فنگ شوئی کے سنہری اصول
کائنات کی ہر چیز اپنا ایک اثر رکھتی ہے۔ تمام مظاہر فطرت سے نکلنے والی لہریں انسانی مزاج...
کائنات کی ہر چیز اپنا ایک اثر رکھتی ہے۔ تمام مظاہر فطرت سے نکلنے والی لہریں انسانی مزاج، رویوں اور سوچ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ انسان کے جسم میں توانائی کی لہریں موجزن رہتی ہیں۔ یہ برقی رو جذبات، خیالات اور عقائد پر مبنی ہیں۔ انسان کے جسم کی منفی و مثبت لہریں اس کے اردگرد کے ماحول اور لوگوں کو متاثر کرتی ہیں، انھیں chi energy (کی انرجی) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح گھر کے ماحول سے بھی توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ اگر گھر زرخیز زمین پر بنا ہے تو وہاں صحت مند قوت موجود ہے۔ لیکن اگر گھر بنجر زمین پر واقع ہے تو وہاں لہروں کے اثرات مختلف ہوں گے۔
کچھ دن پہلے فنگ شوئی کے موضوع پر ایک اچھی کتاب میری نظر سے گزری جس کے مصنف سائمن براؤن ہیں۔ کتاب کا عنوان ہے۔ ''feng shui in a weekend'' ویسے بھی فنگ شوئی ریکی، میڈیٹیشن، جیومینسی، دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ انگریزی میں ان موضوعات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس روحانی مکتبہ فکر کا تعلق چین اور جاپان سے ہے۔ لیکن یہ علوم تبت، انڈیا، سری لنکا، انڈونیشیا میں مروج ہیں اور اب پاکستان میں بھی مقبول ہو رہے ہیں، ان کی افادیت کے چرچے ایشیا سے لے کر یورپ تک پھیلے ہوئے ہیں، فنگ شوئی کی طرح جیومینسی بھی زمین اور ماحول کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے مگر فنگ شوئی کے موضوعات کا دائرہ وسیع ہے۔
ریکی بھی انسان کے اندر موجود فطری توانائی کو صحیح رخ عطا کرتی ہے اور اسے کائنات کی لہروں سے ہم آہنگ کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہے، جہاں تک مراقبے کی اہمیت ریکی، فنگ شوئی سے لے کر صوفی ازم تک سمجھی جاتی ہے، اس کی مشقوں سے یک سوئی پیدا ہوتی ہے۔ میڈیٹیشن کا مطلب ہے غور و فکر کرنا، فطرت کے بارے میں سوچنا بھی مراقبہ ہے۔ فنگ شوئی کی جڑیں انڈیا، تبت اور چین تک پھیلی ہوئی ہیں لیکن چائنا نے اس علم پر زیادہ کام کیا ہے جسے ''KAN YU'' کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ''ارض و سماء'' جو زمین سے لے کر آسمانوں تک کی دنیا کو دریافت کرتا ہے۔ فنگ شوئی کا مطلب ہے ہوا اور پانی جو قدیم چین کے عقائد کے مطابق زمین اور آسمان سے ملحقہ قوت ہے۔
فنگ شوئی زندگی کے تمام تر پہلو میں بہتری لانے کا علم ہے۔ فنگ شوئی کا ایک سوال یہ بھی ہے کہ آپ اپنی زندگی سے کیا چاہتے ہیں؟ اگر انسان وقت پر جان لے کہ وہ کیا چاہتا ہے تو منزل کی طرف جانے والے راستے واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس علم کی حقیقتیں انسان کو خود آگہی عطا کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں مثبت انداز فکر، سوچیں ایک ہی مقصد پر مرکوز کرنا، حقیقت پسندی، سچائی، مضبوط قوت ارادی و زندہ دلی جیسی خوبیاں ابھارنا فنگ شوئی کا محور ہے۔ مقصد کا یقین کرنا بالکل اسی طرح ہے جیسے عمارت بناتے وقت اس کی بنیاد ڈالی جائے۔
فنگ شوئی کی خاص بات زندگی اور رشتوں کو بہتر بنانا ہے۔ زندگی اور رشتوں میں اس وقت بہتری آتی ہے جب انسان کی شخصیت میں سچائی سنجیدگی اور لچک ہوتی ہے۔ فنگ شوئی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دوسروں کو بدلنے کے بجائے خود کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی سوچیں دوسروں پر مسلط کرنے کے بجائے مدمقابل کو اظہار کی آزادی کا موقع دینا چاہیے۔ رشتے برداشت، رواداری، درگزر، سچائی، قربت اور تحفظ فراہم کرنے سے مضبوط ہوتے ہیں۔
فنگ شوئی کا علم گھر، دروازوں، الماریوں اور اسٹورز میں غیر ضروری سامان کو توانائی کی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ ذہن کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کہ غیر ضروری سوچیں جن میں ماضی کے تکلیف دہ واقعات، ندامت اور پچھتاوے شامل ہیں ذہن کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ منفی رویے ذہن کی قوت کو منجمد کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے نئی سوچ، توانائی، خیالات اور مثبت انداز فکر کی لہریں اپنی جگہ نہیں بنا پاتیں۔ الجھا ہوا ذہن فیصلے کی قوت سے محروم ہو جاتا ہے اور مسائل کو حق کی تناظر میں نہیں دیکھ سکتا، اس کے لیے ضروری ہے کہ درگزر سے کام لیتے ہوئے ذہن سے تمام تر نفرتیں و کدورتیں نکال دینی چاہئیں۔
فنگ شوئی گھروں میں مختصر فرنیچر اور کھلے ہوادار کمرے بہت ہیں، جن میں روشنی کا بہاؤ گھر کو کشادگی عطا کرتا ہے۔ ماحول کا انسان کے مزاج پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور جاپان میں گھروں کی عمارت سازی پر خاص توجہ دی جاتی۔ یہ گھر کھلے، ہوادار اور روشن ہوتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انسان کے اندر کی منتشر لہریں نفرت، غصہ، حسد جارحیت و مایوسی کو ان گھروں سے باہر نکلنے کے لیے راستہ چاہیے۔ موہن جو دڑو کے گھر اور گلیاں کشادہ اور ہوادار ہیں۔ پانچ ہزار سال پرانے گھروں میں گھومتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک سلجھی ہوئی تہذیب تھی۔
موہن جو دڑو کے آثار قدیمہ میں واقع بدھسٹ اسٹوپا دنیا کے قدیم بدھسٹ خطوں سے ہمارے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ موہن جو دڑو میں بدھ ازم اور تھرپارکر میں جین مت کے آثار ملتے ہیں۔ ریکی اور فنگ شوئی کے اصول اور طور طریقے کافی حد تک صوفی ازم کے قریب تر ہیں۔ درحقیقت دنیا کے تمام مذاہب امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہیں، سندھ کے دیہی علاقوں میں آج بھی فنگ شوئی گھر موجود ہیں۔ جاپان کے گھروں کا نظام سندھ کے گھروں کے مزاج و رویوں سے ملتا ہے، چین، جاپان اور کوریا کی سماجی زندگی کا طریقہ، رہن سہن اور رسم و رواج صدیوں سے ایشیا پر اثر انداز رہے ہیں۔ ان ملکوں میں مضبوط کنبے کا نظام تھا جو آج بھی پایا جاتا ہے۔ سندھ کے دیہی علاقوں و شہروں میں خاندان کی اکائی کا تصور آج بھی مضبوط ہے۔ مضبوط گھروں سے مستحکم معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ جہاں گھر کے افراد کے فرائض و حقوق کے بیچ توازن قائم ہو وہاں انسانی اقدار کی بالادستی قائم رہتی ہے۔
فنگ شوئی نام ہے معیار زندگی کو بہتر بنانے کا، جس میں جسم، ذہن و روح کو ایک اکائی کے طور پر ڈھالا جاتا ہے۔ گھر ہوں یا رشتے ان کے مابین نظم و ضبط کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جس سے مزاج و ماحول میں ترتیب و ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ ان گھروں میں پودے، آئینے اور ڈور بیلز کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پودے فطری توانائی کا بہاؤ ہیں، موسیقی منفی اثرات کو زائل کرتی ہے اور آئینے قوت کی رو کو مزید متحرک کرتے ہیں۔ جو ذات کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتے ہیں۔ آئینوں کے عکس میں وسعت اور کشادگی کا احساس ملتا ہے۔
کچھ لوگ پرانی چیزیں سنبھال کے رکھتے ہیں۔ یوں گھر میں ایسی اشیا کا ڈھیر لگ جاتا ہے جو الماریوں کے اندر، اوپر، بیڈ کے نیچے، اسٹور اور دروازوں میں ایک اچھی خاصی جگہ گھیر لیتی ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو ماضی میں رہتے ہیں اور نئے دور کے ساتھ چلنا نہیں چاہتے، یہ چیزیں کام کی نہ ہوتے ہوئے بھی انھیں نہیں بدلتے اور نئی نسل کے ساتھ ان کا ذہنی فاصلہ بڑھ جاتا ہے جو ان چیزوں سے اکتا چکے ہوتے ہیں۔ یہ ماضی ہے جو حال کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔
لوگ اکثر ماضی کے قصے، واقعات و تجربات بار بار دہراتے ہیں اور نئی نسل کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں، دور بدل جائے تو انسان کو اس کے تقاضوں کو سمجھنا چاہیے۔ اس مسئلے کا حل دیتے ہوئے فنگ شوئی کے اصول کہتے ہیں کہ ذہن سے غیر ضروری سوچیں (جو اکثر ماضی کے تجربات پر مبنی ہوتی ہیں) باہر نکال پھینکیے۔ ذہن کو بھی ایک کھلی جگہ چاہیے۔ سانس لینے کے لیے صحت مند ذہن کے مثبت رویوں کے ساتھ انسانیت کا حال اور مستقبل وابستہ ہے، ایک متحرک اور فعال ذہن خود آگہی اور ذاتی تجزیے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ دو رویے زندگی اور رشتوں کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں یوں الجھے رویوں میں بہتری آ جاتی ہے اور ماحول کے بوجھل اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ سوچ کا نیا اور روشن دن تاریکی کو اپنے اندر جذب کر دیتا ہے۔