منشیات کے خلاف جنگ وقت کی اہم ضرورت

حکومت منشیات کے خلاف اعلان جنگ کرے اور لوگوں میں اس حوالے سے شعور و آگہی پیدا کرنے کےلیے ملک گیر مہم چلائی جائے


منشیات کا استعمال کرنے والے ندی نالوں سے اعلیٰ درس گاہوں تک پہنچ چکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

یہ ان دنوں کی بات ہے جب لوگ سچے اور مکان کچے ہوتے تھے۔ 1979 میں حدود آرڈیننس کے نفاذ سے پہلے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آٹے اور چینی کے ڈپو کی طرح افیون کے ڈپو بھی تھے۔ لیکن کھلے عام ڈپوؤں پر اور سستی ملنے کے باوجود منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد دیہاتوں اور قصبوں میں انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی۔ شہروں کے اندر کسی کسی محلے میں شاذ ہی کوئی نشہ کرنے والا ہوتا تھا اور اسے بھی لوگ برداشت نہیں کرتے تھے۔ حکما اور وید جن مریضوں کو ایسی دوا دیتے تھے جن میں افیون شامل ہو، انھیں دودھ اور گھی کثرت سے استعمال کرنے کی تاکید کرتے تھے تاکہ اس کا کوئی منفی اثر نہ ہو۔

افغان وار سے جہاں ہمیں دیگر تحفے ملے، وہیں منشیات کا تحفہ بھی ملا۔ آج حالت یہ ہے کہ وطن عزیز میں منشیات کے عادی افراد کی مجموعی تعداد سات ملین کے قریب ہے۔ جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔ منشیات کا استعمال ہر سال ملک میں تقریباً ڈھائی لاکھ انسانوں کی جان لے لیتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے 55 فیصد اور دیگر صوبوں کے 45 فیصد افراد نشے کے عادی ہیں اور اس تعداد میں سالانہ 5 لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔ اپر کلاس لوگ آئس کرسٹل، حشیش، ہیروئن کے ساتھ مختلف ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ مڈل کلاس کے لوگ فارماسیوٹیکل ڈرگز، شراب، چرس، پان، گٹکا، نسوار اور سگریٹ وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کے باعث 70 ہزار سے زائد افراد نے اپنی جانیں قربان کیں لیکن ہر سال پاکستان میں اس سے تین گنا زیادہ ہلاکتیں منشیات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

منشیات کا زہر ہمارے معاشرے کے مستقبل کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ منشیات سے 13 سے 25 سال کے نوجوان لڑکے لڑکیاں متاثر ہورہے ہیں۔ پہلے پہل منشیات کا استعمال کرنے والے فلائی اوورز کے نیچے، ندی کے کناروں پر اور بعض علاقوں کے میدانوں میں پائے جاتے تھے، لیکن اب تو اعلیٰ درس گاہوں کے نوجوان بھی منشیات میں مبتلا ہورہے ہیں۔

گزشتہ دنوں نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں رانا ثنا اللہ کے معاملے پر گرما گرم بحث کے دوران میزبان نے اچانک شہریار آفریدی سے پوچھا کہ جناب آپ نے کہا تھا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود اسکولوں میں 75 فیصد طالبات اور 55 فیصد طلبا منشیات استعمال کرتے ہیں؟ ''جی ہاں'' آفریدی صاحب بولے۔ ''لیکن یہ آپ کی اور اے این ایف کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔'' اس پر آفریدی صاحب نے کہا یہ ہماری حکومت کا کریڈٹ ہے کہ ہم اس حساس موضوع کو قوم کے سامنے لے آکر آئے ہیں۔

جس وقت شہریار آفریدی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود اسکولوں میں 75 فیصد طالبات اور 55 فیصد طلبا منشیات استعمال کرتے ہیں، پی ٹی آئی سرکار کو مسند اقتدار پر براجمان ہوئے تھوڑے ہی دن گزرے تھے۔ اس وقت تک کےلیے تو یہ جواز کسی حد تک قابل قبول تھا، لیکن اب جب کہ پی ٹی آئی سرکار کو ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، اب تو آفریدی صاحب کو اس حوالے سے اپنی کارکردگی پیش کرنا چاہیے تھی کہ جب ہم اقتدار میں آئے اس وقت صورتحال یہ تھی اور اب ہماری دن رات کی کوششوں سے منشیات کے استعمال میں اتنی کمی آئی ہے۔ نہ کہ صرف مسئلہ سامنے لانے کو ہی کارکردگی بتایا جاتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت منشیات کے خلاف اعلان جنگ کرے۔ لوگوں میں اس حوالے سے شعور اور آگہی پیدا کرنے کےلیے ملک گیر مہم چلائی جائے۔ منشیات کے حوالے سے ''زیرو برداشت'' کی پالیسی کا اعلان کیا جائے۔ منشیات پر، اس کے استعمال کرنے والے پر، کروانے والے پر، بیچنے والے پر، خریدنے والے پر، اٹھانے والے پر، جس کی طرف اٹھا کر لے جائی جارہی ہو اس پر، تیار کروانے والے پر، جس کےلیے خریدی گئی اس پر اور اس کی قیمت کھانے والے پر، ہر ایک کےلیے قرآن اور حدیث میں جو سزائیں تجویز کی گئی ہیں، ان کی روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ ساری قوم تمام متعلقہ افراد پر ہر روز لعنت بھیجے، اور ہم سب اس جنگ میں حکومت کا ساتھ ایسے ہی دیں جیسے 1965 کی جنگ میں ساری قوم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔

بدقسمتی سے پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کےلیے مخصوص اسپتالوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور جو موجود ہیں وہاں سہولتیں ناکافی ہیں، جبکہ غیر سرکاری طور پر یہ علاج بہت مہنگا پیچیدہ اور طویل ہے۔ حکومت اور مخیر حضرات اس حوالے سے آگے آئیں اور اس علاج کو مفت یا کم ازکم سستا ضرور کیا جائے تاکہ جو لوگ تاریک راہوں سے واپس آنا چاہیں، ان کی واپسی ممکن ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں