’’قونیہ‘‘
ہمارے قونیہ آنے کے اولین مقصد یعنی مولانا روم کے مزار کی زیارت کے متاثر ہونے کا اندیشہ تھا۔
قونیہ ، انقرہ سے بذریعہ ریل پونے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ٹکٹوں کی بکنگ آسمان نے پہلے سے کرا رکھی تھی چنانچہ صبح جاگے ، تیار ہوئے، ناشتہ کرنے اور اسٹیشن پر بروقت پہنچنے کے سارے مسائل آسانی سے طے ہوگئے مگر عین آخری منزل یعنی ٹرین پر سواری سے پانچ منٹ پہلے ایک عجیب مسئلہ پیدا ہوگیا کہ وہاں بھی مسافروں کواپنی شناخت کے لیے کوئی آئی ڈی دکھانا پڑتا ہے۔
غیر ملکی مسافر ہونے کی صورت میں یہ کام پاسپورٹ سے لیا جاتا ہے۔ اب ہوا یوں کہ ٹکٹ پر میرے نام کے دوسرے امجد کی جگہ احمد ٹائپ ہوگیا اور آسمان کی قینچی کی طرح چلنے والی زبان اور مکالمے پر دسترس کے باوجود ڈیوٹی پر مامور خاتون نے ہتھیار نہیں ڈالے اور آسمان کو بتایا کہ یہ اجازت صرف متعلقہ افسر ہی دے سکتا ہے جس کا دفتر اس بڑے سے ہال کے دوسرے کنارے پر ہے۔
آسمان کی تیز رفتاری اور معاملہ فہمی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اُس نے تین چار منٹ کے اندر اندر یہ سب مراحل طے کر لیے اورہم ٹرین کی روانگی سے چند سیکنڈ قبل اپنی اپنی سیٹوں پر ہی بیٹھ گئے۔ سسٹم اور افراد کے باہمی ارتباط کا یہ مظاہرہ ایسا تھا کہ اس کی موجودگی میں یورپی یونین والوں کا ترکی کو ممبر شپ نہ دینا کسی طور نہیں بنتا تھا ۔
آسمان نے بتایا کہ وقت کی کمی اور کچھ دیگر مقامی مسائل کے باعث قونیہ یونیورسٹی کی مجوزہّ تقریب ملاقات کی نوعیت میں تبدیل کر دی گئی ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں ہمارے قونیہ آنے کے اولین مقصد یعنی مولانا روم کے مزار کی زیارت کے متاثر ہونے کا اندیشہ تھا۔ یہ ایک بہت صحیح اور دور اندیشانہ فیصلہ ثابت ہوا کہ قونیہ آبادی کے اعتبار سے چھوٹا لیکن رقبے کے اعتبار سے خاصا بڑا شہر ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر قونیہ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے دو اُستاد ڈاکٹر رجب اور ڈاکٹر خاقان ہمارے استقبال کے لیے ہمہ تن مسکراہٹ کی شکل میں موجود تھے۔
معلوم ہوا کہ داکٹر رجب آسمان کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے طالب علم تھے جب کہ ڈاکٹر خاقان اُس کے کالج کے زمانے کے دوست اور ہم سبق تھے۔ ہلکی ہلکی بارش میں قونیہ کی سڑکوں پر خاقان کی گاڑی رواں ہوئی تو چند ہی منٹوں میں تکلفات کے پردے اُٹھتے چلے گئے اور ایک ایسی دوستانہ سی فضا پیدا ہوگئی جس میں ہر لمحے مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ہمیں چائے ا ور کافی کے لیے ایک ایسے ریستوران میں لے جانا چاہتے ہیں جہاں سے سارا شہر دور تک دکھائی دیتا ہے اور جہاں ہم سب کی مشترکہ دوست اور جدید فکشن کی ایک بہت اہم اور ہنر مند مصنفہ طاہرہ اقبال نے بھی کچھ وقت گزارا تھا، ایک بالکنی نما جگہ پر کھڑے ہوکرہم نے دُور فاصلے پر مولانا روم کے مزار کی ایک جھلک بھی دیکھی اور اس کے بعد دیر تک انھی کی باتیں کرتے رہے۔
معلوم ہوا کہ جدید ترکی جہاں ایک طرف مغربی دنیا کے بہت سے طور طریقے اپنا رہا ہے وہاں اس کے ساتھ ساتھ مولانا روم کی شخصیت اور افکار کی اشاعت اور فروغ پر بھی بہت زور دیا جا رہا ہے اور یوں یہ معاشرہ ایک ایسے توازن کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں طبیعات اور مابعد الطبیعات دونوں کو برابر کا حصہ مل رہا ہے ۔
مولانا روم کے مزار کے جس دروازے سے ہم اس کے وسیع صحن میں داخل ہوئے اُسے مقامی زبان میں گستاخوں کا دروازہ کہا جاسکتا ہے۔ خاقان نے بتایا کہ جس رقصِ درویش کا ذکر اس مزار کے حوالے سے کیا جاتاہے، وہ ایک باقاعدہ آرٹ ہے جسے سیکھنا پڑتا ہے اور جو طالب علم اس امتحان میں پاس نہیں ہوپاتے وہ رات کے اندھیرے میں چھپ کر اس دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں تاکہ اُن کا بھرم قائم رہے۔
''گستاخی'' کی یہ رعائت ٹھیک سے سمجھ میں تو نہیں آئی مگر پھر خیال آیا کہ روایات اور عقائد کے ساتھ اس طرح کی آسانی سے سمجھ میں نہ آنے والی باتیں تو ایک عالمی ورثہ ہیں جن کو معروف کاروباری اصطلاح میں as is, where is کی طرح ہی لینا اور دیکھنا پڑتا ہے۔ مزار کی عمارت بھی خاصی وسیع اور کشادہ ہے جب کہ اس کے صحن، حجروں اور ملحقہ عمارات کو ملا کر دیکھا جائے تو اس کا رقبہ اور زیادہ بڑھ جاتاہے مگر اس کے باوجود ہمارے عمومی خیال اور اندازے کے برعکس اس سے متعلق مشہورِ عام رقصِ درویش اس کے نواح میں نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے قدرے فاصلے پر ایک کلچرل سینٹر مختص کیا گیا ہے جہاں یہ صرف ہفتے کی رات کو پیش کیا جاتا ہے، اس طرح رومی کے مرشد اور دوست شمس تبریز کا مزار بھی ایک علیحدہ جگہ پر ہے جس کی زیارت اس لیے ممکن نہ ہوسکی کہ ان دنوں وہاں تعمیر و مرمت کا کچھ کام ہورہا ہے جس کے باعث سیاحوں کے لیے اسے وقتی طور پر بند کردیا گیا ہے۔
مولانا روم کے مزار کے آس پاس اُن کے اہلِ خانہ ا ور کچھ رفقاکی بھی قبریں ہیں مگر ان سب کو قدیم طرز پر تعمیر کیا گیا ہے کہ اصل قبریں قدرے گہرائی میں ہیں اور اوپر صرف اُن کی علامتی تعویذ نما شکلیں بنا دی گئی ہیں، وہاں فاتحہ خوانی ا ور کچھ دیر کی خاموش گفتگو کے بعد دوست ہمیں ملحقہ ہال میں لے گئے جہاں مثنوی مولانا روم کے قدیم اور قیمتی نسخے اور مسودے محفوظ کردیے گئے ہیں جن میں سے اکثر جہازی سائز میں اورخاص نوعیت کے کاغذ اور خطاطی کے شاندار نمونے ہیں ۔
لاہور کی بادشاہی مسجد کی طرح مزار کے اطراف میں کئی حجرے ہیں جن میں مولانا روم سے متعلق بہت سی یادگاروں کو محفوظ کردیا گیا ہے اسی طرح رقصِ درویش اور فقیری لنگر کو بھی آرٹ اور سنگ تراشی کے مختلف طریقوں سے ایسی شکل دی گئی ہے کہ آپ تصور کی سطح پر اُن کے زمانے کو محسوس کر سکیں ۔ علامہ اقبال کی ذہنی تعمیر میں مرشدِ رومی کا جو دخل اور اثر ہے، اُس سے تو تمام اہلِ علم باخبر ہیں مگر یہ بات شائد سب کے علم میں نہ ہو کہ اسی مزار کے احاطے میں ایک جگہ اقبال کی علامتی قبر یا یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے جس کی لوح پر ان دونوں عظیم ہستیوں کے روحانی اور فکری تعلق کو بھی واضح کیا گیا ہے ۔
رات کا کھانا انقرہ میں پہلے سے طے تھا جس کے میزبان سفیرِ پاکستان سائرس سجاد قاضی تھے۔ اب ہوا یوں کہ قونیہ سے تو ہم بروقت واپس پہنچ گئے لیکن تیز بارش اور آسمان کی متعلقہ ریستوران کے محلِ وقوع سے ناواقفیت کے باعث ہمیں وہاں تک پہنچنے میں اندازے سے بہت زیادہ وقت لگ گیا۔ دعوت جتنی پرتکلف تھی، محفل اتنی ہی بے تکلف تھی، سو چند ہی لمحوں میں تاخیر کا تاثر قصہ پارینہ بن گیا۔کم و بیش یہی کیفیت گزشتہ روز ملٹری اتاشی برادرم عمران اصغر کے عصرانے ا ور عزیز دوست ڈاکٹر اے بی اشر ف کے عشایئے میں رہی کہ کسی بھی محفل سے اُٹھنے کو جی نہیں چاہتا تھا ۔
عمران اصغر صاحب کے گھر چائے کے دوران طے پایا کہ کل صبح ہمیں سفارت خانے کی گاڑی آسمان کے گھر سے لے لے گی تاکہ ہم نہ صرف کچھ دیر وہاں گزار سکیں بلکہ دوپہر کا کھانا بھی سائرس قاضی صاحب کے گھر پر کھائیں جو اسی عمارت کے ساتھ ملحق ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں کھانا پکانے سے لے کر اتنے بڑے گھر کی صفائی کا کام بھی بیگم سائرس قاضی کو کرنا پڑتا ہے جو خود ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر معاشیات بھی ہیں کہ حکومت کی طرف سے ایک گھریلو ملازم کے لیے جو الائونس دیا جاتا ہے اُس میں کوئی بھی ملازم کام کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہ بیک وقت ایک بہت دلچسپ اور غور طلب صورتِ حال تھی کہ بعض اوقات چیزیں اپنے عمومی تصور سے کس قدر مختلف ہوتی یا ہوسکتی ہیں ۔
واپسی کی فلائٹ براستہ استنبول تھی جہاں ہمیں ائیر پورٹ پر ہی چار گھنٹے رکنا تھا جب کہ سارا راستہ ہم میاں بیوی یہی بات کرتے رہے کہ اگر تمام عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان ترکی سے وہ اچھی اچھی باتیں سیکھ سکے جن کی وجہ سے یہ ملک مسلسل آگے بڑھ رہا ہے تو ہمارا اجتماعی مستقبل کس قدر روشن اور باوقار ہوسکتا ہے۔