’’اخلاقیات اور ہم‘‘
یہ ذہنی رویہ بھی دین کی اس تعلیم سے رُوگردانی ہے کہ کسی پر اتہام لگانا گناہ ہے۔
ترکی کے حالیہ سفر کا ذکر تو گزشتہ کالم کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گیا مگر اس کی یادیں اور دورانِ سفر اُٹھے ہوئے سوالات کچھ ایسے ہیں کہ جن پر وقتاً فوقتاً بات ہوتی رہے گی۔
سو آج کا موضوع یعنی ''اخلاقیات اور ہم'' بھی اس سلسلے کی کڑی تصور کرنا چاہیے کہ اگر یہ اس سوال یا موضوع پر آج کل ہر جگہ ہو رہی ہے مگر اس ضمن میں ترک معاشرے کا عمومی روّیہ اور ردّعمل توجہ طلب بھی ہے اور سبق آموز بھی۔
ساری ا سلامی دنیا کی طرح اگرچہ ترکی گزشتہ دو سو برس میں چھوٹے بڑے کئی انقلابات سے گزرا ہے جن کے باعث اُس کے معاشرے میں بھی اختلاف رائے کے ضمن میں بعض ایسے معاشرتی رویوں نے جنم لیا ہے جن کا تعلق اخلاقیات اور اس سے وابستہ کچھ اور ایسے معاملات سے ہے جن میں دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے کج بحثی اور تہذیبی یا بلند آہنگی سے دیا جاتا ہے البتہ اُن کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ وہ کسی استعماری قوت کی براہ راست غلامی سے محفوظ رہے ہیں اور یوں اُن کے یہاں اُس غلامانہ ذہنیت، جہالت اور مذہبی تنگ نظری کی وہ فضا کم کم ہے جس کا مظاہرہ دیگر ممالک کے مسلمانوں اور بالخصوص برِصغیر کے ماحول میں عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے ۔
ترکی میں قیام کے آخری روز ڈاکٹر اے بی اشر ف کے گھر پر عشا یے کے دوران اس موضوع پر اُن سے اور بھائی غالب گردیزی سے خاصی گفتگو رہی جس کی ایک وجہ شائد یہ بھی تھی کہ تقریباً ایک ہفتے کے بعد پہلی بار پاکستانی ٹی وی چینلز اور اُن پر جاری بحثوں اور خبروں کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ HARD TALK ٹائپ کے پروگرام نہ صرف اِکا دُکا ہوا کرتے تھے بلکہ اُن میں روا رکھی جانے والی جارحیت، تنقید اور لہجوں کی تیزی بھی ایک خاص حد سے زیادہ تجاوز نہیں کرتی تھی۔ سوالات براہِ راست اور تند و تیز تو ہوتے تھے مگر اُن کا مقصد مخاطب کی ذات یا اُس کے خیالات کی توہین اور استہزا نہیں ہوتا تھا یعنی بات چیت میں اُس بنیادی اخلاقیات کو ملحوظ رکھا جاتا تھا جس میں ہر شخص کی عزِت نفس، آزادی رائے اور انسانی حقوق کی حفاظت کی جاتی ہو۔
دوسرے کی space میں دراندازی تو کی جاتی تھی مگر اُس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاتا تھا جب کہ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ باقاعدہ اور براہ راست گالی گلوچ، دھینگا مشتی اور دھمکیوں کو بھی ایک عام سی بات سمجھا جاتا ہے۔ کسی کی بات کو سمجھنا تو دور کی بات ہے، کوئی اسے سننے پر بھی تیار نہیں ہوتا، اور پروگراموں کو اینکر بات کو آگے بڑھانے اور بحث کو نتیجہ خیز بنانے کے بجائے جان بوجھ کر اسے مُرغوں کی لڑائی کا منظر بنا دیتے ہیں۔ نظریاتی گروہ بندی سیاسی سے زیادہ جماعتی وفاداری اور کسی پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق واقعات کو غلط شکل میں پیش کرنے کا یہ رویہ اگرچہ اب ساری دنیا میں عام ہوتا جا رہا ہے مگر جو بد تمیزی ہمارے معاشروں میں جڑ پکڑتی جا رہی ہے اُس کی مقدار روز افزوں اور معیار مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران برادرم سلیم صافی نے گھما پھرا کر کئی بار مجھ سے اس کے بارے میں سوالات کیے جن کا جواب میں نے عمومی جہالت، سیاسی شعور اور تربیت کی کمی، برصغیر کے مسلمانوں کے چار سو سالہ ذہنی اور فکری جمود اور انگریز کی ڈیڑھ سو سالہ براہ راست غلامی کے اثرات سے جوڑ کر دینے کی کوشش کی مگر اس کے ایک اہم پہلو پر کھل کر بات نہ ہو سکی اور وہ یہ کہ ہمارے یہاں مذہبی تعلیم کو اخلاقی تربیت سے علیحدہ کر کے ایک ایسی شکل دے دی گئی ہے جہاں عقائد کو تنگ نظری اور فرقہ بندی کی دیوار میں اس طرح سے چُن دیا جاتا ہے کہ منطق، انصاف اور انسانیت کی ہوا تک اُس کے قریب سے بھی نہ گزر سکے۔
اتفاق سے آج جاوید احمد غامدی صاحب کے ایک تازہ پروگرام کا کچھ حصہ فیس بک پر دیکھنے اور سننے میں آیا تو اس احساس کو مزید تقویت ملی کہ اس موضوع پر ہم سب کو کھل کر اور ایمانداری سے بات کرنی چاہیے کہ یہ مسئلہ کسی فردِ واحد، خاص جماعت، فرقے یا معاشی گروہ کا نہیں بلکہ ہم سب کا اور ہماری آنے والی نسلوں کا ہے کہ اخلاقیات کی یہ دُوری دین اور دنیا دونوں میں یکساں طور پر خوار کرنے والی ہے۔ بلاشبہ تعلیم، معاشرتی تربیت اور اعلیٰ اخلاق کی پاسداری اور فروغ سے ہم اچھے انسانوں کی تعداد میں تھوڑا بہت اضافہ کر سکتے ہیں لیکن اگر انھیں مذہب کی روح اور تعلیمات سے جوڑ کر نئی نسل تک پہنچایا جائے تو نہ صرف اس کی اخلاقیات کی عمومی سطح بہتر ہو گی بلکہ اُس کو دین کا بھی وہ تعمیری شعور بھی حاصل ہو گا جو ساری خلقِ خدا بھی مشترک ہے اور جس کی وساطت سے ہمارے بچے یہ بات بھی جان سکیں گے کہ ایک اچھا انسان بننا ایک اچھا مسلمان بننے کے لیے کس قدر ضروری اور ناگزیر ہے۔
اس بد تمیزی اور بد تہذیبی کا ایک سائیڈ ایفیکٹ یہ بھی ہے کہ ہم پوائنٹ اسکور کرنے، دوسرے کو نیچا دکھانے، کسی کا مذاق اُڑانے یا اپنی دانشورانہ برتری دکھانے کے لیے کوئی رائے یا فیصلہ دینے سے پہلے یہ زحمت بھی نہیں کرتے کہ متذکرہ شخص یا کسی دوسرے متعلقہ شخص یا ادارے سے اُس خبر کی تصدیق ہی کر لیں۔ حالانکہ اس ضمن میں جتنی آسانی، وسعت اور تیز رفتاری اب سے پہلے شائد پہلے کبھی بھی نہیں تھی اس طرح کے غیر ذمے دارانہ رویے سے کچھ دیر کے لیے آپ کسی شخص کو نشانہ، تضحیک یا ہدفِ دشنام تو بنا سکتے ہیں۔ لیکن جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے کے مصداق جلد یا بدیر اصل بات لوگوں کے سامنے آ جاتی ہے۔
یوں معاملہ تو صاف ہو جاتا ہے لیکن اس اثناء میں متذکرہ شخص، اُس کے لواحقین یا عزت اور محبت کرنے والوں کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ کسی شمار میں ہی نہیں آتی۔ اب دیکھا جائے تو یہ ذہنی رویہ بھی دین کی اس تعلیم سے رُوگردانی ہے کہ کسی پر اتہام لگانا گناہ ہے اور یہ کہ جو چیز تم اپنے لیے پسند نہیںکرتے وہ دوسروں کے لیے بھی پسند نہ کرو۔ بنیادی انسانی اخلاقیات سے یہ روگردانی بالآخر ایسے معاشروں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے جہاں ایک ایسا قانون رائج ہو جاتا ہے جسے جنگل کے جانور بھی اپنے لیے پسند نہیں کرتے اور ہمیں تو رب کریم نے اپنی تمام مخلوقات میں اول اور احسن کا درجہ دیا ہے۔