حکومت کو چلنے دیں
اسمبلی میں موجود اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین کی اکثریت جمہوریت پسند ہے اور جمہوریت کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔
لاہور جو کبھی سیاست کا مرکز ہوا کرتا تھا اور جہاں قومی سیاست کے فیصلے ہوا کرتے تھے یہاں کی سیاسی محفلیں سیاست کی جان تھیں ۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کا نکلسن روڈ پرڈیرہ اپوزیشن کی سیاست کے لیے تریاق کا کام کرتا تھا۔
سیاست کے شوقین اورنواب صاحب کے مداح ان کے در پر حاضری دیتے تھے جہاں پر دنیا جہاں کی سیاست پر بحثیں ہوتی تھیں اور سیاست کے طالبعلم ان سے اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ لیکن پھرلاہور کو کسی کی نظر لگ گئی اور سیاست زندہ دلان لاہور کے شہریوں سے بابوؤں کے شہر اسلام آباد منتقل ہوگئی، وہی اسلام آباد جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اسلام آباد یا تو نئے شادی شدہ جوڑوں کے لیے موزوں ہے یا پھر قریب المرگ بزرگوں کے لیے کہ اس شہر میں سکون ہی سکون ہے لیکن یہ مثل شاید اب پرانی ہو گئی ہے کیونکہ سیاستدانوں نے ہمارے لاہور کو ویران کر کے اسلام آباد میں سیاست کو آباد کر دیا ہے اور اسلام آباد کی رونقیں سیاست کے دم قدم سے آباد ہو گئی ہیں۔
لاہور میں چند ایک ایسی جگہیں ابھی باقی ہیں جہاں پر اسلام آباد سے بیزار لوگوں کا ہجوم رہتا ہے اور وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق سیاست پر بحث کرتے دکھائی دیتے ہیں انھی میں سے ایک ہمارا جم خانہ کلب ہے جہاں پر سہ پہر کو محفل جمتی ہے جس میں سیاستدانوں کے ساتھ کاروباری لوگ بھی شریک ہوتے ہیں ۔اس محفل میں کبھی کبھار جانا ہوتا ہے، جم خانہ کمیٹی ممبران کے چناؤ کے لیے تین سال کے بعد الیکشن ہونے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے کلب میں گہما گہمی بڑھ گئی ہے اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگ اپنی اپنی محفل سجائے نظر آتے ہیں۔ انھی محفلوں میں جم خانہ کے الیکشن کے علاوہ ملکی سیاست بھی زیر بحث رہتی ہے ۔
اکثر لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کا مستقبل مخدوش ہے حکومت زیادہ دیرنہیں چلے گی ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ماضی میں کئی اسمبلیاں اپنی کچی جوانی میں ہی وفات پا تی رہی ہیں ۔ کبھی صدر مملکت نے اور کبھی کسی فوجی سربراہ نے ان اسمبلیوں کو رخصت کیا ۔ اگر کسی کی غلطی تھی بھی وہ وزیر اعظم کی تھی لیکن آئینی ضابطہ ایسا تھا کہ حکومت کے ساتھ اسمبلی بھی رخصت ہو جاتی تھی ۔لیکن آئین میں بے تحاشہ ترامیم میں سے جمہوریت کے لیے ایک ترمیم یہ بھی ہوئی کہ صدر مملکت کا اسمبلی رخصت کرنے کا اختیار ختم کر دیا گیا ۔ اس لیے اب یہ کہا جاتا ہے کہ کسی کو جانا ہے تو جائے اسمبلی کیوں جائے ۔ خیر یہ تو وقت آنے پر ہی معلوم ہو گا کہ کون جاتا ہے اور کون رہتا ہے اور رہتا ہے تو کس صورت میں لیکن اس وقت اسمبلی کی پیچیدہ ساخت کو سامنے رکھ کر اندیشوں کا اظہار کیا جارہا ہے ۔
اس پیچیدگی کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی اسمبلی میں عددی اکثریت ہے، حکومت قائم رکھنے کے لیے کم از کم 172 حامی ارکان کی سادہ اکثریت مطلوب ہوتی ہے، موجودہ حکومت قائم ہوتے وقت اس عددی اکثریت سے چند ووٹ ہی زیادہ تھے حالانکہ اس کے لیے الیکشن سے پہلے ہی کوششیں شروع کر دی گئی تھیں اور سرکاری ایجنسیاں اور حکام اس میں دن رات مصروف رہے لیکن ان لوگوں کی کار کردگی صفر ثابت ہوتی اگر سیاستدان چوہدری صاحبان، ایم کیو ایم کے بچے کچھے ارکان اور بلوچستان کے منتخب لائنس کے ارکان کے علاوہ پیر صاحب پگاڑا شریف کی آشیر بادحکومت کو حاصل نہ ہوتی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی حکومت کو قائم کرنے میں ان سب سیاستدانوں کی قربانیوں کا ثمر ہے خواہ یہ حکومت چند ووٹوں کی اکثریت سے ہی وجود میں آئی۔
اسمبلی کے اندر تین بڑے گروپ ہیں باقی چھوٹے چھوٹے یا ایک ایک ۔ پیپلز پارٹی ،نواز لیگ اورمولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام نے حکومت بنانے میں ساتھ نہیں دیا ۔لیکن چوہدری شجاعت کی فہم وفراست اور پرویز الٰہی نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جہاں پر پنجاب میں تحریک انصاف کا ساتھ دیا وہیں پر مرکز میں جی ڈی اے اور ایم کیو ایم نے حکومت کو عددی اکثریت فراہم کر کے عمران خان کو وزیر اعظم بنا دیا۔ یعنی ایک ایک اینٹ جمع کر کے یہ عمارت تعمیر کی گئی ہے جو کئی لوگوں کے خیال میں ریت کی ہے کیونکہ چند ووٹوں کی اکثریت نہ ہونے کے برابر ہے اور چند اینٹیں کھسک جانے سے یہ ساری عمارت دھڑام سے گر سکتی ہے۔
اسمبلی کے وجود کے لیے جس خطرے کی نشاندہی کی جارہی ہے اس کی وجہ حکومتی پارٹی کی یہی عددی کمزوری ہے دوسری طرف اپوزیشن ہے جس میں فی الوقت کوئی جان نظر نہیں آرہی لیکن ایم کیو ایم کے وزیر نے استعفیٰ دے کرپہلا پتھر پھینک کر حکومتی ایوانوں میں ہل چل مچا دی ہے ۔ چوہدری صاحبان بھی حکومت کی حمائیت اور تائید تو کرتے ہیں لیکن ان کے بھی تحفظات ہیں اور یہ تحفظات اسی صورت میں دور ہو سکتے ہیں کہ چوہدریوں کی سیاست کے جانشین برخوردار مونس الٰہی کو وزیر بنا دیا جائے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کے وارث میاں نواز شریف اور شہباز شریف لندن میں مقیم ہیں شہباز شریف لندن میں بیٹھ کر بھی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ ملک کے اندر مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے حکومت خاص و عام کی جانب سے کڑی تنقید کی زد میں ہے اور مسلسل پریشان ہے جس کی وجہ سے وہ دلجمعی سے کام نہیں کر پا رہی ۔
اسمبلی میں موجود اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین کی اکثریت جمہوریت پسند ہے اور جمہوریت کو دل سے تسلیم کرتے ہیں حکومتی پالیسیوں پر تنقید اپنی جگہ لیکن اپوزیشن کسی ایسی صورتحال کے لیے بالکل تیار نظر نہیں آتی اور ایسی صورتحال ہرگز پیدا نہیں کرنا چاہتی جو اسمبلی کے وجود اور جمہوریت کے لیے خطرہ بن جائے اور جمہوریت کی بساط ہی لپٹ جائے۔ ایک تو ہر رکن کا پہلا ذاتی مفاد اسمبلی کی بقا سے وابستہ ہے دوسرے جب تک اپوزیشن کو یہ یقین نہ ہوگا کہ وہ اپنی حکومت قائم کر سکتی ہے تب تک ایسا کوئی اندیشہ نہیں کہ اسمبلی کو چلنے نہ دیا جائے ۔
اس لیے اپوزیشن کی پوری کوشش ہے کہ اسمبلی کا کارواں چلتا رہے اور ان کا روزگار بھی سلامت رہے ۔ اگر ٹھنڈے دل سے سوچا جائے اور حالات کا تجزیہ کیا جائے تو موجودہ اسمبلی اور حکومت کو اپنا آئینی وقت مکمل کرنے دینا چاہیے جیسے اس سے پہلے کی دو اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت مکمل کی ہے ۔ ضرورت صبر و تحمل اور جمہوری رویہ اختیار کرنے کی ہے، اگر ہمارے سیاستدانوں نے صبر وتحمل سے اپنی باری کا انتظارکیا تو یہ اسمبلی ایک پائیدار اسمبلی ثابت ہو گی اور شاید پاکستان بھی یہ ثابت کر سکے کہ اس کے ہاں بھی پختہ کارجمہوری ملکوں کی طرح صرف چند ووٹوں کی اکثریت سے بھی حکومت چل سکتی ہے۔ فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ آیندہ انتخابات میں کس پارٹی کو منتخب کرتے ہیں ۔