دی اینڈ آف انڈیا
سکھوں نے مسلمانوں کا حشر دیکھ کر اب اپنی باری آنے سے پہلے ہی خالصتان کا مطالبہ تیز کردیا ہے۔
''پاکستان یا دنیا کا کوئی دوسرا ملک بھارت کو تباہ نہیں کرے گا یہ اپنے تعصبانہ رویوں اور رجعت پسندی کی بدولت خودکشی کا ارتکاب کر لے گا۔''بھارت کے معروف صحافی ادیب اور دانشور خوشونت سنگھ نے کئی برس قبل اپنی کتاب "The End of India" میں یہ لکھ دیا تھا۔ آج بھارت بالکل اسی راستے پر گامزن ہے۔ اس وقت پورا بھارت تعصب کی آگ میں جھلس رہا ہے۔
شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ہر طرف جلاؤ گھیراؤ اور توڑپھوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ لوگ سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں اور پولیس سرکار کے حکم پر ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر رہی ہے۔ ان مظاہرین میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے البتہ سکھ، دلت اور کچھ لبرل ہندو بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ مودی سرکار راشٹریہ سیوک سنگھ کے مسلم کش منشور کے تحت بھارت کو مسلمانوں سے پاک کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔
حال ہی میں اس نے شہریت کا متنازعہ قانون نافذ کردیا ہے جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے تشدد کا بھرپور سہارا لیا جا رہا ہے۔ اب تک چالیس سے زیادہ مسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا ہے اور سیکڑوں شدید زخمی ہوگئے ہیں۔ اس احتجاج کا زیادہ تر زور بھارت کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں ہے۔ وہاں کی کٹر ہندوتوا صوبائی حکومت نے پولیس کو احکامات جاری کردیے ہیں کہ ہر قیمت پر مسلمانوں کا احتجاج ختم کرایا جائے چاہے کتنی ہی لاشیں کیوں نہ گرانا پڑیں چنانچہ پولیس نہ صرف اندھا دھند گولیاں برسا رہی ہے بلکہ مسلمانوں کو پاکستان جانے کا حکم بھی دے رہی ہے۔
عالمی شہرت یافتہ بھارتی مصنفہ اور دانشور ارون دھتی رائے کا کہنا ہے کہ اقلیتیں بھارت میں کب تک خوف کے ماحول میں زندگی گزارتی رہیں گی۔ بھارت میں ہر طرف تشدد اور رجعت پسندی کا دور دورہ ہے۔ اس جارحانہ رویے کو ''عدم رواداری'' کے چھوٹے سے نام میں نہیں سمویا جاسکتا۔ یہ رویہ اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے اور جس عمارت کی بنیاد ہی کھوکھلی ہو جائے اس کا زیادہ دیر تک قائم رہنا مشکل ہے۔ بھارت کا اس وقت حقیقتاً یہی حال ہے کہ اس کی بنیادیں ہل چکی ہیں اور پوری عمارت لڑکھڑا رہی ہے۔
نریندر مودی نے مسلمانوں کو للکار کر اور انھیں مشکل میں ڈال کر دراصل بھارت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ بھارت کی بنیاد سیکولرزم پر قائم ہے اس لیے کہ یہ ملک کئی قوموں کا مجموعہ ہے۔ ان تمام قوموں کا مذہب مختلف ہے اور تہذیب و تمدن بھی الگ الگ ہے چنانچہ ان تمام قوموں کو صرف بھارت کا سیکولر آئین ہی یکجا رکھ سکتا ہے۔ مودی نے تو بھارتی آئین سے ہی کھلواڑ شروع کردی ہے وہ اسے ہندوتوا میں ڈھالنے اور بھارت کو صرف ہندوؤں کا ملک بنانے کے لیے سر توڑ کوشش میں مصروف ہے اس نے اپنے منصوبے کے مطابق سب سے پہلے کشمیریوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کی۔
مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے اور کشمیریوں کو غلام بنانے کے لیے بھارتی آئین کی شق 370 کو ختم کردیا گیا۔ بھارت کی سابقہ مختلف حکومتوں نے اگرچہ کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کا حق نہیں دیا تھا مگر کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ مودی نے ان تمام سابقہ حکومتوں سے ہٹ کر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے بھارت کا حصہ بنا لیا ہے۔ کشمیری مودی کی اس غیر قانونی کارروائی سے سراپا احتجاج ہیں مگر ان کے احتجاج کو روکنے کے لیے مودی نے وہاں نو لاکھ فوجی متعین کردیے ہیں جنھوں نے پوری وادی کو جہنم کا نمونہ بنا دیا ہے۔
مودی نے کشمیر کے بعد مسلمانوں کے خلاف دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے اپنے ایجنڈے کے حق میں اپنی گودی سپریم کورٹ سے فیصلہ حاصل کرلیا ہے اور اب مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود رام مندر بنانے کے لیے تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ مودی نے بھارتی مسلمانوں پر تیسری کاری ضرب متنازعہ شہریت کے قانون کو نافذ کرکے لگائی ہے۔ اس قانون کے تحت پہلے آسام میں برسوں سے آباد لاکھوں مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے دیا گیا ہے اس کے بعد اب بھارت کے دوسرے صوبوں میں صدیوں سے آباد مسلمانوں کو بھی نشانہ بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے مگر مسلمانوں نے اس کارروائی پر عمل ہونے سے پہلے ہی شہریت کے قانون کے خلاف آواز بلند کردی ہے۔
اب جب کہ پورے بھارت میں ہونے والے ہنگاموں کو قابو کرنے میں وہاں کی پولیس قطعی ناکام ہوچکی ہے تو اس ناکامی کو چھپانے کے لیے ان مظاہروں کو آئی ایس آئی سے جوڑ دیا گیا ہے بھارتی میڈیا ان کے پس پشت آئی ایس آئی کا ہاتھ قرار دے رہا ہے حالانکہ اس کے پاس اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے مگر بھارتی میڈیا کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ ہے کہ وہ بھارت کی ہر مصیبت میں پاکستان کو گھسیٹ لیتا ہے۔ ادھر پاکستان میں ہمارے کچھ لوگ مولانا ابوالکلام کی پرانی نصیحتوں کا زور و شور سے ذکر کرتے نہیں شرما رہے ہیں۔ اب جب کہ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے تو وہ ان کا درد محسوس کرنے کے بجائے بھارت سے پاکستان آنے والے مسلمانوں کو ان کی یہاں آمد کو غلطی کا تاثر دے رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا آزاد نے پاکستان کے بارے میں جن تحفظات کا ذکر کیا تھا وہ اب غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان آمد کے بعد مہاجرین نے بہت تکلیفیں اٹھائیں مگر انھوں نے خندہ پیشانی سے انھیں برداشت کیا کیونکہ انھیں پہلے سے پتا تھا کہ انھوں نے جس سرزمین پر پاکستان بنایا ہے وہاں ترقی کا فقدان ہے انھیں وہاں رہنے کے لیے نہ مکان ملیں گے اور نہ ہی اخراجات پورے کرنے کے لیے وظیفہ ملے گا۔
لاکھوں مہاجرین برسوں جھگیوں میں رہتے رہے مگر کبھی کسی سے کوئی گلہ نہیں کیا اس لیے کہ انھوں نے بڑے پیار سے پاکستان بنایا تھا پھر آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوتا گیا اور اب کراچی یا کسی اور شہر میں کوئی جھگی نظر نہیں آتی سب لوگ اپنی مدد آپ اور حکومتی مدد سے سلیقے سے آباد ہوچکے ہیں اور وہ اس ملک کے ہر شعبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور فخر سے خود کو پاکستانی کہتے ہیں ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا نے پاکستان کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی پہلے سے پیشگوئی کردی تھی تو ان کی تصنیف ''آزادی ہند'' کے بعد میں شایع ہونے والے صفحات میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ وہ دراصل پاکستان کے خلاف اس لیے باتیں کرتے تھے کیونکہ وہ ایک کٹر کانگریسی لیڈر تھے اور ایک کانگریسی لیڈر کے ناتے پاکستان مخالف بیان دینا ان کا سیاسی فرض تھا لیکن جب گاندھی جیسا لیڈر جناح کے آگے ڈھیر ہو چکا تھا تو پھر مولانا بھلا کیونکر قیام پاکستان کو روک سکتے تھے۔
اب واضح ہو گیا ہے کہ وہ ہندو کانگریسی لیڈروں کی اصلیت کو نہ پہچان سکے تھے۔ انھیں کانگریس کی کچن کیبنیٹ کی میٹنگس میں شریک نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کمیٹی میں پنڈت نہرو گاندھی اور پٹیل شامل تھے۔ یہ اپنے فیصلے خفیہ رکھتے تھے۔ مولانا کے کانگریس کی صدارت سے ہٹائے جانے اور اس عہدے پر نہرو کے براجمان ہونے نے ہی کانگریس پر ہندو غلبے کو ثابت کردیا تھا مگر شاید مولانا نیک نیتی پر رہے یا شاید وہ اس سازش کو سمجھ نہ سکے۔
دراصل صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں مسلم لیگ کی فتح کے بعد ہی گاندھی نہرو اور پٹیل نے پاکستان کے منصوبے کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا مگر مولانا چونکہ اس خفیہ فیصلے سے آگاہ نہیں تھے چنانچہ وہ آخر وقت تک پاکستان کی مخالفت کرتے رہے۔ ابھی بھی کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ 1957 میں کراچی کے صحافیوں کا ایک وفد بھارت کے دورے پر گیا تھا۔ انھوں نے دہلی میں مولانا آزاد سے بھی ملاقات کی تھی اور ان سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ اب بھی قیام پاکستان کے مخالف ہیں تو ان کا جواب تھا میرا وہ موقف اب غلط ثابت ہو چکا ہے شاید ان کے موقف میں تبدیلی کی وجہ بھارت کے مسلمانوں کی حالت زار، مسلمانوں کے خلاف حکومتی رویہ اور بھارت میں اس وقت بھی جگہ جگہ ہونے والے مسلم کش فسادات تھے۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہم سب مسلمان بھی متحدہ ہندوستان میں اقلیت میں ہوتے تو ہم بھی آج شہریت جیسے مسئلوں سے نہ دوچار ہو رہے ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی نے اب بھارت کے بکھرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ آسام میں ویسے تو پہلے سے آزادی کی تحریک چل رہی تھی مگر اب وہاں ایک نئی سیاسی پارٹی وجود میں آگئی ہے جس نے باقاعدہ آسام کو بھارت سے علیحدہ کرنے کے لیے جدوجہد شروع کردی ہے۔ سکھوں نے مسلمانوں کا حشر دیکھ کر اب اپنی باری آنے سے پہلے ہی خالصتان کا مطالبہ تیز کردیا ہے ادھر دلتوں نے اپنی بے قدری سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہندو سماج سے آزاد ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ اب دیکھیے خوشونت سنگھ کی پیش گوئی کو پورا ہونے میں اور کتنا وقت لگتا ہے۔