اسلاموفوبیا… منفرد تحقیق

’’اسلاموفوبیا‘‘ کی اصطلاح آج کے میڈیا اور عالمی سیاسی منظر نامے میں تواتر سے استعمال ہو رہی ہے۔


سرور منیر راؤ January 19, 2020

''اسلاموفوبیا'' کی اصطلاح آج کے میڈیا اور عالمی سیاسی منظر نامے میں تواتر سے استعمال ہو رہی ہے۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس پر بات تو کئی دھائیوں سے ہو رہی ہے لیکن اس اصطلاح کو سمجھنے کی کوشش بہت کم کی گئی ہے۔ اسلاموفوبیا کے الفاظ کو مسلمان، عیسائی اور یہودی مذاہب کو ماننے والوں کے علاوہ اشتراکیت اور سیکولرزم کے پیروکار بھی اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

اسلاموفوبیا کے حوالے سے جو بھی لٹریچر موجود ہے، اس کی اب تک نہ تو کوئی سائنسی توجہیہ سامنے آئی ہے اور نہ ہی تحقیقی تھیوریوں پر وہ مواد پوری طرح معیاری ثابت ہوا ہے۔ اس اصطلاح کو محض اسلام اور مسلمان کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ ابلاغیات کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال نے ''اسلاموفوبیا'' کے عنوان سے 336 صفات پر مشتمل ایک تحقیقی کتاب لکھ کر اس اصطلاح کی تاریخ توجیہات اور اثرات کا جو تجزیہ پیش کیا ہے، وہ اپنی جگہ تو کمال ہے ہی لیکن انھوں نے اس اصطلاح کے پس منظر اور حقائق پر انگریزی زبان میں تحقیقی مقالہ لکھ کر عالم اسلام کے لیے بھی ایک تاریخی کام سرانجام دیا ہے۔ پروفیسر صاحب نے اس کتاب کے ذریعے دراصل مغربی فلاسفروں، دانشوروں اور محققین کو ایک ایسا جواب دیا ہے جو اس حوالے سے تاریخ کے دھارے کو موڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ اسلاموفوبیا کی اصطلاح تصوراتی طور پر تو طویل عرصے سے مغرب کے ذہن میں موجود تھی لیکن اسے دستاویزی شکل نومبر 1997میں ''Islamophobia:A Challenge for us'' کے عنوان سے لکھی گئی ایک رپورٹ میں بیان کیا گیا۔ اس سے پہلے ممتاز اسکالر اور محقق ایڈورڈ سعید(Eward Said) نے بھی ایک کتاب لکھ کر مغرب اور مشرق کے مخاصمانہ تعلقات پر روشنی ڈالی۔

آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق یہ اصطلاح سب سے پہلے 1923 میں (Journal of theological studies) میں استعمال ہوئی۔ ان کے مطابق یہ اصطلاح مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بیک وقت تعصب خوف اور نسل پرستی کی علامت ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں کسی بھی قوم مذہب ثقافت اور تاریخ کو ایک دوسرے کے اثرات سے جدا کرنا آسان نہیں۔ مختلف طرز فکر اور مقاصد رکھنے والے دانشور اپنے طور پر خواہ کتنے بھی جدا فلسفہ اور نظریات کا پرچار کریں لیکن اس عالمی معاشرے میں وہ سولو فلائٹ نہیں کر سکتے۔ اسلاموفوبیا کی اصطلاح گھڑ کر وہ اپنے نظریات کی یکطرفہ ٹریفک نہیں چلا سکتے۔ آج کے جدید اطلاعاتی اور مواصلاتی نظام میں ہر سوچ فکر اور عمل کا رد عمل آتا ہے یہی وجہ ہے کہ مغربی دانشوروں اور فلاسفروں کو متصادم نظریات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب حقائق کھل کر سامنے آتے ہیں تو منظرنامہ تبدیل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال نے دس سال کی محنت کے بعد آٹھ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں اسلاموفوبیا کا تعارف، اس کے سماجی اور ثقافتی اثرات، مغربی تعصبات، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سیکیورٹی کے نام پر لگائی جانے والی پابندیاں اور تہذیبوں کے تصادم سے پیدا ہونے والی صورتحال کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں انھوں نے ایسے اقدامات تجویز کیے جن کو بروئے کار لا کر سائنسی بنیادوں پر اسلامو فوبیا کی اصطلاح کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے مغربی اسکالرز کے ماڈل کو چیلنج کرتے ہوئے ایسے انسٹرومنٹس بیان کیے ہیں جس سے تحقیق کے نئے راستے کھلتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی مفکرین اور دانشوروں کی اکثریت نے اسلاموفوبیا کی بنیاد پر عقل سے عاری پروپیگنڈا کیا ہے اس پروپیگنڈے کی بنیاد نہ صرف یہ کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب خوف اور نسل پرستی کو ہوا دینا ہے بلکہ ان کا یہ عمل عالم اسلام کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔

ڈاکٹر ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ تاریخی اعتبار سے مغربی ممالک نے اسلامی تعلیمات کی ترویج اور مسلمانوں کی آبادی کو بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں، یہ تاریخی تعصب کبھی تہذیبوں کے تصادم کے نام سے اور کبھی اسلاموفوبیا کے عنوان سے سامنے آ رہا ہے۔ مغربیت کے پیروکار مسلمانوں کو ایک سیکیورٹی رسک کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے اس خوف کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ تیرہویں صدی میں آسٹریا کے شہر ویانا میں ایک اجلاس ہوا تھا، اس میں بھی مسلمانوں سے یورپ اور مغربیت کو محفوظ بنانے کے لیے کئی اقدامات تجویز کیے گئے۔ اس کونسل نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ مسلمان مغربی ممالک میں اسلام کی تبلیغ نہ کر سکیں۔

تہذیبوں کے تصادم کی تھیوری پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں داخلے کے لیے مسلمانوں پر خصوصی ویزا پابندیاں عائد کرنا۔ انھیں وہاں کا شہری بنانے میں مشکلات ۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دینا، اسلامی شعائر کا مذاق اڑانا اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ مسلمان ممالک کو اقتصادی طور پر مشکلات میں الجھانا ان کے درمیان نفاق پیدا کرنا اور ملی عصبیت کی جگہ قومی اور علاقائیت کے جذبات کو ابھارنے کا عمل سب ہی کچھ اسی اسی سلسلیکا عملی اظہار ہے۔

ڈاکٹر ظفر اقبال نے اسلاموفوبیا کے حوالے سے جو مواد اس کتاب کے ذریعے صاحب علم و فکر افراد کے لیے مہیا کیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ قابل تحسین ہے بلکہ تحقیق کی دنیا میں ایک رول ماڈل ہے۔ پروفیسر صاحب کا یہ تاریخی کام دنیاوی معاملات میں احسن اقدام کے ساتھ ساتھ یقینی اعتبار سے ان کے لیے توشہ آخرت بھی ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔