غزل
لفظ ترتیب سے رکھتا ہوں میں تمثیل کے ساتھ
کون کرتا ہے بیاں فلسفہ تفصیل کے ساتھ
اشک پیدا ہوا آنکھوں کی زمیں سے یک دم
آئنہ ٹوٹ گیا ہجر کی تکمیل کے ساتھ
میری آواز بہت دور تلک جائے گی
آیتِ ہجر سناؤں گا میں ترتیل کے ساتھ
میرے اشعار میں پیغام تھا دنیا کے لیے
میرا دیوان بھی رکھا گیا انجیل کے ساتھ
دن نکلتے ہی اترتا ہے کھلے پانی میں
جانے کیا ربط ہے سورج کا میری جھیل کے ساتھ
میری جانب بھی تو کچھ تشنہ دہاں آئے گے
میرا دریا بھی تو بہتا ہے ترے نیل کے ساتھ
روشنی زخم چھپائے بھی تو کیسے آخر
میں نے سورج کو شکستہ کیا قندیل کے ساتھ
ان کی پرواز پہ افلاک فدا ہوتا ہے
اب تو شاہین بھی اڑتے ہیں ابابیل کے ساتھ
(نوید فدا ستی۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
سبب اس کی پریشانی کا میں ہوں
نمک کی فصل وہ، پانی کا میں ہوں
یہ جنگل مجھ کو راس آنا نہیں ہے
پرندہ دشتِ امکانی کا میں ہوں
مجھے دنیا لٹا دے گی کوئی دن
اثاثہ عالمِ فانی کا میں ہوں
مری مشکل، مری مشکل نہیں ہے
وسیلہ تیری آسانی کا میں ہوں
وہیں مجھ کو سپردِ خاک کرنا
کہ جس خاکِ بیابانی کا میں ہوں
ابھی ساحل مرا رستہ نہ دیکھے
ابھی دریا کی طغیانی کا میں ہوں
فقیرانہ طبیعت کا ہوں ورنہ
طلب حق دار سلطانی کا میں ہوں
(خورشید طلب۔ بوکارو سیٹی، جھارکھنڈ، ہندوستان)
۔۔۔
غزل
تمہارے حسن کی خوش بو جدھر جدھر جائے
وہاں کا پودا بھی پیڑوں سا کام کر جائے
میں چاہتا ہوں جدائی نہ سہہ سکے میری
میں چاہتا ہوں وہ مجھ سے بچھڑ کے مر جائے
گھروں سے نکلے ہووں کو ٹھکانا ملتا ہے
جو تیرے دل سے نکل جائے وہ کدھر جائے
مجھے پتا ہے کوئی ختم کیسے ہوتا ہے
مجھے خبر ہے کوئی کس طرح بکھر جائے
بلندیوں کی علامت ہیں یہ اٹھے سَر بھی
جھکائے جانے سے بہتر یہی ہے سَر جائے
ہم ایسے لوگ ہنر جانتے ہیں چاہت کے
ہمارے آگے کوئی کس طرح مکر جائے
(محسن ظفر ستی۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
کوئی جگنو، کوئی لایا ہے چراغ
میں نے تو خود ہی بنایا ہے چراغ
وہ اندھیروں کی نگاہوں میں ہے
جس کے ہاتھوں میں پرایا ہے چراغ
اپنے یاروں کی سہولت کے لیے
آج کوفے میں بجھایا ہے چراغ
اے خدا ! وہ کہیں منصف نہ بنے
جس نے کاغذ سے مٹایا ہے چراغ
اس کے سینے میں اجالا ہے بہت
جس نے ہاتھوں میں اٹھایا ہے چراغ
زندگی بھر ہمیں جلنا ہے نوید
اس نے تو صرف دکھایا ہے چراغ
(نوید ملک۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
مے کدے میں حیا لٹ گئی آپ کی
لے کے آئی کہاں کج روی آپ کی
میرا دل کیا، میری زندگی آپ کی
کرگئی کام جلوہ گری آپ کی
یہ جہاں، اس کی ہر چیز بھی آپ کی
روز و شب، ماہ و سال و صدی آپ کی
نام کیا دوں میں اس ناز و انداز کو
بے رخی ہے کہ ہے بے خودی آپ کی
ساتھ کیا دیں گے جام و سبو آپ کا
ساتھ دے گی تو تشنہ لبی آپ کی
ضد ہے زہرِ ہلاہل خرد کے لیے
ہوش لے جائے گی خود سری آپ کی
آپ کے دم سے عارف غزل خواں ہوا
شاعری کا سبب دل کشی آپ کی
(محمد حسین عارف۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
اگر مجھ کو محبت کا ذرا ادراک بھی ہوتا
تو نفرت سے، عداوت سے میر دل پاک بھی ہوتا
جو بنتے ایک دوجے کا سہارا ہم زمانے میں
یقیناً تذکرہ اپنا سرِ افلاک بھی ہوتا
اگر اپنائے رہتے سادگی کو زندگانی میں
تو اپنا گھر بناوٹ سے ہمیشہ پاک بھی ہوتا
اگر رکھتے حیا کے دائرے میں بے حجابی کو
تو تیرا دیکھ لینا ہی تری پوشاک بھی ہوتا
جو اختر تھام لیتی یہ خوشی بڑھ کر مرا دامن
تو غم سے دل ہمارا پھر نہ یہ نم ناک بھی ہوتا
(محمد اختر سعید۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
زندگانی کا فلسفہ کیا ہے
ایک پانی کا بلبلا کیا ہے
ساتھ رہتی ہے روح جسموں کے
سانس لینے کا سلسلہ کیا ہے
چھوڑ جاتے ہیں چھوڑنے والے
کیسا پچھتاوا ہے، گلہ کیا ہے
جی کے مرنا ہے، مرکے جینا ہے
جینے مرنے کا معاملہ کیا ہے
خود ہی پہنچوں گا اپنی منزل پر
کارواں کیا ہے قافلہ کیا ہے
بے وفا سے میں پیار تو کرلوں
لیکن انجام کیا، صلہ کیا ہے
تیرا جانا تو اک قیامت ہے
حادثہ کیا ہے، سانحہ کیا ہے
تیری راہیں جدا جدا دیکھیں
تجھ سے ملنے کا راستہ کیا ہے
بھول سکتا نہیں اُسے بزمیؔ
بھول جانے کا حوصلہ کیا ہے
(شبیر بزمی۔لاہور)
۔۔۔
غزل
پرانا زخم ہے لیکن نشان تازہ ہے
ابھی ابھی وہ گیا ہے زیان تازہ ہے
نظر نظر سے ملی یوں حواس کھو بیٹھے
اْتر نہیں رہی میری تھکان تازہ ہے
میں اس کے بارے ابھی کچھ بھی کہہ نہیں سکتا
میں کیا کہوں کہ یقین و گمان تازہ ہے
مری وفا پہ یہ اک روز حرف آنا تھا
مری وفا پہ یہ اس کا بیان تازہ ہے
لٹا چکا ہوں میں گھر بار عشق میں لیکن
کیوں ایسا لگتا ہے میرا لگان تازہ ہے
قدم قدم پہ نیا ہے سفر محبت کا
قدم قدم پہ ہر اک امتحان تازہ ہے
میں مطمئن ہوں مرے کل سے نسلِ نو ناصر
کہے گی سن کے مری داستان تازہ ہے
(ناصر دائروی۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
مری ہر گفتگو توحید کی ہے
سو میں نے عشق کی تائید کی ہے
کبھی گزرے ہو کیا تم کربلا سے
کبھی شبیر کی تقلید کی ہے
یہاں جو روشنی ہے چار جانب
سناں پر بولتے خورشید کی ہے
لہو کا رنگ ڈالا ہے غزل میں
دروں کے سوز کی تجدید کی ہے
حسد سے زنگ لگتا ہے دلوں کو
یہی اک دوست نے تاکید کی ہے
جسے مجھ سے محبت ہی نہیں تھی
اسی نے خیر سے تردید کی ہے
خزاں کا درد سینے سے لگا کر
بہارِ نو کی پھر امید کی ہے
صہیب ایسی خبر نے آ لیا ہے
کہ میں نے نظم میں تجرید کی ہے
(سید صہیب ہاشمی۔ میانوالی)
۔۔۔
غزل
وہ دل جو ہو نہ پایا کبھی آشنائے عشق
کھلتے نہیں ہیں اس پہ کبھی راز ہائے عشق
نغماتِ خواہشات میں کھویا ہوا ہے جو
وہ کیا سمجھ سکے گا کہ کیا ہے صدائے عشق
پہلا سبق وفا کا ہے دستور عشق میں
کچھ لوگ جانتے ہی نہیں مدعائے عشق
اس کے لیے دعائیں اترتی ہیں عرش سے
پھیلا رہا ہے جو بھی زمیں پر فضائے عشق
سارے جہاں میں مجھ سا تونگر نہیں کوئی
قسمت سے مِل گئی ہے جو مجھ کو متاعِ عشق
یہ قول صوفیوں کا ہے کس درجہ معتبر
ہے اِبتدا تو اِس میں، نہیں انتہائے عشق
جب تک ہے سانس تن میں نبھاؤں گی گْل اِسے
اک بار مجھ سے ہو جو گئی ہے خطائے عشق
(گل رابیل۔ وہاڑی)
۔۔۔
غزل
ماننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا تھا
میں جب ابھرا تھا چمک دار نہیں ہوتا تھا
ایسے شیطانی جزیرے پہ رہے ہیں ہم لوگ
سو کے اٹھتے تھے تو گھر بار نہیں ہوتا تھا
میں تو دو روز میں ہی بھول گیا ہوں تجھ کو
یہ ترے زخم کا معیار نہیں ہوتا تھا
اتنی نفرت تھی کہ پستول لیے پھرتے تھے سب
کوئی پھولوں کا خریدار نہیں ہوتا تھا
رنج ہوتا تھا اسے سامنے آ کر میرے
میں ان آنکھوں کا گرفتار نہیں ہوتا تھا
(نادر عریض۔ بہاولپور)
۔۔۔
غزل
اسی لیے تو جگہ جگہ سے کٹا ہوا ہے
وہ پیڑ ہے اور غلط جگہ پر لگا ہوا ہے
تم اس کی آنکھوں کو دیکھتے ہو سو یہ بتاؤ
وہ کتنا خالی ہے اور کتنا بھرا ہوا ہے
کسی کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے ہوئے یہ سوچا
یہ کس کا حصہ تھا اور کس کو عطا ہوا ہے
میں اس علاقے میں رہ نہ پاؤں گا سوچتا تھا
پر اب یہ پنڈی مر ی رگوں میں بسا ہوا ہے
(محمد طلال۔ باغ آزاد کشمیر)
۔۔۔
''بھیک''
سالوں جاگی آنکھیں ہیں
ممکن ہے کہ وقت سے مل کر
کچھ لمحوں کی بھیک ملے
چند لمحوں کو آنکھ میں رکھ کر
کچھ لمحوں کو سو لوں گا
ان لمحوں میں
نیند کو سارے خواب دکھا کر
جاگ کے تنہا رو لوں گا
رو لوں گا کہ چند لمحوں میں
پچھلے سارے سالوں کے
سارے خواب کہاں آتے ہیں
اور تو اور، اتنے سارے سالوں کی
موت کا ماتم رہتا ہے
جانے کتنی صدیوں سے
آنے والے سالوں نے
پچھلے سارے سالوں کا خون کیا ہے
اپنی جاگی آنکھوں کو
چند لمحوں کی نیند ملے تو
تیرے سارے خوابوں میں
پچھلے سارے سالوں کے
قتل کا قصہ چھیڑوں گا
چند لمحوں کی بھیک ملے تو
آنے والے سال کو پہلے
خواب میں تنہا مل لوں گا
اس کو میں سمجھاؤں گا
جانے والے کب رُکتے ہیں
جانے والے لوگوں کا
جانے والے لمحوں کا
قتل مناسب بات نہیں
(عامر شہزاد صابری ۔لاہور)