سالِ گزشتہ کے تلخ حقائق

ملکی اداروں کی تباہی، دہشت گردی کو بام عروج پر پہنچانے والے مقتدر حضرات ہیں۔


Naseem Anjum January 05, 2020
[email protected]

لاہور: 2019 بہت ساری تلخ یادوں کے ساتھ گزر گیا، جاتے جاتے بہت سے تازہ زخم بھی دے گیا گویا عدل و انصاف کے تقاضوں کو قدموں تلے مسل کر رخصت ہوا، انصاف کے رکھوالوں نے ہی انصاف کی دھجیاں اڑا دیں۔

ڈاکٹروں اور وکیلوں کی آپس کی جنگ نے کئی زندگیاں نگل لیں، وکلا اس طرح اسپتال کی سمت روانہ ہوئے جیسے دشمن کی فوج جو منظم طریقے سے اپنے ہدف کو نشانہ بناتی ہے اور پھر ان کے جوش و خروش اور انتقامی جذبے کو دیکھتے ہوئے وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔

لاہور کارڈیالوجی اسپتال میں وکلا کے حملے نے جہاں مریضوں کی جان لی وہاں عمارت کو بھی نقصان پہنچایا اور تین دن تک ڈاکٹرز ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوئے اور مریض دھکے کھاتے اور زندگی سے محروم ہوتے رہے۔ ایمرجنسی وارڈ بند رہا۔ دلخراش مناظر نے ٹی وی کے ناظرین کے دل دہلا دیے اور انسانیت دم توڑ گئی۔ آئے دن ڈاکٹرز اور وکلا ہڑتال کرتے ہیں، مطالبات منوانے کے لیے خود تو ڈیوٹیوں سے غیر حاضر ہوجاتے ہیں غمزدہ اور دکھی لوگوں کے دکھوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

19 دسمبر 2019 سابق جنرل پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نے سزا سنائی، اس کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کی زندگی کے وہ واقعات یاد آگئے جن کی بنا پر وہ پاکستانی قوم کے دلوں میں اپنا مقام بنا چکے ہیں اور افواج پاکستان کی تاریخ میں امر ہوگئے ہیں۔ غدار وطن ہر دور میں رسوا ہوئے ہیں اور عبرتناک انجام کو پہنچے ہیں اور موجودہ زمانے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے یہ بڑی ہی گھناؤنی اور ملک دشمن سازش تھی جس کے ذریعے پاکستان کو کمزور اور دشمن کو خوش کرنے کے لیے یہ فیصلہ سنایا گیا۔

بے شمار لوگ ایسے ہیں جو جس تھالی میں کھاتے ہیں اس میں ہی سوراخ کرتے ہیں ایسے لوگوں کو بھارت کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرور سوچنا اور اپنی سوچ کو بدلنا چاہیے کہ آج ہندوستان میں مسلمانوں کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچی جا رہی ہے اور ان کی شہریت کو ختم کرنے کا بل پاس ہو چکا ہے اس وقت قائد اعظم کے دو قومی نظریے کی اہمیت اجاگر ہوگئی ہے وہ لوگ جو ہندوستان کو ہی اپنا وطن سمجھتے تھے اور وہاں خوش تھے اور اگر پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے اور عزت و وقار کے ساتھ دولت کمانے والے بھی وہاں ہوتے تو کیا وہ یہ اعلیٰ مرتبہ حاصل کرسکتے تھے۔

پاکستان کی سرزمین پر برسنے والے وہ مقتدر حضرات جن کے نام اور کام سے اہل بصیرت اچھی طرح واقف ہیں، انھوں نے ملک کو لوٹا، قائد اعظم کی محنت اور ان کی جدوجہد آزادی کی قربانیوں کو خاک میں ملا دیا اور صرف اور صرف اپنی تجوریاں بھرتے رہے ان میں جسٹس بھی شامل تھے اور جنرل بھی، بادشاہ بھی، وزیر مشیر بھی اور دولت کو باہر پہنچانے والی ایان علی بھی، وہ کس ادائے کافرانہ سے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ عدالت میں حاضر ہوتی تھیں گویا پاکستان کی ترقی و تعمیر میں ان کا بھی نمایاں کردار رہا ہے۔

قانون کی نظر میں، امیر، غریب، دوست دشمن سب برابر ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں قانون طاقت ور کے لیے ہے آج ہزاروں مائیں تڑپ رہی ہیں ان کے جواں سالہ فرزندوں کو بغیر کسی قصور کے موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔

پاکستان کی تاریخ میں سابق جنرل پرویز مشرف ہیرو کی طرح سامنے آتے ہیں۔ 1965 میں لاہور کے محاذ پر ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں اسی طرح 1971 کی جنگ میں مغربی پاکستان کی طرف سے ایک یونٹ کی کمان کی ذمے داری بھی بخوبی انجام دی ان کی خدمات کے پیش نظر ایس ایس جی میں ان کی شمولیت اور ساتھ میں قابل قدر کمانڈوز کا اعزاز بھی حاصل ہوا، کارگل کے محاذ پر انھوں نے بھارتی فوج کو چنے چبوا دیے اور گردن سے دبوچ لیا ۔

1971 کی جنگ میں بھی جب ان کے رفقا نے جام شہادت نوش فرمایا تو اس وقت وہ تن تنہا تھے انھوں نے کیمپ نہیں چھوڑا۔ نواز شریف اور بھی بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں اپنے وقت کے طاقت ور شخص کے طور پر سامنے آئے اور انھوں نے نریندر مودی کو اپنی نواسی کی شادی کے موقع پر بغیر ویزے کے آنے کی اجازت دی۔

یہ فوج ہی ہے جن کی بدولت اور اللہ کی مہربانی سے پاکستان محفوظ ہے جو سخت سردی، ژالہ باری اور قیامت خیز گرمی میں سرحدوں پر پہرہ دیتے ہیں اپنی جانیں قربان کرتے ہیں اور جن کے کارناموں، شجاعت و بہادری کے عوض انھیں دنیا بھر میں نمبر ون کہا جاتا ہے کہ ان جیسی دلیر، بہادر، طاقتور، جذبہ شہادت سے سرشار اور عسکری صلاحیتوں سے مالا مال افواج پاکستان کا مقابلہ کرنے والی فوج اب تک وجود میں نہیں آئی ہے۔ اللہ انھیں دین و دنیا میں یوں ہی سرخرو رکھے آمین۔

ملکی اداروں کی تباہی، دہشت گردی کو بام عروج پر پہنچانے والے مقتدر حضرات ہیں عدلیہ، پولیس ڈپارٹمنٹ کی کارکردگی ڈھکی چھپی نہیں ہے، قاتلوں کو گرفتار تو کر لیا جاتا ہے لیکن چند روز کے لیے، قانون انھیں رشوت اور سفارش کے عوض بہت جلد رہا کردیتا ہے۔

سو سو لوگوں کے قاتل اور زیادتی کرنے، بچیوں کو اغوا کرنے والے، والدین کو موت کے گھاٹ اتارنے اور جرگہ سسٹم کی بدولت بے بس و مجبور مرد و خواتین کو سر بازار برہنہ گھمانے اور پھر ان کو بے دردی سے قتل اور سنگسار کرنے کا حکم دینے والوں کا بال بیکا نہیں کیا جاتا ہے لیکن اس شخص کو جو بستر مرگ پر ہے جس نے پاکستان کا وقار بلند کیا، سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح قتل و غارت میں حصہ نہیں لیا۔ ظلم اور فیصلے کے خلاف ان حالات میں یہ کہنا بجا ہے کہ کون ہیرو ہے اور کون زیرو بن کر سامنے آیا اور اپنی سزا بھگت رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔