طبقاتی تضادات کی انتہا

طبقاتی تضادات کو ختم کرکے ایک خوشحال سماج کی تشکیل صرف امداد باہمی کے آزاد سماج یا کمیونسٹ سماج میں ہی ممکن ہے۔


Zuber Rehman January 10, 2020
[email protected]

دو ہزار انیس میں تھرپارکر میں ایک جانب قدرتی آفات اور قحط سے آٹھ سو انسٹھ افراد جان سے جاتے رہے اور نواسی افراد بھوک اور افلاس سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور ہوگئے جب کہ کوئلے سے ملک نے چھ سو ساٹھ میگاواٹ بجلی حاصل کی۔ وزیر اعظم کے دورہ تھر میں کیے گئے اعلانات پر عملدرآمد شروع نہ ہوسکا۔

تھرپارکر میں قحط کے ساتھ بارش بھی ہوئی، جس سے اناج فصل کے ساتھ مویشیوں کے لیے چارا بھیگ گیا مگر ٹڈی دل نے تھریوں کی خوشی کو غم میں بدل دیا۔ بارشوں کے دوران پہلی بار خطرناک آسمانی بجلی گرنے کے کئی واقعات پیش آئے ، جن میں متعدد جانیں ضایع ہوئیں اور چار سو پچاس سے زائد بھیڑ بکریاں ، گائے اور اونٹ بھی مرگئے۔ قحط ، بھوک ، غربت، گھریلو پریشانیوں اور قرضوں کے ستائے نواسی افراد نے خودکشی کر لی۔

وزیر اعظم عمران خان نے تھرکے شہر چھروکے جلسے میں تھرکو سو آر او پلانٹ، چار ایمبولینس اور دو صحت موبائل یونٹس دینے کا اعلان کیا تھا جس پر 2019 میں عمل نہ ہوا۔ اس طرح دو بار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی تھرکا دورہ کیا مگر تھری عوام کے لیے بلاول بھٹو اور ان کی پارٹی کی سندھ حکومت نے کوئی بڑا منصوبہ نہیں دیا۔

قحط کے دوران اعلان کردہ تین بارکی گندم بھی تھریوں کو نہیں دی گئی۔ ہمیں اس ملک کے طبقاتی تضاد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک جانب بھوک ، غذائی قلت اور قرض سے ستائے ہوئے تھرپارکر کے نواسی کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے تو دوسری طرف پاکستان میں ارب پتیوں کا ایک جال سا بچھا ہوا ہے۔ کرپشن عائد ہونیوالوں اور حکومت میں شامل اسمبلی ممبران کی ایک بڑی تعداد ، نوکر شاہی، علما، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا ہزاروں کا جتھہ ارب پتیوں پر مشتمل ہے۔

وزیر اعظم بنی گالہ سے ہیلی کاپٹر سے وزیر اعظم ہاؤس تشریف لاتے ہیں، سارے وزرا نوکر شاہی، سیاسی رہنما، جاگیردار اور سرمایہ دار لاکھوں کروڑوں کی گاڑیوں میں سفرکرتے ہیں، بیرون ملک دورے کرتے ہیں، علاج کرانے جاتے ہیں، ان کے بچے بھی بیرون ملک پڑھ کر حکمران بنتے ہیں جب کہ تھر کے باسی قحط ، بھوک اور افلاس سے روز مرتے ہیں اور زندگی سے بے زار ہوکر خودکشیاں کرتے ہیں۔ یہ تضاد اور ظلم و جبر یہیں ختم نہیں ہوتا۔ پاکستان کے سب سے زیادہ ستائے ہوئے اور استحصال زدہ بھٹہ مزدور ہیں۔

گزشتہ دنوں سانگھڑ میں ایک بھٹہ مزدور کو اس کے اپنے ظالم سیٹھ نے مزدوری مانگنے پر اسے ڈنڈوں سے مار ڈالا۔ یہ بات دیگر بھٹہ مزدوروں نے بتائی۔ محلے کے لوگوں نے بھٹہ مزدور کی لاش کو سڑک پر رکھ کر احتجاجی مظاہرہ کیا مگر نتیجہ کیا نکلے گا۔ صاحب جائیداد طبقات کا کچھ نہیں ہوتا۔ غریبوں (کسانوں) کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں آپ کو روز ملیں گی۔ حیدرآباد چوڑی بنانے میں بہت مشہور ہے، یہاں سے چوڑیاں برآمد ہوتی ہیں جب کہ چوڑی بنانیوالے مزدور خاص کر خواتین جن کی چوڑی بناتے بناتے ہاتھ کی لکیریں بھی گھس جاتی ہیں شاید ان لکیروں کے ساتھ قسمت کی لکیریں بھی مٹ جاتی ہیں۔

دوسری جانب ارب پتیوں کی بیگمات اور صاحب جائیداد طبقات کی خواتین جوچوڑیوں کی کھنک اور چمک پرکتنی خوش ہوتی ہیں اور اس پر غزلیں بھی لکھی جاتی ہیں۔ ایک جانب ان مزدور عورتوں کے گھسے ہوئے ہاتھ تو دوسری جانب پیرس سے درآمد شدہ ہزاروں لاکھوں روپے کی کاسمیٹک سے پالش کیے ہوئے ہاتھ۔ کتنا تضاد ، کتنی خلیج، کتنی دوری اورکتنا فاصلہ ہے۔

ایک بس میں لٹکتی ہوئی خواتین چوڑی بنانے کی جگہ پہنچتی ہے تو دوسری جانب ساٹھ لاکھ کی گاڑی میں بیٹھ کر ساحل سمندرکی تفریح کرنے نکلتی ہیں۔ ایسی ہی صورتحال گھر مزدوروں کی ہے۔ ٹھیکیدار روزگارکے ستائے ہوئے نیم فاقہ کش گھر مزدور، عورتوں اور مردوں کو کوڑیوں کے دام گارمنٹس، ہوزری، ایمبرائیڈری، سلائی اور کڑھائی کرواتے ہیں اور خود ٹھیکیدار لاکھوں روپے کماتا بلکہ لوٹتا ہے، اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک شرٹ کی سلائی کرنے پر ٹھیکیدار مزدورکو ساٹھ روپے دیتا ہے اور خود بوتیک والوں کو تین سو روپے میں بیچتا ہے جب کہ وہی شرٹ جب بوتیک والا فروخت کرتا ہے تو صرف سلائی چھ سو روپے وصول کرتا ہے۔

ایک جوڑا شلوار قمیض سلوانے کے عام کپڑے سینے والے مزدور کو ایک سو پچاس روپے ملتے ہیں جب کہ وہی شلوار قمیض بازار میں شو روم والا صرف سلائی کے چھ سو روپے لیتا ہے۔ محنت کرنے والے کو اتنا ملتا ہے کہ مشکل سے دو روٹی خرید لیں اور سیٹھ گھر بیٹھے لاکھوں کماتا ہے اور اس کی رہائش پوش علاقوں میں ہوتی ہے اور ان کے بچے بھی او لیول میں پڑھتے ہیں۔ اس طبقاتی تضادات کو اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اس لیے کہ یہ تضاد سرمایہ داری کی برائی نہیں بلکہ سرمایہ داری کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ نیوزی لینڈ، کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ کوکرپشن سے پاک ، ملاوٹ سے پاک ، پڑھے لکھے اور مہذب ممالک کے صف اول میں ہونے کا سند دیا گیا ہے۔ ذرا سا جائزہ لیں تو پول کھل جائے گا۔ نیوزی لینڈ کی مقامی آبادی کا پندرہویں اور سولہویں صدی میں ڈچ اور برطانوی سامراج نے قتل عام کیا،ان کی عورتوں اور لڑکیوں کا برسوں ریپ کیا۔ یورپی نسل کے لوگوں کو نیوزی لینڈ میں منتقل کیا گیا، ان کے وسائل پر قبضہ کیا گیا اور اب وہاں مقامی آبادی مشکل سے دو فیصد رہ گئی ہے۔

یہی صورتحال کینیڈا کی ہے۔ کینیڈا پر پندرہویں اور سولہویں صدی سے برطانیہ اور فرانس نے حملہ کرکے قبضہ کیا اور وہاں کی مقامی آبادی کو جبراً عیسائی بنایا اور ان کی اپنی زبان میں بات کرنے پہ پابندی لگا کر انگریزی اور فرنچ بولنے پر مجبورکیا۔ اب وہاں بھی مقامی آبادی مشکل سے دو چار فیصد رہ گئی ہے۔گزشتہ برس کینیڈا کے وزیر اعظم نے فرسٹ سٹیزن یعنی مقامی آبادی سے اس جبر و ظلم پر ان سے معافی مانگی، مگر جبر و ظلم اب بھی جاری ہے۔ یہاں بھی ان کے وسائل کو لوٹا، مقامی آبادی کو قتل کرکے یورپیوں کو بسایا گیا۔ ان کی خواتین کو ریپ کرکے یورپی نسل کو بڑھایا گیا۔

اب آئیے ذرا سوئٹزرلینڈ کی جانب۔ یہاں قانون ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے کا کوئی بھی ڈاکو، لٹیرا رقوم لاکر یہاں کے بینکوں میں جمع کرا سکتا ہے اور اس کے اکاؤنٹس کو بے نقاب نہیں کیا جائے گا۔ یوں کہہ لیں دنیا بھر کے لٹیرے اپنے اپنے ملکوں کے محنت کشوں کی خون پسینے کی کمائی کو قدر زائد کے طور پہ لوٹ کر سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں جمع کرتے ہیں اور رقوم محفوظ رہتے ہیں اور یہ ممالک مہذب، ترقی یافتہ اور جینٹل کہلاتے ہیں۔ ہم قدامت پرست اور پسماندہ کہلاتے ہیں۔ ساحر نے درست کہا تھا کہ

آپ بے وجہ پریشان سی کیوں ہیں مادام

لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے

میرے احباب نے تہذیب نے سیکھی ہوگی

میرے ماحول میں انسان نہ بستے ہونگے

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

ان طبقاتی تضادات کو ختم کرکے ایک خوشحال سماج کی تشکیل صرف امداد باہمی کے آزاد سماج یا کمیونسٹ سماج میں ہی ممکن ہے۔ باقی سارے راستے بند گلی میں جا پہنچتے ہیں۔ ایک ایسی بے ریاستی دنیا ہوگی جہاں کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے یعنی ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے پھولوں سے دنیا معطر ہوجائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔