امریکی دورہ اور مذاکرات

رابطہ بڑھاکر پاکستان سے انتقام لینا چاہتے تھے، موقع ملا تو پھر یہی کریں گے۔


Zuber Rehman November 07, 2013
[email protected]

KARACHI: 1948سے آج تک ہمارے حکمراں امریکا کا دورہ ہی کیوں کرتے ہیں؟ لاطینی امریکا کے ممالک کیوبا، ارجنٹینا، وینزویلا، ایکواڈور، گوئٹے مالا اور بولیویا وغیرہ درکنار شمالی امریکا کے ممالک میکسیکو اور کینیڈا کا بھی دورہ کم کرتے یا نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پرل ہاربرکے علاوہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ تباہی یورپ اور جاپان میں ہوئی۔ ان تباہ کاریوں کی بحالی یعنی ازسر نو تعمیر کا ٹھیکہ امریکی سرمایہ کاروں کو ملا، نتیجتاً امریکا میں تیز تر ترقی ہوئی مگر محنت کشوں کی حالات زار وہی رہی۔ اب امریکا اپنی لوٹی ہوئی دولت اوروں کو قرض دیتا رہا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا قانون ہے کہ ایک حد تک بڑھوتری کے بعد عوام کی قوت مزید گھٹ جاتی ہے اور زائد پیداواری بحران پیدا ہوتا ہے۔

یہی امریکا کی معاشی صورت حال ہے۔ اس کی شرح ترقی 9 فیصد سے گھٹ کر 3 فیصد پر آگئی اور کل GDP (قومی پیداوار) کے برابر کی رقم کا امریکا اس وقت مقروض ہے، وہ سود کے پیسوں سے پل رہا ہے، اس کی معیشت دیوالیہ ہونے کی واحد وجہ جاپان، چین، سعودی عرب اور خلیجی ممالک ہیں جنھوں نے اس کے ڈالر کو خرید رکھا ہے۔ اگر عالمی تجارت ڈالر سے منسلک نہ ہو تو امریکی معیشت 24 گھنٹے میں دیوالیہ ہوجائے۔ اس صورتحال میں ہمارے حکمران چونکہ ان کے قرضوں پر انحصار کرتے ہیں اور اپنی معیشت بھی جو کہ 76 فیصد کالے دھن (ہیروئن اور اسلحے کے بیوپار) پر مشتمل ہے، اس لیے امریکی یاترا پر زور ہوتا ہے، ورنہ اگر شمالی کوریا، ویتنام، وینز ویلا، کیوبا اور بولیویا نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کوجو سامراجی سرمایہ کی ٹھوس عامل ہے بحق سرکار ضبط کرلیا اور کہا کہ ہم اتنا سود دے چکے ہیں کہ وہ قرضوں سے زیادہ ہیں۔ ان کے پاس ایٹم بم ہے، میزائل ہے اور نہ کیمیائی ہتھیار مگر قرضوں کو ضبط کرنے پر ان کا کچھ نہیں بگڑا اور اپنے پائوں پر کھڑے ہوگئے۔

کیوبا میں شرح تعلیم 99.99فیصد ہے (یہ رپورٹ یو این او کی ہے) اگر ہمارے حکمران جرأت اور خود داری کا مظاہرہ کریں تو ایسا کرسکتے ہیں مگر وہ کیوں ایسا کریں۔ اس لیے کہ انھوں نے لندن میں سپر اسٹور اور بنگلے بنا رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ اربوں ڈالر سوئس بینکوں میں خفیہ طورپر جمع ہے۔ ہوچی منہ، چی گویرا، کاسترو یا ہوگوشاویز نے مغرب میں اثاثے نہیں چھپائے رکھے تھے۔ ہم امریکا سے جو قرضے لیتے ہیں وہ گزشتہ قرضوں اور سود کی ادائیگی اور ان ہی سے اسلحہ کی خریداری پر خرچ کردیتے ہیں پھر IMF سے لیے گئے قرضوں کے ساتھ جو عوام دشمنی پر مبنی شرائط ہیں ان کو من و عن مان لیتے ہیں جب کہ عوام کو دی گئی سہولتیں کو واپس لینے، عوام پر ٹیکس لگانے، نجکاری کے ذریعے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ کرنے، ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کی شرائط پر عمل درآمد کروائے جاتے ہیں۔

حال ہی میں کئی بار تیل کی قیمت کو روپوں کی صورت میں بڑھایا گیا جب کہ تیل کی قیمت جب بھی کم کی جاتی ہے تو پیسوں میں۔ ہمارے علما حضرات بھی عوام کے ان دکھوں یعنی بھوک، افلاس، مہنگائی، غربت اور امارات کی خلیج پر بات کرنے کے بجائے صرف حجاب ،داڑھی اور برقعے تک ہی محدود رہتے ہیں۔ روس، چین، لاطینی امریکا، یورپ اور دور وحشت میں بھی جہاں مسلمان نہیں ہیں یا تھے وہاں بھی کچھ خواتین سروں پر کپڑے باندھ لیتی تھیں۔ اس لیے بھی کہ عورتوں کے بال اکثر بڑے ہوتے ہیں، بکھرنے سے روکنے کے لیے ایسا کرتی ہیں، اس میں مذہب کا کوئی دخل ہے اور نہ جبری بندھن۔ یہ ایک سماج کی تاریخی روایات ہے۔ بائبل میں ہے کہ ''سوئی کے ناکے سے اونٹ تو گزر سکتا ہے لیکن خدا کی بادشاہت میں دولت مند شریک نہیں ہوسکتا'' قرآن مجید کی تعلیم ہے کہ ''اصلی ضرورت سے زائد چیزیں ضرورت مندوں کو دے دو''۔ اصلی ضرورت پجیرو، ہزاروں گز کے بنگلے اور ہیرے نہیں ہیں اور یہ بھی کہا کہ ضرورت مندوں یعنی صرف ضرورت مند مسلمانوں کے لیے نہیں اگر ضرورت مند کافر بھی ہو تو اسے بھی ضرورت سے زائد چیزیں دے دو۔ ان پر ہمارے علما خاموش رہتے ہیں۔

جھگڑا عریانی، فحاشی، داڑھی اور برقعے پر کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سوئی عورت پہ آکے اٹک جاتی ہے جو در اصل لٹیروں، سرمایہ داروں پر اٹکنی چاہیے جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شکل میں موجود ہے اور قرضے دے کر استحصال کرتا ہے۔ ان اداروں سے پشاور کی سابق حکومت، مصر کی مرسی حکومت، ترکی کی اردگان حکومت اور تیونس کی حکومت بھی قرضے لیتی رہی اور آج بھی سب لے رہے ہیں، جب کہ نعرے اسلام کے لگاتے ہیں۔ جرأت ہے تو مائوزے تنگ، ہوچی منہ، چی گویرا، کاسترو اور ہوگوشاویز کی طرح قرضے ضبط کریں۔ ہمارے حکمران اور علما شریعت کا نفاذ کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کے قول و فعل میں کتنا تضاد ہے، کتنی وسیع خلیج ہے۔ ادھر نواز شریف امریکا کا دورہ کرکے آتے ہیں، ادھر شہباز شریف بیان دیتے ہیں کہ اسامہ یا طالبان سب مغربی پالیسیوں کی پیداوار ہیں اور پھر ان ہی سے مذاکرات بھی کرتے ہیں۔

ان ہی بیان بازیوں کے وقفوں میں پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں سے 58 کروڑ 79 لاکھ ڈالر مل گئے۔ ملا برادر کو لے لیں، پاکستان گرفتار کرتا ہے پھر رہا کرکے مہمان خانے میں رکھتا ہے اور پھر افغان امن کونسل کا وفد ان سے ملنے پاکستان آتا ہے ۔ ادھر ایک نجی ٹی وی چینل پر جماعۃ الدعوۃ کے رہنما حافظ سعید سے پوچھا گیا کہ آپ تو تصویر کھنچوانے کے سخت خلاف تھے اور ٹی وی کو توڑتے تھے تو اب ٹی وی پر کیوں آئے ہیں، تو جواب میں کہا کہ میں اب بھی خلاف ہوں مگر عوام تک اپنی بات پہنچانے کے لیے ٹی وی پر آتاہوں۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق افغان حکومت طالبان کے ذریعے پاک فوج سے انتقام لینا چاہتی ہے۔ افغان انٹیلی جنس اہلکار پاکستانی طالبان رہنما لطیف اﷲ محسود کو کابل لے جارہے تھے کہ امریکی فورسز نے چھاپے مارکر چھین لیا۔ افغان نمایندے کا کہنا تھا کہ محسود کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا تھا، رابطہ بڑھاکر پاکستان سے انتقام لینا چاہتے تھے، موقع ملا تو پھر یہی کریں گے۔

(یہ بات افغان نمایندے نے اپنی تحریری رپورٹ میں کہی ہے) ان love & hate والے حالات ہر صورت میں سامراجی مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں، اس لیے کہ عالمی سرمایہ داری اپنی مدت کی آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ اب اسے آکسیجن دے کر بھی بچانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ چونکہ ہمارے حکمران اسی کا حصہ ہیں لہٰذا وہ متبادل نظام لانے کے بجائے اسی نظام میں رہتے ہوئے لوٹ مار کے بازار کو مزید گرم رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوئی متبادل نہیں ہے۔ اگر متبادل ہے تو صرف مزدور طبقے کے پاس جیسے زار روس کے ایک جنرل نے طنزیہ کہا تھا کہ ''کون یقین کرے گا کہ ایک قلی یا ایک چوکیدار اچانک چیف جسٹس بن گئے، اسپتال کا معمولی ملازم وہاں کا ڈائریکٹر بن گیا، ایک نائی دفتر میں پہنچ گیا، ایک سپاہی کمانڈر انچیف بن گیا، ایک مزدور میئر بن گیا، ایک تالے بنانے والا کارخانے کا ڈائریکٹر بن گیا۔ کون ایسے یقین کرے گا؟'' مگر انقلاب روس کے بعد یقین کرنا پڑا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے عوام کے مسائل کا واحد حل ایک امداد باہمی کا معاشرہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔