دوستوں سے چندہ اکھٹا کر کے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیتا تھا عبدالرشید بلوچ

کفالت کا ذریعہ ویلڈنگ کا کام تھا، دکان کے برابر میں کچھ لڑکوں نے باکسنگ کی طرف متوجہ کیا


والد کی دکان پر ہتھوڑا چلانے کی مشق نے باکسنگ میں بہت مدد فراہم کی، باکسر عبدالرشید بلو چ کی پُرعزم کہانی

کچھ لوگ پیدائشی طور پر ہی عمدہ صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں، جب کہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو اپنی جدوجہد کی بدولت معاشرے میں اپنی ایک منفرد پہچان بناتے ہیں۔

باکسنگ دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر چند نام ایسے ہیں جنہیں باکسنگ کو بام عروج پر لے جانے کا سب سے زیادہ کریڈیٹ دیا جاتا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے بہت سے کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر باکسنگ کی دنیا کے مقبول ترین کھلاڑی خیال کیے جاتے ہیں، جنہوں نے بہت سے اعزازات اور فتوحات اس ملک کے نام کیں ان میں سے ایک رشیدبلوچ بھی ہیں، جنہوں نے ویلڈنگ کی دکان پر چلاتے ہتھوڑے کو اپنے روزگار کا ذریعہ بنانے کے بہ جائے اسے دنیا میں اپنا تعارف بنا کر اس مشقت کا انتخاب کیا جو ویلڈنگ کی دکان پر کام کے دوران برداشت کرنے والی مشقت سے کئی گنا زیادہ اذیت ناک ہے۔

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کانک سے تعلق رکھنے والے عبدالرشید بلوچ نے 1998ء میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

بلوچستان کے سرمست قبیلہ سے تعلق رکھنے والے عبدالرشید بلوچ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے تھا وہ اپنے والد کے ساتھ گیراج میں بڑے بھائی کے ساتھ مل کرویلڈنگ کا کام کرتے تھے اور یہ دکان ان کے گھر کی کفالت کا واحد ذریعہ تھی، وہ کہتے ہیں کہ دکان پر ہتھوڑا چلانے میںانہیں مہارت حاصل تھی اوراسی مہارت سے انہوں نے باکسنگ کی دنیا میں بہت سی فتوحات اپنے نام کیں۔

وہ کہتے ہیں کہ والد صاحب کے گیراج کے قریب واقع دوسری دکان میں ان کے ہم عمر لڑکے نے ان کی توجہ باکسنگ کی جانب مبذول کرائی۔ یہ شام کو دکان سے چھٹی کر کے کسرت کرنے کلب جایا کرتا تھا ایک دن جب وہ مقامی سطح پر ہونے والے باکسنگ کے مقابلوں میں شرکت کے لیے جا رہا تھا، تو اس نے مجھے بھی اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور یہ وہ لمحہ تھا جس نے میری زندگی یک سر تبدیل کر دی ۔

وہ کہتے ہیں کہ انہیں سوئمنگ کرنے اور پیانو بجانے کا شوق تھا، تاہم مواقع نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے یہ دو شوق پورے نہ کر سکے۔ عبدالرشید بلوچ کہتے ہیں کہ جب میں نے باکسنگ سیکھنے کی خواہش کا اظہار اپنے والد سے کیا، تو انہوں نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے نا پسندیدگی کا اظہار کیا اور پوری کوشش کی کہ مجھے کسی نہ کسی بہانے باکسنگ سے روک پائیں۔

حالاں کہ انہیں خود بھی باکسنگ سے کافی لگاؤ تھا، باکسنگ کے بادشاہ محمد علی (کلے) جو میرے بھی آئیڈیل تھے ان کے مقابلے دیکھنے کے لیے والد نے تنگ دستی کے باوجود بازار سے ٹی وی خریدا، جس پر وہ بڑے شوق سے باکسنگ کے مقابلے دیکھتے تھے تاہم وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں جو باکسنگ ہو رہی ہے یہ اصل باکسنگ نہیں والد کی ناراضگی اور سخت مزاحمت کے باجود میرے بڑے بھائی عبدالرسول عرف شانی نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ جب میں پریکٹس کے لیے کلب جانے کی والد سے اجازت مانگتا تو عموماً ان کا جواب ہوتا یہ کام کون کرے گا ان کے اس سوال پر اکثر عبدالرسول یہ کہہ دیتے کہ میں اس کے حصہ کا کام بھی کرلوں گا۔

عبدالرشید بلوچ ان دنوں کوئٹہ کے علاقے موسیٰ کالونی میں اپنی والدہ اور دیگر بہن بھائیوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے جہاں سے وہ ڈبل روڈ پر واقع اپنے والد کے گیراج آتے اور پھر وہاں سے پریکٹس کرنے شہر آیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا کہ اتنی تاخیر سے کلب پہنچتے کہ ان کے دیگر ساتھی اپنے اپنے گھر وں کو لوٹ چکے ہوتے۔

سخت مزاج ہونے کی وجہ سے اکثر والد کلب تک جانے کے لیے کرایہ بھی نہیں دیا کرتے تھے اور انہیں پیدل جانا اور آنا پڑتا وہ مالی اعتبار سے اتنے مستحکم نہیں تھے کہ ورزش کے لیے ٹریک سوٹ اور گلوز خرید پاتے۔ انہوں نے کئی ماہ گھر کے کپڑوں میں ننگے پاؤں اور بغیر گلوز کے ورزش کی۔ باکسنگ کے جنون اور خود اعتمادی کی بدولت دنیا کے کئی ممالک میں ان کے شاگرد باکسنگ کے کھیل کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ عبدالرشد بلوچ نے میٹرک کے بعد سے جو تعلیمی تسلسل منقطع ہوا تھا اسے نیوزی لینڈ جا کر پوار کیا۔

عبدالرسول نے پہلی مرتبہ 1993ء میں ملکی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں حصہ لیا اور کام یابی حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے نیشنل کیمپ جوائن کیا 1994میں پہلی مرتبہ بین الاقوامی دورے پر انڈونیشیا گئے۔ ایشیا اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں انہوں نے کئی اعزازات اور فتوحات اپنے نام کیں۔ بلوچستان کا یہ سپوت پاکستانی ٹیم کا کپتان بھی رہ چکا ہے انہوں نے پاکستان آرمی ٹیم کی کوچنگ اور یو این مشن کے دوران ایک سال تک آرمی ٹیم کے کھلاڑیوں کو تربیت فراہم کی وہ نجی ٹی وی کے پروگرام میں کمنٹری بھی کرتے رہے ہیں۔

عبدالرسول بوچ کہتے ہیں کہ باکسنگ کی دنیا میں انہوں نے جہاں ہزاروں مداح اور نئے دوست بنائے وہیں اس کھیل نے انہیں اپنے عزیز او رشتہ داروں سے دور کیے رکھا۔ وہ چاہتے ہوئے بھی کسی کی غمی اور خوشی میں شریک نہ ہو پاتے اس وجہ سے انہیں اکثر تنقید کا بھی نشانہ بننا پڑا وہ کہتے ہیں کہ جس دن ان کی بہن کی شادی تھی، اس دن بھی وہ رِنگ میں کھیل رہے تھے اپنی شادی کے چوتھے روز بھی وہ باکسنگ رِنگ میں تھے اور جب ان کے بڑے بیٹے کی ولادت ہوئی، جو آج خود بھی باکسر ہے اورکئی مقابلوں میں حصہ بھی لے چکا ہے اس وقت وہ موجود نہیں تھے اور ایسے بے شمار لمحات ہیں، جن کا وہ حصہ نہیں بن پائے۔

116مقابلوں میں اکثر میں ناقابل شکست رہنے والے عبدالرشید بلوچ باکسنگ رِنگ میں اپنی پسلی، تین مرتبہ ناک، جبڑا اور ہاتھ تڑوا چکے ہیں۔ ان کے جسم کے اوپر ی حصہ میں اکثر کٹس بھی آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ملائیشیا میں ہونے والے بین الاقوامی مقابلے کے دوران ہاتھ ٹوٹنے سے انہیں رِنگ میںبہت تکلیف ہو رہی تھی تاہم رِنگ میں ہونے کے باوجود اپنی فائٹ ادھوری نہیں چھوڑ سکتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ فلپائن میں ہونے والے مقابوں کے دوران وہ وہاں ایک کلب میں گئے تھے، تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں اکثر باکسر ٹائر پر ہتھوڑا چلا رہے ہیں وہ ہتھوڑا ویلڈنگ کی دکان میں استعمال ہونے والے ہتھوڑے سے سائز میں کافی چھوٹا تھا، تب انہیں احساس ہوا کہ اپنے والد کی دکان میں جو ہتھوڑا وہ چلایا کرتے تھے ان کی کامیابیوں میں ایک بہت بڑا کردار اس ہتھوڑے کا بھی ہے۔

عبدالرشید بلوچ کہتے ہیں کہ کیوبا میں ہونے والے مقابلوں کے دوران جب انہیں رنگ میں موجود ورلڈ چیمپیئن کے مُکے بہت سخت لگے تو مجھے خیال آیا کہ اب باکسنگ کو خیر باد کہہ دینا چاہیے، تاہم اولمپک کھیلنا میرا خواب تھا اور وہاں ہونے والے اولمپک کے مقابلوں میں 25 ممالک کے کھلاڑی حصہ لے رہے تھے۔ میں اپنی ٹیم کا کپتان تھا اور مجھے کھیلنا تھا، میں نے تکلیف کو اپنی کم زوری نہیں بننے دیا اور اپنے کھیل پر توجہ مرکوز رکھی، جو بعد میں میرا معمول بن گیا اور آج ہم پاکستان میں پروفیشنل باکسنگ کرانے میں کام یاب ہوئے ہیں۔

عبدالرشید بلوچ کہتے ہیں کہ ایسا بھی وقت آیا وہ بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے گئے، تو ان کی جیب میں پانچ ڈالر بھی نہیں تھے، ایسا وقت بھی آیا جب انہیں کراچی سے کوئٹہ اور پھر پشاور جانا پڑا دوستوں سے چندہ جمع کرنے کے لیے تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں حصہ لے سکیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اکثر فتوحات حاصل کرنے کے بعد ملک واپسی پر وہ لوکل بس اور رکشے میں گھر لوٹے، اب جب بھائی کی مالی حالت ماضی کی نسبت قدرے بہتر ہوئی، تو انہوں نے انہیں ائیرپورٹ سے گھر لانے اور لے جانے کے لیے گاڑی خریدی ہے۔ وہ ائیرپورٹ پر میرا استقبال بھی کرتے ہیں اور گھر تک پہنچاتے بھی ہیں۔ میں نے حکومت سے اس سلسلے میں کھبی گلہ نہیں کیا کسی اور کو بھی نہیںکرنا چاہیے۔ ہم اس ملک کی نیک نامی کے لیے کھیلتے ہیں، تاہم کسی بھی شعبہ میں اگر کوئی بین الاقوامی سطح پر کوئی افتخار اس ملک کے نام کرنے میں کام یاب ہو جاتا ہے، تو حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کی حوصلہ افزائی کرے۔

عبدالرشید بلوچ اب اپنی سوانح حیات لکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اُنہوں نے اس پر کام تو شروع کر دیا ہے، تاہم وہ اپنے اس کام کو سرانجام دینے کے لیے اپنے معمولات سے وقت نہیں نکال پا رہے ہیں۔ وہ عالمی شہرت یافتہ باکسر محمد علی اور اپنے والد محترم کو اپنا آئیڈیل گردانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ والد صاحب میرے کسی مقابلے میں شریک نہیں ہوئے اور والدہ کو ہمیشہ اس بات کا غم رہتا کہ تم نے اپنی ناک تڑوادی ہے اکثر وہ غصہ بھی کرتیں اور مزید کام یابیوں اور فتوحات کے لیے دُعا بھی۔

عبدالرشید بلوچ کہتے ہیں کہ انہیں بین الاقوامی سطح پر کبھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ شائقین انتہائی گرم جوشی سے ان کا استقبال کرتے وہ مقابلہ میں نہ صرف گہری دل چسپی لیتے اور اپنی داد کے ذریعے ان کے حوصلے بلند کرتے، وہ کہتے ہیں کہ رِنگ میں موجود باکسر اپنے تمام احساسات اور جذبات ایک طرف رکھ کر جیت کو اپنا ہدف بناتا ہے ایک مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ میرا مارا ہوا پنچ سامنے کھڑے کھلاڑی کو سخت لگا ہے۔ اکثر اوقات جب نوعیت ایسی ہوتی ہے تو ریفری کو خود درمیان میں آنا پڑتا ہے۔

عبدالرشید بلوچ کہتے ہیں کہ کھلاڑیوں کی تربیت سمیت خوراک کے استعمال سے متعلق سیمینار کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ کھلاڑی ماہرین کی رائے سے استفادہ کر کے آپس میں تاثرات کا تبالہ کرسکیں اس معاملے میں ہم اقدام اُٹھارہے ہیں۔

عبدالرشید بلوچ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد کیلئے خطیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے دیگرممالک سے آنے والے کھلاڑیوں کو ٹکٹس کے اجرا سمیت مدعو کیے گئے کھلاڑیوں کو تمام تر سہولیات فراہم کرنا ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے علی داد ورلڈ ٹائٹل کے لیے کوالیفائی کرتا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ وہ ورلڈ ٹائٹل اپنے پاکستان اوربلوچستان کے نام کرنے میں کام یاب ہو۔

نوجوان کھلاڑیوں کے نام اپنے پیغام میں عبدالرشید بلوچ کہتے ہیں کہ نا اُمیدی انسان کے اندر موجود صلاحیتوں کو نگل جاتی ہے کھیل کے میدان میں کوئی چیز نا ممکن نہیں میں نے رِنگ میں بڑے بڑے ناموں کو شکست کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ کھلاڑیوں کو جیت کی لگن دل میں لے کر رِنگ میں اُترنا چاہیے، اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ کھلاڑی اپنے کوچ اور ٹرینر کی ہدایت پر عمل کریں، کیوں کہ کھلاڑی کی جیت میں 50 فی صد پوشیدہ کردار ٹرینر کا ہوتا ہے۔

مخالف باکسر کا خون موذی امراض کا شکار کرسکتا ہے
عبدالرشید بلوچ کہتے ہیں وہ باکسنگ کے حوالے سے پاکستان بالخصوص بلوچستان کا مستقبل روشن دیکھ رہے ہیں۔ نو جوان لڑکے اور لڑکیاں بھی اس کھیل میں خاصی دل چسپی لے رہی ہیں۔ مقامی اور ملکی سطح پر باکسنگ کے مقابلے معمول کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں بھی پاکستان کے کھلاڑی کئی فتوحات اپنے نام کر رہے ہیں۔

حکومت کو پروفیشنل باکسنگ کی سرپرستی کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں کھلاڑیوں کی فٹنس کا جائزہ لینے کے لیے کوئی کمیشن نہیں جو کھلاڑیوں میں موجود موذی امراض کی تشخیص کر سکے۔ کوئٹہ، پشاور اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں میں ہیپا ٹائٹس اور HIV کی تشخیص ہوئی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ایک کمیشن تشکیل دے جو رنگ میں اترنے سے پہلے کھلاڑیوں کے بلڈ ٹیسٹ کرے، کیوں کہ دوران فائٹ موذی امراض میں مبتلا کھلاڑی کے جسم سے بہنے والا خون اپنے ساتھ دوسرے کھلاڑی کے مستقبل کو بھی تاریک کر سکتا ہے۔

110 سال بعد یہاں 'پروفیشنل باکسنگ' ہو رہی ہے!
عبدالرشید بلوچ کہتے ہیں کہ برٹش دور حکومت میں 1909ء کے بعد اب ایک مرتبہ پھر پاکستان میں 'پروفیشنل باکسنگ' ہو رہی ہے اس سے قبل پروفیشنل باکسنگ کھیلنے کے لیے دیگر ممالک جا کر لائسنس حاصل کرنا پڑتا تھا۔ اب ایران، آذربائیجان، افغانستان سمیت دیگر ممالک سے باکسر پروفیشنل لائسنس حاصل کرنے کے لیے پاکستان آرہے ہیں۔ یہاں کھلاڑیوں کو پروفیشنل باکسنگ کی تربیت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔

ابتدا میںانہیں پروفیشنل باکسنگ کرانے سے متعلق بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، تاہم ان رکاوٹوں کو انہوںنے اپنے مقصد کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا جسے وہ اور ان کے دوست اپنی ایک بہت بڑی کام یابی سمجھتے ہیں۔ پاکستان پروفیشنل باکسنگ فیڈریشن بلا معاوضہ یہ لائسنس جاری کر رہی ہے۔ اُنہوں نے نوجوان کھلاڑیوں کو تجویز دی کہ اگر وہ پروفیشنل باکسنگ کھیلنا چاہتے ہیں تو موقع سے فائدہ اُٹھائیں سنہرا مستقبل ان کا منتظر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔