختونخوا کے لیے بجلی منافع کے بقایاجات کا مسلہ حل کرنے کا اعلان کرتے کیونکہ یہ مسلہ تاحال حل طلب ہے، یہ معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں بھی ایجنڈے پر رہا اور وہاں ایک مرتبہ پھر کمیٹی کے حوالے کردیا گیا۔
تاہم یہ معاملہ کمیٹیوں کے ذریعے حل نہیں ہو سکتا بلکہ اسے اسی طرح حل کرنا ہوگا جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت میں حل ہوا تھا اور خیبرپختونخوا کو بقایاجات کی مد میں 110 ارب کی ادائیگی کا آغاز کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے فوری طور پر خیبرپختونخوا کو دس ارب روپے کا چیک دے دیا تھا جبکہ بقایا سو ارب چار سالوں میں یکساں طور پر پچیس، پچیس ارب کی اقساط میں ادا کرنے کا اعلان کیا گیا جس پر عمل درآمد بھی کیا گیا، موجودہ وزیراعظم عمران خان کو بھی اسی طرح کا اقدام کرنا ہوگا اور بقایاجات کی ادائیگی کے ساتھ سالانہ منافع میں بھی خاطر خواہ اضافہ کرنا چاہیے تاکہ خیبرپختونخوا میں زیادہ پیسہ آئے، عوام پر لگے اور خوشحالی آسکے۔
قبائلی اضلاع کے حوالے سے بھی انہوں نے بجاطور پر کہا کہ وہاں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے جو نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ قبائلی اضلاع میں ترقیاتی فنڈز کا استعمال نہایت ہی سست روی کے ساتھ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے رواں مالی سال کے دوران قبائلی اضلاع کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز کا نہایت ہی کم حصہ وہاں استعمال ہو سکا ہے اور اس صورت حال کی وجہ سے قبائلی عوام کو ترقیاتی فنڈز کے استعمال کے ثمرات نہیں مل پا رہے لہٰذا وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کو قبائلی اضلاع کے حوالے سے خصوصی حکمت عملی اپنانی ہوگی تاکہ روایتی کی بجائے غیر روایتی انداز سے قبائلی اضلاع میں ترقیاتی فنڈز کا استعمال کیا جا سکے اور وہاں تبدیلی نظر آنا شروع ہو جائے۔
جس کے ساتھ ہی وہاں امن وامان کی صورت حال پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ قبائلی اضلاع میں امن وامان کے حوالے سے مسائل نے پھر سر اٹھانا شروع کردیا ہے جن پر ابھی سے توجہ دینا ضروری ہے کیونکہ قبائلی اضلاع جو مشکل وقت دیکھ چکے ہیں انھیں دوبارہ ان حالات کی طرف دھکیلنا کسی بھی طور مناسب نہیں۔قبائلی اضلاع میں چونکہ سکیورٹی فورسز تو پہلے سے موجود ہیں جبکہ اب پولیس وہاں قدم رکھ چکی ہے اس لیے معاملات کو کنٹرول میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عسکریت پسند جنہوں نے قبائلی اضلاع میں تباہی پھیلائی اور دہشت وبربریت کی داستانیں رقم کیں انھیں دوبارہ قدم جمانے کا موقع نہ مل سکے۔
وزیراعظم کی جانب سے اصلاحاتی پروگرام پر ہر صورت عمل درآمد کرنے کی بات بھی پورا پیغام لیے ہوئے ہے کیونکہ سمجھا یہ جا رہا تھا کہ ڈاکٹروں نے ڈیڑھ ماہ کے لگ بھگ جو ہڑتال کی تھی اس کے نتیجے میں محکمہ صحت میں ریجنل اور اضلاع کی سطح پر ہیلتھ اتھارٹیز کے قیام اور اس منصوبے پر عمل درآمد کو روک دیاگیا ہے اور اب معاملات کسی اور رخ چلیں گے۔
تاہم وزیراعظم کی جانب سے واضح کردیا گیا ہے کہ حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے پر کام جاری رہے گا اور محکمہ صحت کے بعد تعلیم اور دیگر اداروں اور شعبہ جات میں بھی اصلاحات لائی جائیں گی اور پھر یہی ماڈل اب پنجاب میں بھی اپنایاجائے گا، وزیراعظم کی جانب سے کہی گئی یہ بات حکومتی پالیسی کو واضح کرگئی ہے۔
ڈائریکشن تو سابق صوبائی سینئر وزیر فریدطوفان کوبھی بالآخر مل ہی گئی ہے جو اے این پی سے نکال باہر کیے جانے کے بعد ڈولتی ہوئی پتنگ کی طرح ادھر،ادھر اڑتے پھر رہے تھے اور ایک کے بعد ایک پارٹی میں شمولیت اختیار اور اسے چھوڑکر آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے تاہم اب وہ دوبارہ اے این پی سے آن ملے ہیں اور بس ان کی شمولیت کے اعلان کی رسمی کاروائی ہونا باقی رہ گئی ہے۔
فرید طوفان، بیگم نسیم ولی خان کے ساتھ اکٹھے ہی زیر عتاب آئے تھے جب پارٹی کے اندر بغاوت ہوئی اور بیگم نسیم ولی خان کو پارٹی صدارت سے ہٹاتے ہوئے بشیر بلور کو پارٹی صدر بنایا گیا تھا تو ساتھ ہی فرید طوفان کو بھی پارٹی سے نکال باہر کردیا گیا جو اس وقت پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری بھی تھے اور روح رواں بھی اور بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ فرید طوفان پر پارٹی کے دروازے دس سالوں کے لیے بند کرتے ہوئے ان کی واپسی کی راہ روک دی گئی۔
فرید طوفان اس صورت حال سے دوچار ہونے کے بعد پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن سے ہوتے ہوئے دوبارہ بیگم نسیم ولی خان سے آن ملے اور دونوں نے مشترکہ طور پر اے این پی ولی کے نام سے پارٹی کی بنیاد رکھی تاہم جب ولی خان فیملی کے چھوٹے اٹھے اور انہوں نے بڑوں کو ایک کردیا تو بیگم نسیم ولی خان اے این پی ولی سے بھی کنارہ کش ہوکر گھر تک محدود ہوگئیں جس کے باعث فرید طوفان ایک مرتبہ پھر بے یارومددگار رہ گئے۔
جنہوں نے اپنی عافیت اسی میں جانی کہ وہ چڑھتے سورج کی پوجا شروع کردیں جس کے لیے انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی اور گزشتہ سال کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی ہی کے ٹکٹ پر حصہ لیا تاہم انکی قسمت نے یاوری نہیں کی اور وہ الیکشن میں کامیابی حاصل نہ کر سکے لیکن شاید اس طریقے سے ان کی اے این پی میں واپسی کی راہ ہموار ہونی تھی یہی وجہ ہے کہ فرید طوفان ،اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان سے ملاقات کے لیے ولی باغ پہنچ گئے جہاں انہوں نے اسفندیارولی خان اور ایمل ولی خان ، دونوں سے ملاقات کی اور اے این پی میں ان کی واپسی کی راہ ہموار ہوگئی ۔
آنے والے دنوں میں وہ اسفندیارولی خان کی موجودگی میں جلسہ عام میں اے این پی میں دوبارہ شامل ہونے کا اعلان کردیں گے،اے این پی میں آپریشن کلین اپ بھی جاری ہے اور بہت سے رہنماؤں آؤٹ ہو چکے ہیں تاہم یہ عمل ابھی پوری طرح مکمل نہیں ہوا اور شنید ہے کہ آنے والے دنوں میں کچھ مزید صفائی بھی ہوگی۔
ایسے میں فرید طوفان کی آمد کسی نئے طوفان کا پیش خیمہ ہی ثابت نہ ہو؟ کیونکہ کچھ لوگوں کی نظریں پارٹی کے ایک بڑے لیڈر کی طرف اٹھ رہی ہیں اور فرید طوفان کی آمد کے بعد ان کے شک کو مزید تقویت بھی مل رہی ہے۔
تاہم یہ بات بھی واضح رہے کہ فرید طوفان اب پندرہ سال پہلے والے طوفان نہیں، اس عرصے میں پلوں کے نیچے سے بہت سے پانی بہہ چکاہے اور وہ لوگ جو بیگم نسیم ولی خان اور فرید طوفان کے دور میں دوسرے اور تیسرے درجے کے قائدین سمجھے جاتے تھے وہ اب بہت سی منازل طے کرتے ہوئے صف اول کے لیڈر بن چکے ہیں جنھیں ان کے مقام سے ہٹانا اور وہ بھی فوری طور پر شاید اتنا آساں نہ ہو کہ جتنا سمجھ لیا گیا ہے۔