2019ء پولیس مقابلوں میں اضافہ بے گناہ شہری بھی مارے گئے

 2018ء کی نسبت گزشتہ برس 266مقابلے ہوئے جن میں 12 پولیس اہلکاربھی شہید ہوئے


Raheel Salman January 12, 2020
 2018ء کی نسبت گزشتہ برس 266مقابلے ہوئے جن میں 12 پولیس اہلکاربھی شہید ہوئے۔ فوٹو : فائل

گزشتہ برس 2019 کے اواخر میں کراچی پولیس میں اصلاحات کا آغاز کیا گیا، لیکن یہ اصلاحات بے سبب نہیں بلکہ ان کے پیچھے کئی معصوم و بے گناہ شہریوں کا خون شامل ہے۔

پولیس کی فائرنگ سے کئی معصوم شہری جان سے بھی گئے اور زخمی بھی ہوئے۔ 2019ء کے دوران کراچی میں 266 پولیس مقابلے ہوئے جن میں 30 ملزمان ہلاک اور 65 ملزمان زخمی ہوئے، پولیس مقابلوں کے دوران 21 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے، 2018ء میں یہ تعداد 242 تھی، جس میں 25 ملزمان ہلاک جبکہ 62 زخمی ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے بے گناہ شہری بھی اپنی زندگیوں سے محروم ہوتے رہے، جن میں جواں سال طالبہ، 2 کم عمر بچے اور دیگر افراد شامل ہیں۔

ان واقعات کے بعد پولیس اصلاحات کا آغاز کیا گیا، جس کے تحت اہلکاروں کی خصوصی تربیت بھی شروع کر دی گئی ہے، جن کے ثمرات کا علم آنے والے وقت میں ہو گا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 2019ء کے دوران کراچی میں 12 جبکہ صوبے بھر میں مجموعی طور پر 25 پولیس افسران و اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔

2019ء کے دوران پولیس جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سرگرم عمل رہی، جس دوران 266 مرتبہ ملزمان سے آمنا سامنا ہوا، دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں جہاں ایک جانب 30 ملزمان ہلاک ہوئے تو وہیں 21 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے، ملزمان کے زخمی ہونے کی تعداد 65 رہی، یہ مقابلے شہر کے مختلف علاقوں میں ہوئے جہاں شہریوں کی جانب سے لوٹ مار کی اطلاع یا دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر پولیس نے کارروائی کی۔

ہر سال کی طرح گزشتہ برس بھی پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے شہریوں کی ہلاکت کے واقعات رونما ہوئے، جن میں رواں برس کے آغاز میں کورنگی کے علاقے میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے میاں بیوی زخمی ہوئے ، واقعے کی تحقیقات کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں کو سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا، فروری کی 22 تاریخ کو سرسید ٹاؤن کے علاقے نارتھ کراچی انڈا موڑ کے قریب شارع نور جہاں پولیس کی ملزمان سے فائرنگ کے تبادلے میں رکشہ سوار جواں سال طالبہ نمرا سر پر گولی لگنے سے جاں بحق ہوئی، واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے انھیں باقاعدہ گرفتار کیا گیا۔

اپریل کے مہینے میں قائد آباد میں منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کے دوران پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے کم عمر بچہ سجاد زندگی کی بازی ہار گیا، صفورا چورنگی کے قریب کمسن احسن پولیس اہلکار کی گولی کا نشانہ بنا اور اپنے والد کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا، اکتوبر میں لانڈھی کے علاقے میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ننھی بچی اس وقت زخمی ہوئی جب پولیس اہلکار علاقے میں بڑھتے ہوئے سگ گزیدگی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے کتوں پر گولیاں چلا رہے تھے۔

شہر کے پوش علاقے میں کینٹ اسٹیشن کے قریب پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نبیل ہود بائی نامی شہری زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا جبکہ اس کا دوست زخمی ہوا، تمام تر واقعات میں پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کر کے انھیں گرفتار کیا گیا اور ان کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ، اس قسم کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو پانے کے لیے آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے حکمت عملی مرتب کرنے کا حکم دیا جس پر پولیس اہلکاروں کو خصوصی تربیتی کورس کرانے کا عمل شروع کیا گیا۔

اس ضمن میں ڈی آئی جی ٹریننگ ناصر آفتاب نے بتایا کہ مذکورہ کورس میں پولیس اہلکاروں کو اسنیپ چیکنگ ، مشتبہ افراد کے تعاقب کرنے ، ان کی جامہ تلاشی اور ملزمان کے فرار کی صورت میں قرب و جوار میں موجود دیگر پولیس موبائلوں کو آگاہ کرنا شامل ہے، مذکورہ کورس شہید بے نظیر بھٹو ایلیٹ پولیس ٹریننگ سینٹر رزاق آباد میں کرایا جا رہا ہے جس میں کراچی پولیس کے اہلکاروں کو تربیت فراہم کی جارہی ہے۔

گزشتہ برس کے دوران اگر پولیس اہلکاروں کی شہادت کی بات کی جائے تو ٹارگٹ کلنگ، پولیس مقابلوں اور ڈیوٹی کے دوران 12 پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا، اگر 2011ء سے جائزہ لیا جائے تو گزشتہ 9 برس کے دوران یہ سب سے کم تعداد ہے جبکہ اسی دورانیے میں سب سے زیادہ تعداد 2013ء میں تھی، جس دوران 163 پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے تھے، 2011ء سے 2019ء کے دوران مجموعی طور پر 641 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔

پولیس اہلکاروں کی شہادت کے حوالے سے 2019ء کے دوران پہلا واقعہ 21 جنوری کو سولجر بازار میں پیش آیا جہاں ٹارگٹ کلنگ کے دوران کانسٹیبل احتشام شہید ہوا، 12 فروری کو پاک کالونی میں ملزمان کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں کانسٹیبل محمد فاروق نے جام شہادت نوش کیا، 3 مارچ کو سول لائنز کے علاقے میں پولیس مقابلے کے دوران کانسٹیبل جہانگیر جاں بحق ہوا ، اگلے ہی روز اورنگی ٹاؤن میں ملزمان نے اے ایس آئی رضوان کو نشانہ بنایا، 9 مارچ کو اقبال مارکیٹ کے علاقے میں ملزمان کے ساتھ دوبدو فائرنگ میں کانسٹیبل حبیب اللہ کو گولی لگی ، 22 مارچ کو عزیز بھٹی میں نامعلوم ملزمان نے نشانہ بنا کر کانسٹیبل محمد فاروق کو موت کے گھاٹ اتارا ، 7 اپریل کو درخشاں کے علاقے میں فرائض کی انجام دہی کے دوران کانسٹیبل خالد محمود شہید ہوا، 17 جون کو اورنگی ٹاؤن مومن آباد کے علاقے میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں 2 پولیس اہلکار کانسٹیبل اللہ دتہ اور احمد علی نے جام شہادت نوش کیا ، اگلے ہی روز مدینہ کالونی میں کانسٹیبل سید زاہد عظیم جبکہ 20 جولائی کو سائٹ سپر ہائی وے کے علاقے میں سب انسپکٹر غلام قادر شر ملزمان کی گولیوں کا نشانہ بنے ، 19 ستمبر کو ناظم آباد میں پولیس مقابلے کے دوران کانسٹیبل ذیشان شہادت کے مرتبے پر فائض ہوا۔ اگر سال 2011 سے پولیس اہلکاروں کی شہادت کا جائزہ لیا جائے تو 2011 میں 69 ، 2012 میں 126 ، 2013 میں 163 ، 2014 میں 135 ، 2015 میں 77 ، 2016 میں 24 ، 2017 میں 21 ، 2018 میں 14 جبکہ 2019ء میں 12 پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں