معاشی ترقی یا غریب کی موت
ان غریبوں کی آہیں نہ تو کبھی اس ملک کو ترقی دلا سکتی ہیں اور نہ ہی ہم کبھی ترقی کا خواب پورا کرسکتے ہیں
عوام کو آج دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں۔ (فوٹو: فائل)
الحمدللہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوچکا ہے۔ سی پیک پاکستان کی معیشت میں انقلاب لائے گا۔ آئی ایم ایف سے آئندہ قرض نہیں لیں گے۔ عوام کو ریلیف دے رہے ہیں۔ غربت کے خاتمے کےلیے کئی منصوبوں پر کام چل رہا ہے۔ فلاں پروگرام سے غریب آدمی کو فائدہ پہنچے گا۔ بجٹ عوام دوست ہے۔ ترقی کی مثال قائم کرنے جارہے ہیں۔ صبح سے شام اور شام سے رات تک سیاسی مداریوں کے منافقت سے بھرے بیانات میڈیا اس طرح دکھاتا ہے جیسے واقعی ترقی میں ہم امریکا سے بھی دس گنا زیادہ آگے نکل چکے ہیں۔
معاشی ترقی کا شور مچانے والے شاید غریب کی چیخیں سننا ہی نہیں چاہتے کہ وہ کس حال میں جی رہے ہیں۔ ان کی صبح کس طرح ہوتی ہے اور ان کے گھروں میں رات کو کیا قیامت کے کیا مناظر ہوتے ہیں؟ بچوں کے دودھ سے لے کر گھر کے راشن تک کے معاملات میں گھروں میں لڑائی جھگڑے عام ہوتے جارہے ہیں۔ بیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا شخص کس طرح اپنے گھریلو اخراجات پورے کررہا ہے، یہ وہی جانتا ہے یا پھر اس کا خدا جانتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا تو بس حاکم وقت نہیں جانتا۔
ہمارے موجودہ حاکم وقت کو جہاں ہر بات میڈیا کے ذریعے معلوم ہوتی ہے، وہیں ٹوئٹر کے ذریعے بیان داغ کر اپنا فرض پورا کرنا آتا ہے۔ ملک میں مہنگائی کا رونا کوئی نئی بات نہیں۔ ہر حکومت نے اپنے اپنے حصے کی مہنگائی کی اور اپنے اپنے مفادات سمیٹ کر چلتی بنی۔ لیکن موجودہ حکومت نے مہنگائی کے تمام ریکارڈ توڑ کر واقعی اس نعرے کو عملی جامہ پہنایا ہے کہ غربت کے خاتمے کےلیے غریب کو مرنا ہوگا۔ اس کام کو سرانجام دینے کےلیے حاکم وقت کے پاس انتہائی ایماندار کابینہ موجود ہے، جو نت نئے طریقوں سے عوام کو روزانہ تھوڑا تھوڑا مار کر اپنے آقا کی خوشنودی حاصل کرنے میں مگن ہے۔
عوام کو آج دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں۔ غربت کا یہ عالم ہے کہ پہلے لوگ اپنے بچوں کو فروخت کیا کرتے تھے مگر اب بچے خود ہی بھوک سے مررہے ہیں۔ آج لوگوں کے حالات زندگی اس نہج پر آپہنچے ہیں کہ دس روپے کی چینی اور پانچ روپے کی پتی خرید کر صبح کا ناشتہ کررہے ہیں۔ کئی گھرانے تو اس سے بھی محروم ہیں۔
اپنے علاقے کی دکان پر ایک ایسے بچے سے ملاقات ہوئی جس نے دکان پر آکر یہ کہا کہ انکل کچھ کھانے کو دیں گے؟ میں ساتھ ہی کھڑا تھا۔ دکان والے نے تو حسب روایت اس بچے کو جھڑک دیا کہ چلو بھاگو یہاں سے۔ مگر نجانے کیوں مجھے وہ بچہ بھکاری نہیں بلکہ موجودہ حاکم وقت کے ظلم کا شکار اور مجبور وبے کس لگا۔ میں نے دکان والے کو پیسے دیے اور کہا بچے کو جو چاہیے وہ دے دو۔ اس بچے نے جب دکان والے سے یہ کہا کہ انکل ان پیسوں سے آٹا آجائے گا؟ تو میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ بچہ کوئی چاکلیٹ وغیرہ لے گا اور چلا جائے گا مگر بچے نے آٹے کا مطالبہ کرکے جہاں ہم جیسوں کو شرمندہ کردیا، وہیں حاکم وقت پر عذاب نازل ہونے کی بھی نوید سنادی۔ معلوم نہیں وہ کب سے بھوکا ہوگا اور گھر کے کیا حالات رہے ہوں گے۔ یہ وہ بچہ ہی جانتا ہے۔
بچے کے معصوم سوال پر میں نے اس سے پوچھا ''بیٹا آپ کے گھر پر آٹا نہیں ہے؟'' تو اس بچے نے انتہائی معصومیت سے صرف گردن ہلا کر ناں میں جواب دیا۔ پھر مزید اصرار پر اس نے بتایا کہ ابو کام پر گئے ہیں، ہم نے کل رات کو بھی کچھ نہیں کھایا تھا، اور صبح ناشتے میں بھی امی نے کچھ نہیں دیا۔ امی کہتی ہیں آٹا ختم ہوگیا ہے۔ ابو کو پیسے ملیں گے تو آٹا لے کر آئیں گے۔ لیکن مجھے پتہ ہے ابو کام پر چلے گئے ہیں اور وہ اب رات کو ہی آئیں گے۔ اس ننھے فرشتے کی باتیں بہت عجیب سی لگ رہی تھیں۔ سمجھ نہیں آرہا تھا اس وقت کیا کیا جائے۔ تاہم میں دس کلو آٹے کا تھیلا لے کر بچے ساتھ اس کے گھر تک چل پڑا۔ دروازہ کھلا تھا، بچہ سیدھا اندر گیا اور کچھ دیر بعد بچے کے ساتھ ایک خاتون باہر نکلیں۔ میں نے آٹے کا تھیلا انھیں پکڑایا اور یہ کہہ کر جانے لگا کہ بچے کو بھوک لگی ہے اسے روٹی بنادیں۔ آٹے کا تھیلا ان کی دہلیز پر رکھ کر میں واپس مڑا اور جانے لگا تو خاتون نے صرف ایک جملہ ادا کیا ''بیٹا اللہ آپ کو اور دے''۔
یہ کہانی ایک گھر کی نہیں۔ یہ کہانی آج ہر گھر کی ہے۔ کراچی کی آبادی رئیسوں اور امیرزادوں پر مشتمل نہیں۔ یہاں اکثریت مزدور طبقے کی ہے جو روز صبح فیکٹریوں، کارخانوں، مزدوری، ٹھیلے اور پتھاروں پر اپنی روزی روٹی کی تلاش میں گھرسے باہر نکلتے ہیں اور شام کو واپسی پر ان کی جیب میں محض اتنی رقم ہوتی ہے کہ بمشکل ایک وقت کی روٹی اپنے کنبے کو کھلاسکیں۔ میرا روزانہ ایسے کئی لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو غربت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔
ایسی ہی ایک اور فیملی سے چند روز قبل میری ملاقات ہوئی۔ گھر کا واحد کفیل بسترمرگ پر تھا اور گھر کے حالات کچھ اس طرح تھے کہ ایک زیرو کا بلب پورے کمرے کو دھیمی روشنی سے روشن کرنے کی ناکام جسارت کررہا تھا۔ ظہور خان کے دونوں گردے فیل ہوچکے ہیں اور وہ ایس آئی یو ٹی سے علاج کرارہا ہے۔ تین بیٹیوں کا باپ گھر پر کھانستے کھانستے اپنی زندگی کے دن پورے کررہا ہے۔ جب کہ گھر میں دو وقت کی روٹی کبھی پڑوس سے آتی ہے تو کبھی فاقے پر گزربسر کرلیتے ہیں۔ بڑی بیٹی کی عمر 9 سال جب کہ سب سے چھوٹی کی عمر ایک سال ہے۔ بیٹی اسکول اس لیے نہیں جاتی کہ باپ کے پاس پیسے نہیں کہ وہ اسے اسکول میں داخل کراسکے۔ بیوی کو اردو نہیں آتی، اس لیے وہ کہیں کام بھی نہیں کرسکتی۔ اب اس گھر کے بارے میں مزید کیا لکھوں جہاں غربت نے اپنے پنجے گاڑے ہوں۔ امید کرتا ہوں یہ گھر بھی حاکم وقت کےلیے ضرور عذاب کا سبب بنے گا۔
ہمارے ڈرامے باز سیاستدان اپنی جمہوریت کو بچانے کےلیے سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ کبھی آرمی چیف کے معاملے پر قانون سازی کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے تو کبھی حریم شاہ پر ملک کے مستقبل کا فیصلہ رکھا جارہا ہے۔ وزیراطلاعات کی بڑی بی جب بھی ترجمانی کےلیے بن ٹھن کر میڈیا کے سامنے آتی ہیں تو ان کے منہ سے سوائے اپنی حکومت کی نااہلی چھپانے کے کچھ نہیں نکلتا۔ غریب کا مذاق اڑانے میں بھی یہ لوگ پیش پیش ہیں۔ عوام ہر چیز پر ٹیکس دے رہے ہیں مگر انہیں سہولیات کے نام پر سوائے موت کے کچھ نہیں دیا جارہا۔ عوام کو ہر بجٹ میں سلوپوائزن دینے کی روایت اپنائی گئی۔
وطن عزیز میں سب سے زیادہ ٹیکس یہی غریب طبقہ جو آج غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہا ہے، ادا کررہا ہے۔ جنہیں بنیادی ضروریات کے نام پر ہمیشہ دھوکا دیا جاتا ہے اور مرنے کےلیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
صحیح کہتے ہیں جب حاکم وقت کے دروازے صرف طوائفوں کےلیے کھولے جائیں تو سمجھ جائیں اس ملک پر خدا کا شدید عذاب نازل ہونے والا ہے۔ تاہم پاکستان پر یہ عذاب نازل ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے آج سفید پوش لوگ بھکاری بن کر دگرگوں ہیں۔ لیکن ہمارے سیاسی ڈرامے باز اداکاروں کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔
ان غریبوں کی آہیں نہ تو کبھی اس ملک کو ترقی دلا سکتی ہیں اور نہ ہی ہم کبھی ترقی کا خواب پورا کرسکتے ہیں۔ ہمارے بینکوں میں اگر اربوں ڈالر بھی ہوں تب بھی ہم خدا کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ ریاست مدینہ کی بات کرنے والے کفر کی حکومت قائم کیے ہوئے سمجھتے ہیں کہ ہم نے ملک کو بہتر کردیا۔ لیکن شاید وہ نہیں جانتے کہ ہر عروج کے بعد زوال ہوتا ہے۔ ابھی یہ ان کا عروج ہے، لیکن جلد یا بدیر زوال کی طرف بھی لوٹنا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔