تعلیم بہبود اور سماجی انصاف
فنڈ سے غیر مستحق لوگ بڑی تعداد میں مستفید ہو رہے ہیں
جھوٹے دعوؤں، طفل تسلیوں اور تشویشناک و المناک مایوس کن خبروں کی فضا میں جب کبھی کبھار کوئی چھوٹی سی اچھی یا امید افزا خبر سننے کو ملتی ہے تو بہت بھلی لگتی ہے۔ ایک خبرکے مطابق چیف سیکریٹری سندھ اورکمشنر کراچی نے شہر کراچی میں ملک کی پہلی اسٹریٹ لائبریری کا افتتاح کر دیا ہے۔
جس سے مطالعہ کے رجحان کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ یہ لائبریری شہرکے مرکزی علاقے میٹرو پول ہوٹل کے نزدیک فٹ پاتھ پر قائم کی گئی ہے۔ کمشنر کراچی نے شہرکے دیگر 6 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرزکو بھی اپنے اپنے اضلاع میں لائبریریاں قائم کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں صوبے کے دیگر شہروں تک بھی یہ سلسلہ بڑھایا جائے گا۔ بلاشبہ اسٹریٹ لائبریری کا قیام انتظامیہ کی اچھی کوشش ہے۔
آج کل کتابوں کی قیمتیں انتہائی بڑھ جانے کی بنا پر عام قارئین کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں۔ دوسری جانب موبائل فونز اور انٹرنیٹ ذرائع نے نئی نسل کا کتابوں سے مطالعے کا رجحان تقریباً ختم کر دیا ہے علم کے بجائے معلومات کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اب انھیں کتابوں کی جانب راغب کرنا مشکل کام نظر آتا ہے تاہم اس طرح کی کوششوں سے اس میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
دوسری امید افزا اور اچھی خبر یہ ہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے صوبے کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں تعلیمی نصاب کو جدید تقاضوں کیمطابق بنانے سے متعلق دائر ایک درخواست پر سندھ کی تمام سرکاری جامعات میں بلوم ٹیکسا بیسڈ پالیسی کو لاگو کرنے کا حکم دیا ہے۔ تعلیمی نصاب کو جدید بنانے کے لیے چیئر پرسن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ناہید درانی کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی میں سیکریٹری تعلیم، چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، ڈائریکٹر کریکولم آئی بی اے کے نمایندوں سمیت تمام بورڈز اور ٹیکنیکل بورڈ کے چیئرمین، ڈائریکٹر جنرل پرائیویٹ اسکولز کو شامل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عدالت عالیہ نے صوبے کے تمام اضلاع کے سیشن ججزکو امتحانی مراکز پر جوڈیشل مجسٹریٹ کی تقرری اور نقل کرانے کی سہولت کاری میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرانے اور میٹرک اور انٹر کے امتحانی مراکز میں مجسٹریٹ کو پولیس فورس فراہم کرنے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔ عدالت کی جانب سے کیے جانے والے ان اقدامات سے اچھے نتائج حاصل ہونے کے امکانات بھی ہیں۔ ہمارے امتحانی بورڈز میں کرپشن، گھپلوں اور بد عنوانیوں کی جو فضا رائج ہے جہاں ایک منظم مافیا موجود ہے اس کا تدارک کرنا بھی وقت کی اشد ترین ضرورت ہے۔
جہاں مطلوبہ نمبرز اور پوزیشنز حاصل کرنے کے باقاعدہ نرخ نامے ہیں عام مشاہدے کی بات ہے کہ تعلیمی بورڈز میں غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلبا کی امتحانی کاپیاں تبدیل کر دی جاتی ہیں۔ پوزیشنز پر پہنچنے والے طلبا کے والدین اور تعلیمی اداروں تک سے پوزیشنز برقرار رکھنے کے لیے خطیر رقوم کا مطالبہ کیا جاتا ہے ورنہ رشوت کے عوض یہ پوزیشنز دوسرے طلبا سے منسوب کر دی جاتی ہیں۔ ہر سال اس مافیا کے ہاتھوں ایسے ہزاروں اہل طلبا کے تعلیمی مستقل کا قتل عام کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے طلبا اور ان کے والدین ذہنی و نفسیاتی عوارض کا شکار ہوتے ہیں۔
قانون میں اس کی تلافی کا ذریعہ نہیں ہے کہ امتحانی کاپی کی دوبارہ جانچ پڑتال (Re-assisment) کرا لی جائے یا کاپی تبدیل کیے جانے کی شکایت کی صورت میں عدالت اس طالبعلم کی امتحانی کاپی عدالت میں منگوا کر اس بات کی تصدیق کر لیے کہ یہ تحریر متعلقہ طالبعلم کی ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں عدالت اگر کوئی ایسی با اختیار کمیٹی بنا دے جو ہر سال منعقدہ انتخابات میں 5 یا 7 فیصد امتحانی کاپیاں نکلوا کر ان کی سرپرائز چیکنگ (Re-assisment) کروا لے اور متعلقہ طلبا کی تحریر (Hand Writing) کی تصدیق کرالے تو اس قسم کے چیک اینڈ بیلنس سے ان بدعنوانیوں پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے اور اہل طلبا کے تعلیمی مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
آج کل وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی انصاف ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی جانب سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) سے متعلق انکشافات بھی عوامی حلقوں میں بڑے پیمانے پر زیر بحث ہیں۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے خود برقعہ پہن کر BISP مراکز کا دورہ کرکے مشاہدہ کیا کہ سونے کی چوڑیاں پہنے خواتین وظیفہ لینے آتی ہیں۔ ایسے افراد بھی امداد لینے آتے ہیں جن کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں۔ وظیفے کے حق دار وہ لوگ ہیں جن کے پاس دو وقت کی روٹی بھی نہیں ہوتی ہے۔ اس فنڈ سے غیر مستحق لوگ بڑی تعداد میں مستفید ہو رہے ہیں۔
قطع نظر ان زبانی باتوں کے معاون خصوصی نے جو سائنٹیفک اعداد و شمار پیش کیے ہیں وہ بڑے چشم کشا ہیں اور انھیں یکسر مسترد کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ پروگرام سے وظیفہ لینے والے ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنھوں نے بیرون ملک سفر کیا ہے۔ دو لاکھ افراد ، خاوند یا بیوی نے ایک مرتبہ بیرون ملک سفر کیا ہے، ساڑھے دس ہزار سے زائد افراد ایک سے زائد مرتبہ بیرون ملک گئے، سات سوکے قریب افراد کے نام پر ایک یا ایک سے زائد گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں، 44 ہزار کے قریب افراد کے خاوند یا بیوی کے نام پر ایک یا ایک سے زائد گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں، 25 ہزار کے قریب افراد کے ماہانہ ٹیلی فون بلز ایک ہزار سے زائد جب کہ ایک لاکھ سولہ ہزار افراد کے خاوند یا بیوی کے نام پر ٹیلی فون بلز ایک ہزار سے زائد کا ہوتا ہے۔
ایسے ہزاروں افراد کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوانے کے لیے ایگزیکٹیو مراکز کی سہولیات حاصل کرتے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب وظیفہ خور افراد خود یا ان کے اہل خانہ ریلوے، ڈاکخانہ یا BISP پروگرام میں ملازمت کرتے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے مستحق خاندانوں کے لیے مالی امداد کے پروگرام BISP سے امداد حاصل کرنے والے 8 لاکھ 20 ہزار سے زائد غیر مستحق افراد کو فہرست سے نکالنے کی منظوری دی ہے جس سے حکومت کو سالانہ 16 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار مبنی بر حقیقت ہیں تو ایسے غیر مستحق و غیر حق دار افراد کو اس پروگرام سے فوری طور پر باہر کرکے ان عناصر کے خلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ جن کی ملی بھگت سے یہ غیر مستحق افراد حقیقی غربا و مساکین کی حق تلفی کر رہے تھے۔ لیکن اس کارروائی کو شفاف اور سیاست سے پاک ہونا چاہیے۔
خاص طور پر 16 ارب روپے بچت کی بات بہت سے خدشات کو جنم دے رہی ہے کیونکہ ماضی میں بھی بچت کے نام پر اکنامک ڈرائیو یا ری اسٹرکچرنگ جیسی اصطلاح استعمال کرکے ہزاروں ملازمین کو بے روزگار کیا گیا پھر اپنے من چاہوں کو نوازا بھی گیا۔ اگر غیر مستحق و غیر حقدار ایسے پروگرام سے نکالے جاتے ہیں تو 16 ارب کو بچت نہیں امانت کے زمرے میں رکھا جائے اور یہ امانت شفاف اور ایماندارانہ طریقے سے مزید مستحق اور حق دار لوگوں کو اس اسکیم میں شامل کرکے ان پر خرچ کی جائے۔