آج کا سب سے بڑا سوال
فرقہ واریت کا جن بھی بوتل سے باہر آچکا ہے اور ٹارگٹ کلنگ میں بھی حکومتی دعوئوں کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی
حالات بظاہر عام انتخابات کی طرف بڑھتے نظر آتے ہیں یعنی ڈھائی تین سال کی مدت کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں اب اہمیت کھو چکی ہیں۔ ایسا لگتا کہ ٹیکنو کریٹ حکومت کے بجائے معمول کی نگران حکومت کے زیر انتظام اگلے الیکشن ہوں گے اور پھر 5 سال کے لیے کسی ایک یا ایک سے زیادہ اتحادی سیاسی جماعتوں کو نیا مینڈیٹ ملے گا اور یوں نیا سیٹ اپ کام شروع کردے گا۔
سپریم کورٹ اور حکومت میں پہلے جیسی محاذ آرائی بھی دکھائی نہیں دے رہی۔معاملات بہتری یا کسی منطقی انجام کی طرف بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ ان تبدیلیوںکے باوجود بعض اوقات مختلف قسم کے اندیشے خوش گمانی پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک لگتے لگتے اچانک محسوس ہوتا ہے کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں۔مجھے تو اس قسم کے اندیشوں اور وسوسوں کی واحد وجہ امن و امان کی غیریقینی صورتحال لگتی ہے کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات بھی ہو رہے ہیں، فرقہ واریت کا جن بھی بوتل سے باہر آچکا ہے اور ٹارگٹ کلنگ میں بھی حکومتی دعوئوں کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی حتٰی کہ اسٹریٹ کرائمز تک کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا ہے۔
کہیں زیادہ' کہیں کم لیکن ملک کے کونے کونے میں دہشت گرد اور فرقہ پرست دندناتے پھر رہے ہیں۔ وہ جب چاہیں' جہاں چاہیں کارروائی کر سکتے ہیں۔جرائم پیشہ اور لٹیرے عوام کو سٹرکوں پر لوٹ رہے ہیں۔صوبائی حکومتیں بھی بڑھک مار کر خامو ش ہوجاتی ہیں جب کہ ہماری مرکزی وزارت داخلہ کیا کر رہی ہے؟ رحمان ملک کے سوا کوئی نہیں جانتا۔عوام کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے صوبائی حکومت کا اختیار کہا ں ختم ہوتا ہے اور مرکزی وزارت داخلہ کا کہاں سے شروع ہوتا ہے۔
ملک صاحب نے ہفتے کو فرمایا کہ ''آیندہ دو سے ڈھائی ہفتے پاکستان کے لیے خطرناک ہیں' لاہور' کراچی' کوئٹہ' خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے تین یا چار بڑے واقعات ہو سکتے ہیں۔ اطلاع ملی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے کراچی میں سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر قبضے کا پروگرام بنایا ہے۔ فرقہ واریت کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے'' وفاقی وزیر داخلہ کی یہ سب باتیں اہم ہیں۔ انھوں نے کچھ اور اہم باتیں بھی کہی ہیں وہ مشہور ہی اپنی اہم باتوں کی وجہ سے ہیں۔ وہ بیک وقت دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے بھی کرتے ہیں اور ان کی خوفناک کارروائیوں کی پیش گوئیاں کر کے قوم کو ڈراتے بھی ہیں۔
وہ وزارت داخلہ کے سربراہ ہیں اور ظاہر ہے ان کے ماتحت اداروں کے پاس جو معلومات آتی ہیں وہ موصوف تک پہنچا دی جاتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم یہ اطلاعات آئی بی' آئی ایس آئی' ایم آئی یا صوبائی اسپیشل برانچیں ان تک پہنچاتی ہیںیاکوئی ایسا میکنزم تشکیل دیا گیا ہے جس کے تحت ملک کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کسی مرکزی دفتر میں جمع ہوتی ہیں اور وہاں سے جانچ پڑتال کے عمل سے گزرنے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ تک پہنچ جاتی ہیں۔
ملک صاحب کا تازہ ترین بیان سن اور پڑھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا ہوں کہ ''وہ قیامت'' آنے کا وقت بتا کر کیا یہ چاہتے ہیں کہ عوام اس ''قیامت'' کو ٹالنے کا خود بندوبست کریں۔ سوال یہ ہے کہ جب انھیں اور ان کی وزارت کو یہ علم ہے کہ بڑی کارروائیاں ہونے والی ہیں تو پھر وہ میڈیا میں بیان دینے کے بجائے دہشت گردوں پر کریک ڈاون کا کوئی میکنزم تیار کیوں نہیں کرتے۔ جب یہ پتہ چل جاتا ہے کہ بارود سے بھری کوئی گاڑی فلاں شہر میں داخل ہو چکی ہے تو سب سے پہلا سوال یہ ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ جب بارود سے بھری گاڑی اس 'فلاں' شہر میں داخل ہو رہی تھی اس وقت سیکیورٹی پر مامور ادارے اور عملہ کہاں تھا اور بالفرض اگر یہ مان لیا جائے کہ دہشت گرد سیکیورٹی کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر سوال یہ سامنے آتا ہے کہ بارود سے بھری اس گاڑی کو شہر میں تلاش کیوں نہیں کیا جاتا' کسی حملے کا کیوں انتظار کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے کیا مشکلات ہیں ، اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ وزارت داخلہ اپنی معلومات صوبائی حکومت تک پہنچاتی ہے یا نہیں، اگر صوبائی حکومتوں تک معلومات پہنچتی ہے تو پھر وہ کوئی اقدام کرتی ہیں یا نہیں ، اس کے بارے میں بھی مجھے کچھ علم نہیں۔ مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ کوئی ایجنسی دہشت گردوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوتی، اسی لیے وہ آسانی سے واردات کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
خود کش حملے اور دہشت گردی کی حالیہ لہر سے مجھے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ساڑھے چار ماہ پہلے بنوں جیل سے فرار ہونے والے طالبان کی مرہون منت ہے۔ اپریل کے وسط میں تحریک طالبان پاکستان کے 200 مسلح دہشت گردوں نے بنوں جیل پر حملہ کیا تھا اور اپنے 383 قیدی چھڑا لیے تھے۔ اس وقت سے دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں تحریک طالبان پاکستان اور اس کی حامی دیگر کالعدم تنظیمیں شامل ہیں جب کہ فرقہ وارانہ قتل و غارت میں کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کا نام آتا ہے۔
بلوچستان میں ہزارہ منگول برادری خاص طورپر نشانے پر ہے۔ سال ڈیڑھ سال پہلے تک مختلف مسالک کے افراد کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ مزارات تباہ ہو رہے تھے۔ مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے ہورہے تھے، فرقہ واریت یا مسالک کی یہ تقسیم ہمیں اوپری سطح پر نظر آتی ہے' عوام میں ایسی کوئی تقسیم موجود نہیں۔ اوپر والی سطح کی بات کی جائے تو رویت ہلال کمیٹی تک اس کے اثرات موجود ہیں۔میرے خیال میں ہماری حکمران اشرافیہ ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہوچکی ہے، وہ بھی مختلف قسم کے ڈائون تعصبات اور عصبیتوں کا شکار ہے۔یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔
ہماری سیاسی لیڈرشپ اپنی جمہوریت بچانے کی جنگ کافی حد تک جیت چکی ہے۔ لیکن وہ دہشت گردی اورٹارگٹ کلنگ روکنے کی جنگ ہار رہی ہے۔ صدر آصف زرداری ہوں یا نواز شریف' ان دونوں نے اب تک کسی غیر جمہوری اقدام کی گنجائش پیدا نہیں ہونے دی۔ زرداری صاحب اپنے سیاسی پتے بھی مہارت سے استعمال کر رہے ہیں۔ انھیں سیاسی محاذ پر مکمل کامیابی مل چکی ہے لیکن امن و امان کے محاذ پر مکمل ناکامی ہے۔ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں مسلک کی بنیاد پر بیگناہوں کا قتل روکنے میں مکمل ناکامی۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ رکوانے میں مکمل ناکامی۔ کہیں ٹارگٹ کلر اتنے طاقتور ہیں کہ انھیں روکا نہیں جا سکتا اور کہیں مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں۔
پاکستان میں ایک پراکسی وار آئی ایس آئی کے خلاف سی آئی اے لڑ رہی ہے۔ دوسری پراکسی وار ہمارے برادر اسلامی ملک لڑ رہے ہیں۔ لڑائی کسی کی بھی ہو اس میں نقصان سراسر پاکستان اور پاکستانیوں کا ہو رہا ہے۔
ان حالات کی روشنی میں آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت بچانے والے سیاستدان ملک بھی بچا پائیں گے؟