سنا جارہا ہے

ماضی کے دشمن پھر دوست بننے والے ہیں، جہاں کبھی غصہ، تناؤ اور رنجش رہا کرتی تھی اب امن، رضامندی اور میل ملاپ ہے


واصب امداد January 15, 2020
سیاسی وعدوں پر جان نچھاور کرنے والی قوم کے ساتھ ایک بار پھر بھونڈا مذاق ہوگا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سنا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے کابینہ سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ خالد مقبول صدیقی کی ظاہری گھن گرج اور زیرِ لب مسکراہٹ سوچنے پر مجبور کررہی ہے۔ پس دیوار کہانی کا قلم کار 'جی کا جانا' لکھ چکا ہے۔ سنا جارہا ہے کہ کچھ ایسا ہی فیصلہ حکومت کی حالیہ تناظر میں اہم ترین اتحادی بی این پی مینگل بھی کرسکتی ہے اور تحریکِ انصاف کےلیے حکومت کا دور 'قصہ پارینہ' ہوسکتا ہے۔ بی این پی مینگل نے بھی کور کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا ہے اور جلد ان کی جانب سے بھی یہ فیصلہ متوقع ہے کہ ان کے چھ نکات پر حکومت کی جانب سے اس تمام عرصے میں چھ منٹ بھی سوچ بچار نہیں کیا گیا، لہٰذا اب اپنی چھ نشستوں سے استعفیٰ دے کر حکومت کے چھکے چھڑائے جائیں۔

سنا جارہا ہے کہ اپوزیشن آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملے پر ترمیم کے حق میں ووٹ کرنے پر اپنے نظریاتی ووٹروں سے گالیاں تو سن رہی ہے مگر اندرونی طور پر کافی مطمئن ہے۔ سنا جارہا ہے کہ لندن سے لاہور یہ پیغام بھجوایا گیا ہے کہ اس ایکسٹینشن کے حق میں ووٹ دینے کے بدلے میں بہت سی گارنٹیاں لی جاچکی ہیں اور کسی صورت شریف برادران نے، جن کا خاندانی پیشہ ہی کاروبار ہے، گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ رواں ہفتے ہونے والے ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اہم اجلاس میں شہباز شریف کا پیغام پہنچادیا گیا کہ عمران حکومت کی ناکامی کی صورت میں ملک کی باگ ڈور اْن کے ہاتھ میں دی جاسکتی ہے اور لیگیوں کو ایک اور موقعے کی تیاری کا اشارہ دیا جاچکا ہے۔

سنا جارہا ہے کہ ترمیم کے معاملے پر مریم نواز کافی مایوسی کا شکار ہیں اور اسی کا غصہ انہوں نے خواجہ آصف پر نکالا ہے، جس کی وجہ سے ہر ووٹ کو عزت دینے کے خیالات رکھنے والے کی طرف سے گالیوں کی یلغار کا نشانہ خواجہ آصف ہیں۔ سنا جارہا ہے کہ انہوں نے خواجہ آصف پر ان کے بھولے بھالے والد کو ورغلانے کا الزام بھی لگایا ہے۔ خواجہ آصف صفائیاں دیتے رہ گئے کہ جس بند کمرے کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا اس میں صرف بڑے میاں صاحب ہی مخاطب تھے اور اس بات پر حلف بھی لیا گیا کہ اس بند کمرے کے اجلاس کی کارروائی کا ذکر باہر نہ کیا جائے۔ خواجہ صاحب نے شدید تنقید کے بعد نہ صرف ن لیگ کا واٹس ایپ گروپ چھوڑ دیا بلکہ ساتھ ہی یہ قسم بھی کھا لی کہ اس ترمیم پر کسی صورت میاں صاحب کو غلط گائیڈ نہیں کیا گیا اور انہوں نے خود ہی یہ فیصلہ کیا کہ جنگل میں رہتے ہوئے شیر سے دشمنی نہیں مول لی جاسکتی۔ یوں انہوں نے اپنے بھائی کی دیرینہ خواہش کو پورا کیا۔ سنا جارہا ہے کہ چھوٹے بھائی ابھی سے وزیرِاعظم کی شیروانی سلوا بیٹھے ہیں اور ہر ملنے والے سے 'اگلی باری میری' کہتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔
سنا جارہا ہے کہ مریم نواز نے اپنا نمبر بھی تبدیل کرلیا ہے اور وہ آج کل کسی سے بھی رابطہ رکھنے کے حق میں نہیں ہیں۔ سویلین بالادستی کی روح کےلیے نئے جسم کی تلاش کرنے والے روزانہ ان کے ٹویٹر پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ کہیں کوئی ٹویٹ کوئی خبر آئی ہو۔ مگر وہاں تو چپ نے جیسے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ سنا جارہا ہے کہ چند روز پہلے انہوں نے رانا ثنا اللہ کو ان کی زوجہ سمیت کھانے کی دعوت دی جس کے دوران بھی یہی بات زیرِ غور رہی کہ لندن کے مے فیئر فلیٹس پہنچتے ہی میاں صاحب کی جی ٹی روڈ والی سوچ کہاں چلی گئی۔ ذرائع کے مطابق ڈنر کے دوران مریم نواز کی جانب سے میاں صاحب پر مکمل یقین کا اظہار کیا گیا کہ جو فیصلہ انہوں نے کیا ہوگا یقیناً سوچ سمجھ کر کیا ہوگا۔

سنا جارہا ہے کہ ترمیم کے معاملے پر خواجہ سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی بھی اپنی قیادت سے شدید نالاں ہیں۔ ان کی جانب سے قیادت کو یہ احساس دلانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ اگر آپ نے یوں ہی بیچ چوراہے آکر کارکنوں اور ساتھیوں کو تنہا چھوڑ کر باہر ہی نکلنا ہوتا ہے تو شروع میں ہی ان کو آگاہ کردیا کریں تاکہ وہ لوگ سوچ سمجھ کر اپنی ناؤ جلا کر جزیرے پر اتریں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ نے یونہی ڈیل کرنی تھی اور یونہی نظریات کے تحفظ پر کاروبار کے تحفظ کو فوقیت دینی تھی تو ہم نے تمام تر مشکلات اور صعوبتیں کیوں برداشت کیں اور اس ریلیف میں ہمارا حصہ کہاں ہے؟

سنا جارہا ہے کہ ماضی کے دشمن پھر دوست بننے والے ہیں۔ جہاں کبھی غصہ، تناؤ اور رنجش رہا کرتی تھی اب امن، رضامندی اور میل ملاپ ہے۔ کچھ ایسا ہی ہمیں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے نظر آئے گا، جب مریم نواز کی ای سی ایل میں نام ڈالنے کے فیصلے کے خلاف اپیل لگے گی اور ہوسکتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں باہر جانے کا پروانہ تھما دیا جائے۔ دوسری طرف سنا جارہا ہے کہ کپتان گورننس کے بعد احتساب کے معاملے پر بھی ہاتھ کھڑے کرچکے ہیں۔ ان کا یہ اقرار غور طلب ہے کہ چونکہ ان کا نعرہ احتساب کا تھا لہٰذا نیب کی حالیہ اصلاحات ان کےلیے کافی مشکل اور تکلیف دہ تھیں۔ سنا جارہا ہے کہ وہ لوگ جن کو لگتا تھا کہ کپتان کچھ بھی کرلیں احتساب کے معاملے پر یو ٹرن نہیں لیں گے، ان سادہ الفاظ میں کیے گئے اقرار پر کافی نالاں اور پریشان ہیں۔

سنا جارہا ہے کہ سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے کےلیے ہی نیب میں مزید اصلاحات کی راہ ہموار کی جارہی ہے، جس کا اندازہ آپ کو حکومت میں شامل کچھ مخصوص نظریات کے لوگوں کے خطابات سے ہورہا ہوگا۔ ان ترامیم کے بعد نیب محض احتساب برائے نام کا منظر پیش کرے گا اور سنا جارہا ہے کہ سیاسی وعدوں پر جان نچھاور کرنے والی قوم کے ساتھ ایک بار پھر بھونڈا مذاق ہوگا۔

سنا جارہا ہے...۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں