بدیوں کے بچے جوان ہوگئے ہیں
یاد رہے آئین، قانون تبدیل کرنے سے سماج تبدیل نہیں ہوتے بلکہ رویے تبدیل کرنے سے سماج تبدیل ہوتے ہیں۔
THE HAGUE:
ہمارے ملک میں طاقت واختیار رکھنے والے نوٹوں ، پیسوں، زمینوں ، ہیرے جواہرت کے ڈھیر رکھنے والے آخر اتنے بے رحم ، بے حس، ظالم ، چھوٹے دل و ذہن کے مالک ، عیش وعشرت کے دلدادہ کیوں ہیں جب کہ ان کے بر خلاف دنیا بھر میں ان جیسے انسان ان سے یکسر تبدیل شدہ ہیں۔
آئیں ! اس معاملے کی تحقیقات کرتے ہیں سب سے پہلے اختیاروطاقت کے دلداداوں کی فطرت کی چھان بین کرتے ہیں ایسے انسان دراصل اپنی محرومیوں کے پنجرے میں قید ہوتے ہیں، ان ہی کے متعلق ہومرکہتا ہے '' جیسے وہ پنجرے جن میں بالشیے یا بونے رکھے جاتے ہیں اسی نام سے انھیں موسوم کیاجاتا ہے نہ صرف ان کی نشو ونما کو جو ان میں قید ہیں روک دیتے ہیں اور اگر یہ بات جو میں سنتاہوں صحیح ہے بلکہ انھیں ان بیٹریوں اور زنجیروں سے بھی نقصان پہنچتا ہے جو ان کے جسم کے چاروں طرف بندھی ہوئی ہیں۔
اسی طرح ہر طرح کی غلامی خواہ وہ کتنی ہی منصفانہ ہو روح کے لیے ایک پنجرے کی حیثیت رکھتی ہے ایک عام قید خانہ۔'' ایسے انسان کسی حد تک بھی گر سکتے ہیں کیونکہ ان کی محرومیاں ان کی سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتوں پر حملہ آور ہوکر انھیں تباہ و برباد کر دیتی ہیں ۔
اب بات کرتے ہیں ۔ نوٹوں ، پیسوں ، زمینوں اور ہیرے جواہرات کے شوقینوں کی ۔ ان کے بارے میں عظیم فلسفی لو بخائنس لکھتا ہے '' دولت کی ہوس ایسی بیماری ہے جو ہمیں تنگ نظر اور تنگ دل بنا دیتی ہے اور عیش پرستی بالکل ذلیل صفت ہے، مزید غورکرنے پر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر ہم بے پناہ دولت حاصل کرنے کی قدرکرتے ہیں یا بات کو سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے یوں کہیں کہ اسے دیوتا سمجھتے ہیں تو پھرکیسے ہم ان بدیوں کو جو دولت سے وابستہ ہیں اپنی روحوں میں سرایت کر جانے سے روک سکتے ہیں ، کیونکہ بے شمار اور بے حساب دولت کے ساتھ ساتھ قدم بہ قدم اصراف بے جا اور فضول خرچی آتی ہے اور جیسے ہی وہ شہروں اورگھروں کے دروازے کھول دیتی ہے ویسے ہی دوسری برائیاں داخل ہوجاتی ہیں اور وہاں اپنے گھر تعمیر کرلیتی ہیں۔
وقت گذرنے پر فلسفیوں کے مطابق وہ ہماری زندگیوں میں گھونسلے بنا لیتی ہیں اور جلد ہی بچے دینے لگتی ہیں۔ ظاہر داری ، بے جا غرور ، آرام طلبی اور عیش پسندی اسی کے بچے ہیں جو حرامی بچے نہیں بلکہ اس کے جائز بچے ہیں اور دولت کے یہ بچے جب سن بلوغت کو پہنچتے ہیں تو یہ ہمارے دلوں میں سنگدل آقائوں کی گستاخی ، بد تمیزی ، لاقانونیت اور بے حیائی و بے شر می کو جنم دیتے ہیں پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ نہ نظر اٹھاکر دوسروں کو دیکھیں گے اور نہ نیک نامی کا خیال کریں گے'' اب آپ ہی بتادیں کہ آپ ان بدیوں کے بچوں سے جو ہمارے سماج میں سن بلوغت کو پہنچ چکے ہیں کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ ان سے کیسے لڑسکتے ہیں؟
اب آپ اس سماج پر جتنا چاہیں رو لیں جتنا چاہیں اس کو کوس لیں کچھ بھی بدلنے کا نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہمارا سماج ان لوگوں کے چنگل میں پھنس گیا ہے جو اختیار ، طاقت ، دولت ، روپے پیسوں اور ہیرے جواہرات کے بھوکے ہیں یہ لوگ جتنا اپنی ذات میں یہ چیزیں جمع کرتے جاتے ہیں اتنی ہی ان کی بھوک میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ اور جمع کرتے ہیں یہ اور بھوکے ہوجاتے ہیں ایسے انسان طاقت ، اختیار ، دولت ، روپے پیسے اور ہیرے جواہرات حاصل کرکے سب سے پہلے اخلاقیات سے پاک ہو جاتے ہیں اوریہ کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں انسانوں سے الگ تھلگ اور یکسر مختلف سمجھنے لگتے ہیں یا آسان زبان میں وہ سماجی درندے بن جاتے ہیں۔
اصل میں ایسے انسان بہت کمزور اوربزدل واقع ہوتے ہیں وہ ہمیشہ جمع شدہ چیزوں کے کھوجانے یا چھن جانے کے خوف میں ہر وقت مبتلا رہتے ہیں اور اپنے آپ کو انتہائی غیر محفوظ سمجھتے رہتے ہیں۔ یہ وجوہات ان میں حد درجے کے نفیساتی مسائل پیدا کرنا شروع کر دیتی ہیں ان کے اندر توڑ پھوڑ کا عمل تیزی کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے آپ کو محفوظ بنانے کی خاطر دوسروں کو غیر محفوظ بنانا شروع کر دیتے ہیں وہ دوسروں کو اس لیے غیر محفوظ بناتے ہیں تاکہ خود محفوظ رہ سکیں یہ ہی وہ موڑ ہوتا ہے جہاں وہ خود سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ وہ دوسروں سے اختیار ، طاقت ، عزت ، روٹی ، روزگار ،صحت اس لیے چھنتے ہیں کہ ان کی عزت واحترام کیاجاتا رہے غریب ، لاچار، بے بس ان کے آگے ہر وقت ہاتھ پھیلاتے رہیں ۔ ان کے سامنے ہر وقت گڑگڑا تے رہیں ان سے ہر وقت مانگتے رہیں ۔ اس طرح وہ کھوکھلے ، مصنوعی ، ڈکھوسلے باز،ڈرپوک اور بزدل تسکین حاصل کرتے ہیں۔
یاد رہے آئین، قانون تبدیل کرنے سے سماج تبدیل نہیں ہوتے بلکہ رویے تبدیل کرنے سے سماج تبدیل ہوتے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفی ہیرا قلیطس کہاکرتا تھا کہ ہم مجموعی طور پر ایک ایسا نظام ہیں جو مسلسل تبدیلی کی حالت میں ہے اور جو اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرتا پھر وہ ڈائنو سارکی طرح مٹ جاتا ہے، ڈائنو سارکتنے طاقتور تھے لیکن انھوں نے اپنے آپ کو حالات کے مطابق تبدیل نہیںکیا اور آج ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔
ظاہر ہے ہمارے ان بیماروں میں سے کوئی بھی ڈائنوسارکی طرح طاقتور نہیں ہے۔ آج ایک تبدیل شدہ دنیا ہے ، طاقت ، اختیار ، دولت ، روپوں پیسوں ، زمینوں کو اپنی ذات میں جمع کر نے والوں کو دنیا بھر میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انھیں بیمار تسلیم کیاجاتا ہے۔ ایسے بیمار جو اپنے سماج کو بیمارکر دیتے ہیں اپنے جیسے انسانوں کو ذلیل وخوارکرتے ہیں، اگر ہمارے یہ بیمار اور قابل رحم اپنے آپ کو تبدیل نہیں کریں گے تو پھر ایک دن ڈائنوسارکی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ جائیں گے اور پھر اختیار، طاقت ، دولت ، زمین اور عزت ہر ایک کا نصیب اور مقدر بن جائے گی۔