مذاکراتی عمل سبوتاژ

تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر حکیم اﷲ محسود کو گزشتہ جمعے میزائل حملے میں ہلاک کرکے امریکا نے...


MJ Gohar November 10, 2013
[email protected]

ISLAMABAD: تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر حکیم اﷲ محسود کو گزشتہ جمعے میزائل حملے میں ہلاک کرکے امریکا نے پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسے نواز حکومت کا طالبان سے مذاکرات کرنے کا اقدام پسند نہیں، نہ ہی مذاکرات کی کامیابی و ناکامی سے اسے کوئی غرض اور سروکار ہے، وہ محض اپنے اہداف پر نظر رکھے ہوئے ہے اور موقع ملنے پر ہر صورت اسے نشانہ بنائے گا۔ اور ہوا بھی یہی کہ حکیم اﷲ محسود جمعے کے دن اپنے اہم کمانڈروں کے ساتھ حکومت سے مذاکرات کے حوالے سے مشاورت کررہا تھا کہ امریکی ڈرون حملے میں ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ٹی ٹی پی کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس سے قبل بھی تحریک طالبان کے اہم کمانڈر امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں، امریکا نے سب سے پہلے 18 جون 2004 کو پہلے ڈرون حملے میں طالبان کمانڈر نیک محمد کوہلاک کیا جو پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مفاہمت پر آمادہ تھا اور اس ضمن میں فریقین کے درمیان شکئی معاہدہ بھی ہوا تھا لیکن امریکا نے اپنے روایتی جارحانہ عزائم کے تحت نیک محمد کو ہلاک کرکے امن عمل کو سبوتاژ کردیا۔

تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اﷲ محسود کو جنوبی وزیرستان کے علاقے زنگر میں 6 اگست 2009 کو امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ طالبان کے ایک رہنما قاری حسین بھی ڈرون حملے میں مارے گئے، انھیں 7 اکتوبر 2010 کو نشانہ بنایا گیا، بعد ازاں طالبان کمانڈر مولوی نذیر بھی 2 جنوری 2011 کو امریکی ڈرون کا شکار ہوگئے۔ سب سے اہم ہلاکت طالبان کمانڈر ولی الرحمن کی تھی جنھیں 29 مئی 2013 کو میران شاہ کے علاقے میں ڈرون کا نشانہ بنایا گیا اور اب ایک ایسے وقت میں ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اﷲ محسود کو امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا جب وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشاورت کررہے تھے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بقول ''حکیم اﷲ محسود کا قتل امن کوششوں کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ ڈرون حملے میں ان کی ہلاکت سے مذاکراتی عمل کو سخت دھچکا لگا ہے، امریکا کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی۔''

تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا عمل ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کی مشاورت سے شروع کیا جارہا تھا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 11 مئی 2013 کے انتخابات سے قبل اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی ملک میں قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے سب سے بڑے حامی چلے آرہے ہیں۔ دونوں شخصیات کا موقف رہا ہے کہ طاقت (فوجی آپریشن) کے بجائے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جاسکتا ہے۔ ستمبر کے مہینے میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی تمام قابل سیاسی قوتوں اور عسکری قیادت نے بھی شرکت کی اور حکومت کو سب نے اتفاق رائے سے طالبان سے مذاکرات کرنے کا اختیار دے دیا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو طالبان سے مذاکرات کا ہوم ورک مکمل کرنے کا اہم ٹاسک دیا۔ جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران بعد ازاں امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات میں بھی ڈرون حملوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اندرون و بیرون وطن بعض تجزیہ نگار اور مبصرین طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کرتے رہے تاہم نواز حکومت نے ہر قسم کی تنقید کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کا فریم ورک تیار کرلیا اور ایک دو روز میں ایک وفد طالبان کے پاس مذاکرات کی باضابطہ دعوت لے کر جانے والا تھا کہ امریکا نے ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود کو ہلاک کرکے امن کی کوششوں اور مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کردیا۔

بہت سے سیاسی رہنما یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب بھی پاکستان کے طالبان سے مذاکرات کی بات چلتی ہے امریکا اس کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا ہے اور جو بھی طالبان رہنما پاکستان سے مذاکرات کے لیے راضی ہوتا ہے امریکا اسے مار دیتا ہے۔حکیم اﷲ مسعود بھی پاکستان سے مذاکرات کے لیے تیار ہو چکا تھا لہذا اس سے قبل کہ وہ پاکستان سے مذاکرات کے لیے بات چیت شروع کرتا امریکا نے اسے ڈرون حملے میں مار ڈالا۔اس طرح پاکستان کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔پاکستانی حکومت کو امریکا کی اس چال کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

یہ بات اب طے سمجھی جانی چاہیے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل ٹی ٹی پی کی نئی قیادت کے چنائو تک مکمل ہوچکا ہے، شنید یہ ہے کہ حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کی بعد نئے سربراہ کے فیصلے میں ٹی ٹی پی کے اندر سخت رسہ کشی اور کشمکش شروع ہوئی،اگرچہ انھوں نے مولوی فضل اﷲ کو اپنا نیا سربراہ مقرر کر لیا ہے جو محسود قبیلے سے باہر سوات سے تعلق رکھتے ہیں لہذا نئے سربراہ کے انتخاب کے دوران ہونے والی محسود اور دیگر قبائل کے درمیان رسہ کشی سے تحریک طالبان کے اندر دھڑے بندی ہوسکتی ہے اور ٹی ٹی پی کے بطن سے نئے گروپ جنم لے سکتے ہیں۔ نئے سربراہ مولوی فضل اﷲ نے پاکستان کے بارے میں سخت موقف اختیار کیا اور مذاکرات نے کرنے کا واضح اعلان کیا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کو حالات کا جائزہ لینا ہوگا اور تحریک طالبان کی نئی قیادت کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے پر نئے سرے سے حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی، جس کے لیے یقیناً کافی وقت درکار ہوگا کیونکہ تحریک طالبان کے ترجمان اعظم طارق نے واضح طورپر کہہ دیا ہے کہ ڈرون حملوں پر امریکا کے ساتھ منافقانہ اور دوغلی پالیسی رکھنے والی حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

گویا ڈرون حملوں کے حوالے سے جو بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ یہ حملے حکومتی ایما اور رضامندی سے ہورہے ہیں اور اکابرین حکومت حملوں پر جو واویلا کرتے ہیں وہ محض دکھاوا ہے اور اب طالبان بھی حکومتی رویے اور پالیسی کو سمجھنے لگے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ تحریک طالبان کی نئی قیادت امریکی ڈرون حملوں کی مکمل بندش کی شرط تسلیم کیے جانے تک حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہ ہو اور یہ شرط امریکا کو ہرگز قبول نہ ہوگی جس سے حکومت کے لیے سخت مشکلات پیدا ہوسکتی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کے بقول امریکا نے شرط رکھی تھی کہ ٹی ٹی پر حملے نہیں کریں گے لیکن جب حکیم اﷲ محسود سامنے آیا تو اسے مار دیںگے، جب کہ ہمارا موقف تھا کہ حملے ہوئے تو مذاکرات کیسے چلیںگے، یہ شرط منظور نہیں لیکن پوری دنیا نے دیکھا کہ جونہی حکیم اﷲ محسود امریکی نشانے پر آیا اسے اڑا دیا گیا۔

یہ حملہ حکومت طالبان مذاکرات پر امریکا کی ناراضگی کا برملا اظہار ہے۔ ملک بھر کے سیاسی، صحافتی، مذہبی، سماجی اور عوامی حلقوں میں امریکا کے جارحانہ عزائم اور پاک سرزمین پر ڈرون حملوں کے خلاف شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ حکومت ڈرون گرانے اور نیٹو سپلائی بند کرنے کے اقدامات اٹھائے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہاہے کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو بچانے کے لیے پوری قوم متحد ہوجائے۔ امریکا نے امن عمل کو سبوتاژ کردیا ہے، انھوں نے کہاکہ ہماری خیبر پختونخوا کی حکومت جاتی ہے تو جائے ہم نیٹو سپلائی بند کرکے دکھائیںگے۔ اس حوالے سے جلد تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیںگے اور قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے قراردادیں پاس کروائی جائیںگی۔ بعض مبصرین و تجزیہ نگار عمران خان کے موقف کو جذباتی اور انتہائی قدم قرار دے رہے ہیں جس کے نقصانات کا شاید عمران خان کو اندازہ نہیں ہے۔ بہرحال طالبان سے مذاکراتی عمل سبوتاژ اور حکومتی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں