ریاست دمشق کی ایک کہانی
ایک بہت بڑی سلطنت کا حکمران بننا کس کے لیے خوش خبری نہیں ہو گی اور آپ رو رہے ہیں؟
آج ہمارا دل آپ کو ایک چھوٹی سی کہانی سنانے کو ہو رہا ہے جو ایک نہایت ہی چھوٹی چند ہی لفظوں کی کہانی ہے لیکن دنیا کی تمام چھوٹی بڑی کہانیاں اس کے اندر موجود ہیں۔ اس سے پہلے کہیں ہم نے آپ کو ''ریاست بغداد'' کی ایک ایسی ہی چھوٹی کہانی سنائی ہے جو دونوں ہی مماثل ہیں بلکہ ایک ہی کہانی ہی ہیں۔
ریاست بغداد میں جب حضرت بہلول دانا سے ہارون الرشید نے پوچھا کہ چور کا ''ہاتھ کاٹنا'' آپ کے خیال میں کیسا ہے؟ تو بہلول دانا نے دو لفظوں میں بتایا کہ اگر چوری ''مستی'' میں کی گئی ہے تو چور کا ہاتھ کاٹنا چاہیے اور اگر ''نیستی'' میں کی ہے تو ''سر'' کاٹنا چاہیے حاکم وقت کا۔ ''ریاست دمشق'' جو ریاست مدینہ کے بعد وجود میں آئی تھی اور بڑی حد تک بگڑ چکی ہے۔
اس میں جب سلمان بن عبدالمالک نے اپنا جانشین عمر بن عبدالعزیز کو بنایا اور عمر بن عبدالعزیز کو یہ خبر ملی تو وہ رو پڑے۔ کیوں رو پڑے؟ یہ تو کہانی کے آخر میں پتہ چلے گا لیکن اس سے پہلے کچھ تاریخی پس منظر بھی بیان کیا جائے تو اچھا ہو گا۔ جب ولید بن عبدالمالک کے بعد سلمان بن عبدالمالک حکمران بنا تو یہ مسلمانوں کا تو ''شاید'' لیکن مسلمان حکومت و اقتدار کا دور عروج تھا۔
دنیا کے کونے کونے میں مسلمان جرنیل موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد، قتیبہ بن قاسم اور محمد بن قاسم اسلامی تاریخی ناول نگاروں کے بقول اسلامی پھریرا لہرا رہے تھے۔ بحر ظلمات میں بھی گھوڑے دوڑا رہے تھے، ملک پر ملک زمین پر زمین فتح کیے جا رہے تھے اور مال غنیمت کے اونٹوں کی قطاریں پہنچ رہی تھیں۔
اور ان ساری فتوحات کا چیف ایگزیکٹیو حجاج بن یوسف، والی ''بصرہ'' تھا اور یہ بات آج تک نہ تو اسلامی مورخ واضح کر سکے ہیں نہ اسلامی تاریخی ناول نگار کہ ایک ''صوبے کا گورنر'' تمام افواج کا کمانڈر انچیف کیوں اور کیسے تھا۔ کیونکہ سپریم کمانڈر تو دمشق کا حکمران ولید بن عبدالمالک ہونا چاہیے تھا۔
ہم بھی اس بات پر زیادہ روشنی نہیں ڈال سکیں گے۔ صرف اتنا اشارہ کافی ہو گا کہ حجاج بن یوسف نے ولید بن عبدالمالک کو محدود کر دیا تھا، ا مال غنیمت حجاج بن یوسف کے زیر نگرانی تھا جس میں خلیفہ کو مخصوص حصہ دیا جاتا تھا ، باقی کے بارے میں تاریخ میں تو شاید کچھ ہو لیکن ہمیں علم نہیں ہے۔ محترم نسیم حجازی جو سب سے بڑے اسلامی تاریخی ناول نگار کہلاتے ہیں انھوں نے اپنے ایک ناول میں جس کا نام اب ہمیں یاد نہیں لیکن یقیناً محمد بن قاسم سے متعلق ہو گا اس میں حجاج کے بارے میں لکھا ہے کہ۔ حجاج بن یوسف ایک ایسا طوفان تھے جس نے دنیا کے اکثر ممالک سے کفر کے کانٹے اور کانٹے دار جھاڑیاں صاف کیے۔
البتہ کہیں کہیں کچھ ''پھول'' بھی اس کی زد میں آئے ہیں۔ خیر اس دور میں اچانک ولید کی وفات ہوئی، سلمان عبدالمالک نیا حکمران بن گیا۔ جنھیں اسلامی مورخین اور خاص طور پر اسلامی تاریخی ناول نگاروں نے سب سے زیادہ نااہل قرار دیا ہوا ہے کہ اس نے فوراً حجاج اور اس کے جرنیلوں کو معزول کر دیا۔
حجاج کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اس سے پہلے وفات پا چکا ہے بقول نسیم حجازی اگر سلمان قتیبہ بن مسلم کو اس وقت معزول نہ کرتا جب وہ چین میں داخل ہونے والا تھا تو چین پر بھی اسلامی پھریرا لہرایا جا چکا ہوتا۔ ہم سلمان بن عبدالمالک کی اہلیت یا نااہلیت کے بارے میں اس کی اچھائی یا برائی کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہیں گے لیکن اس کا یہ ایک فیصلہ اس کی شخصیت اور مزاج کا ثبوت پیش کر رہا ہے کہ اس نے بڑے بڑے اموی سرداروں کو رد کر کے عمر بن عبدالعزیز جیسے درویش اور قلندر کو اپنا جانشین بنایا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز کو جب یہ خبر ملی اور وہ زار زار رونے لگے۔ تو لوگوں نے پوچھا کہ لوگ اس ''منصب'' کے لیے کیا کیا نہیں کر سکتے۔
ایک بہت بڑی سلطنت کا حکمران بننا کس کے لیے خوش خبری نہیں ہو گی اور آپ رو رہے ہیں؟۔ اب وہ جواب دینے کا وقت آ گیا ہے جو انھوں نے دیا تھا اور وہ جواب یہ تھا کہ آج تک میرے اوپر صرف اپنے آپ اور اپنے خاندان کی ذمے داری تھی لیکن خلیفہ کے بعد اگر دجلہ کے کنارے بہت دور بھی کوئی بھوکا پیاسا یا تکلیف میں ہو گا تو اس کی ذمے داری بھی مجھ پر ہو گی اور یہ خوش خبری کا نہیں رونے کا مقام ہے۔
اور یہ ''ریاست مدینہ'' نہیں تھی بلکہ ریاست مدینہ کے بعد دوسرے درجے کی موروثی اور بہت ساری خرابیوں سے بھری ہوئی ''ریاست دمشق'' تھی۔ جنھوں نے کبھی اپنی بیوی کے بے پناہ کام کے باوجود مدد کے لیے کوئی کنیز تک نہیں دی جب کہ عام لوگوں کے گھروں میں بھی کنیزیں بھری ہوتی تھیں حتیٰ کہ ''خاتون اول'' خود اپنے ہاتھ سے چکی پیستی، آٹا گوندھتی اور روٹی پکاتی تھیں۔ ''خلیفہ ہاؤس'' کے اخراجات کا یہ عالم تھا کہ ایک دن کسی صوبے کا عامل حساب دے رہا تھا۔ جب حساب کتاب ہو چکا اور عامل نے خلیفہ سے ان کے اہل و عیال کے بارے میں پوچھنا شروع کیا تو آپ نے اٹھ کر پہلے چراغ بجھا دیا۔
پھر بولے، اب کہیے۔ عامل نے چراغ بجھانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا جب سرکاری کام چل رہا تھا تو بیت المال کا سرکاری تیل چلانا جائز تھا لیکن اب نجی گفتگو میں بیت المال کا تیل جلانا جائز نہیں ہے۔ یہ اس وقت کا پریزڈنٹ ہاؤس اور پرائم منسٹر ہاؤس تھا اور یہ اس کا مکین۔