حکمرانوں کے بدلتے پینترے

کبھی حکمران حزب اختلاف پر اربوں ڈالرکے ہڑپ کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور پھر نہ جانے کہاں سے گھنٹی بجتی ہے۔


Zuber Rehman January 22, 2020
[email protected]

پاکستان بھی برطانیہ کی طرح عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے۔ اب یہ برطانیہ مہذب اور ترقی یافتہ اس لیے کہلاتا ہے کہ دنیا بھر میں قتل وغارت گری کرکے مختلف خطوں سے دولت لوٹ کر ترقی یافتہ بن گیا ہے۔

اکثر ہم جب پاکستان کے حکمران طبقات کی لوٹ مارکی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یورپ کو دیکھو وہاں نہ غذائی ملاوٹ ہے، نہ بد تہذیبی ہے اور نہ کرپشن۔ یہ ایک حد تک اس لیے نہیں ہے کہ یورپ نے ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا پر ہلہ بول کر اور عوام کا قتل عام کرکے وہاں کی دولت کو سمیٹا اور اب تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ بن گئے ہیں، خیر ہم تو پاکستان کی بات کر رہے تھے۔

پاکستان بننے کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ویت نام کا دورہ کیا اور ویت نامیوں (سامراج مخالف) سے گندم دینے اور فوج بھیجنے کا وعدہ کر آئے۔ چھ ماہ بعد گندم تو بھیجی گئی لیکن گوریلوں کو نہیں بلکہ امریکی آلہ کار ویتنامیوں کو۔ ایران آئل ریفائنری کو امریکا نے امریکی کمپنی کے حوالے کرنے کی تجویز پر لیاقت علی خان کو انکارکر دیا۔ جب عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے مسلم لیگ صرف انیس نشستیں حاصل کر پائی جب کہ دو سو تئیس نشستیں جگتو فرنٹ یعنی متحدہ محاذ نے حاصل کیں۔ ان میں اسی فیصد نشستیں کمیونسٹ پارٹی نے حاصل کی تھیں۔ 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگا دی گئی۔

کمیونسٹ پارٹی کے تمام محاذوں پر جنرل ایوب خان نے مزید پابندی لگا دی۔ انیس سو ساٹھ میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما حسن ناصر ، 1980ء میں نذیر عباسی اور 1983ء میں ڈاکٹر تاج کو اذیت دے کر قتل کردیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی آمر نے پھانسی دے دی اور پھر بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا۔ 73 سال میں چھتیس سال پاکستان پر مارشل لا مسلط رہا، یعنی فوجی آمریت۔ جنرل یحییٰ خان کی صدارت میں اکثریتی آبادی علیحدہ ہوگئی اورمشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ ریاست کے جبر نے سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے دیگر طبقات کے مفادات کی حفاظت کے لیے عوام کو ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبورکردیا ہے۔ جب کہ حکمران طبقات کے دونوں دھڑوں حزب اختلاف اور حزب اقتدار، مقتدر اداروں کی کاسہ لیسی میں اپنے ہر موقف سے پھر جانے کا تہیہ کر لیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ اس ڈیڑھ سال میں لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا گیا اور مہنگائی میں بے پناہ اضافے سے پچاس فیصد عوام نیم فاقہ کشی میں مبتلا ہوگئے۔ جو کل ایک کلو دال خریدتے تھے، آج ایک پاؤ خریدنے پر مجبور ہیں۔ آٹا 70روپے کلو، تیل 270 روپے کلو، کھلا دودھ 110 روپے فی لیٹر اور چاول 100 سے 150 سو روپے کلو، سبزیاں اوسطاً 150تا 200 روپے فیکلو دستیاب ہیں۔ یہ مہنگائی غیر پیداواری اخراجات اور آئی ایم ایف سے قرضہ جات لینے کی وجہ سے ہے۔ مہنگائی قرض کے عوض عوام پر بالواسطہ ٹیکس مسلط کرنے سے بڑھی ہے، جب کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ 2020ء ترقی کا سال ہے۔

ٹھیک اسی طرح حزب اختلاف کی جماعتیں تقریباً مہنگائی اور بے روزگاری کی بات تو کرتی ہیں لیکن اس پر ڈیڑھ سال ہوگئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ دنوں کو چھوڑ دیں ایک گھنٹے کے لیے بھی مہنگائی کے خلاف ملک گیر ٹوکن ہڑتال بھی نہیں کی۔ حکمران جماعتوں میں گھونسلے بدلنے اور وزارتوں کے حصول کے لیے پریس کانفرنس تو سنتے ہی رہتے ہیں لیکن بھوک سے مرتے ہوئے لاعلاجی میں تڑپتے ہوئے لوگ، سیلاب میں بہتے ہوئے عوام اور بچوں کو کپڑے نہ ملنے پر خودکشی کرنے پر کوئی احتجاج یا ہڑتال نہیں کرتے ہیں، ہاں مگر استاد، نرسیں، معذور، لیڈی ہیلتھ ورکرز، ڈاکٹرز، گڈز ٹرانسپورٹرز، کلرک، مزدور کسان اور گیس ٹرانسپورٹرز احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات اپنے مطالبات منوا بھی لیتے ہیں لیکن عوام کے دکھوں میں بلکتے ہوئے یہ بوروژوا رہنما کبھی احتجاج کرتے ہوئے جیل جاتے ہیں اور نہ جیل کی روٹی کھاتے ہیں۔

یہ تو جیل میں بھی فائیو اسٹار ہوٹل کی عیاشی میں گزارتے ہیں۔ کبھی حکمران حزب اختلاف پر اربوں ڈالرکے ہڑپ کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور پھر نہ جانے کہاں سے گھنٹی بجتی ہے۔ جیسے کہ کوئی الزام تھا ہی نہیں۔کبھی ملک کا صدر اور وزیر اعظم بننے میں حزب اختلاف حکومت کا ساتھ دیتی ہے تو کبھی سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات میں اپنے ہی بندے نہ جانے کس کے کہنے پر اوروں کو ووٹ ڈال دیتے ہیں۔ حال ہی میں چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت کے مسئلے پر پی پی پی اور ایم ایل (ن) نفی میں ووٹ ڈالنے کے موقف پر ڈٹی رہیں۔ دونوں پارٹیوں کی مرکزی کمیٹیوں کے اہم ارکان، احسن اقبال اور فرحت اللہ بابر نے برملا انکشاف کیا کہ ہماری مرکزی کمیٹیوں نے نفی میں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا پھر اوپر سے حکم صادر ہوا کہ اثبات میں ووٹ ڈالنا ہے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن یہ سب بیانات اور انکشافات اسمبلی میں ووٹنگ کے بعد ہی ہوئے۔

سوائے چار چھوٹی پارٹیاں نو، نو کرتی رہیں۔ کامریڈ باکونن کہتے ہیں ''ریاست سرمایہ دارانہ ہو یا انقلابی ، چونکہ یہ جبرکا ادارہ ہے اور اس کے بغیرکسی بھی صورت ریاست کو چلایا ہی نہیں جاسکتا'' برٹرینڈرسل کہتے ہیں کہ ''انارکزم میں آزادی سب سے بڑی اچھائی ہے اور فرد پر جماعت کی تمام جبری اختیارکو مٹا کر اسی آزادی کی تلاش کی جاتی ہے۔ انارکزم جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ ایک اصول ہے جو ہر طرح کی جبری حکومت کے خلاف ہے۔ یہ حکومت کے خلاف ہے کیونکہ اسے جبر کا مجسمہ سمجھتی ہے۔'' انقلاب روس کے بعد پیترکروپوتکن نے کہا کہ ''انقلاب کے بعد اقتدار عوام کے حوالے کرنے کی بجائے کارکنان کے حوالے کرکے انقلاب کو دفنا دیا گیا۔'' اور یہ بات آج درست ثابت ہوئی۔

لہٰذا انقلاب کے بعد فوراً کمیونسٹ سماج کی جانب پیش قدمی کرنی ہے ورنہ سرمایہ دارانہ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کو بحال کر دے گا۔ یہی اس کا مقصد و منشا ہے۔ مگر آج دنیا میں لاطینی امریکا سے فرانس، اسپین اور مشرق وسطیٰ سے ہانگ کانگ تک بے جماعتی اور لیڈر لیس عوامی احتجاج عروج پر ہے۔ انارکو کمیونسٹوں کی رہنمائی میں فرانس میں ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا مسلسل سرمایہ داری کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ انھوں نے اب تک بارہ مطالبات منوائے ہیں۔ اسی طرح ہانگ کانگ کے عوام نے بھی چھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہوا آزادی کی تحریک جاری رکھی ہوئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں