کپتان کے وعدے قسمیں اور ارادے

پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے


وزیراعظم عمران خان نے اقتدار کے حصول کےلیے عوام کو سہانے خواب دکھائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انسانی فطرت ہے کہ وہ زندگی میں جو چیزیں اپناتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ اس کا عادی ہوجاتا ہے۔ انسان کی عادات بعض اوقات اسے فائدہ پہنچاتی ہیں تو کبھی کبھار نقصان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔ کیونکہ وہ روزمرہ زندگی میں اس قدر رچ بس جاتی ہیں کہ حالات کی تبدیلیوں کے باوجود چھوڑنے میں عار محسوس کرتا ہے۔

پی ٹی آئی قیادت کے بقول پاکستانیوں کو جن بری عادات کی لت لگ چکی ہے ان میں کرپشن سرفہرست ہے۔ وزیراعظم عمران خان کرپشن کے خلاف اعلان جہاد کرتے ہوئے 2018 کے انتخابی دنگل میں اترے اور عوام سے کرپٹ اشرافیہ کو چاروں شانے چت کرنے کا وعدہ کیا۔ پی ٹی آئی کا ویژن پاکستانی قوم کو کرپشن جیسی بری عادت سے نجات دلانا اور کرپشن کے ذریعے لوٹی گئی رقوم واپس لینا تھا۔ جو کہ تبھی ممکن ہوسکتا تھا جب کرپٹ عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کی جاتیں۔

وزیراعظم عمران خان نے قوم سے کیے گئے وعدوں سے اقتدار کے ایوان میں اپنے قدم تو جما لیے لیکن محض ڈیڑھ سال میں ہی پی ٹی آئی قیادت کی جادوئی پلاننگ کا عوام پر اثر پھیکا پڑنا شروع ہوچکا ہے۔ جن لٹیروں اور چوروں سے کرپشن کا پیسہ اگلوانے کے وعدوں پر اقتدار کا حصول ممکن ہوا، ان کو طبی بنیادوں پر بیرون ملک بھیج دیا گیا ہے۔ اقتدار کو بچانے کےلیے اتحادی جماعتوں کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔ کبھی (ق) لیگ کے اہم رہنماؤں کے خلاف دائر ریفرنس بند کیے جارہے تھے، تو کبھی بزنس کمیونٹی کو سازگار ماحول کی فراہمی کےلیے نیب قوانین میں ترمیم کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی توجہ کرپشن کے حوالے سے کیے جانے والے حکومتی دعوؤں سے کوسوں دور ہے۔

فرانسیسی کمپنی IPSOS کی جانب سے پاکستان میں کیے جانے والے گلوبل کنزیومر کانفیڈینس سروے کے نتائج میں پی ٹی آئی حکومت کے بیانیے کی تردید کی گئی ہے۔ پاکستان کے 120 سے زائد شہروں اور دیہاتوں میں 18 سال سے زائد عمر کے مرد و خواتین سے پوچھا گیا تھا کہ ان کے نزدیک سب سے زیادہ پریشان کن بات کیا ہے؟ جس کے جواب میں 29 فیصد عوام نے مہنگائی، 30 فیصد نے بے روزگاری جبکہ 11 فیصد صارفین نے ٹیکسوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو اپنی پریشانی بتایا۔ پاکستانی صارفین کی دیگر پریشانیوں میں بڑھتی ہوئی غربت اور بجلی کے نرخوں میں آئے روز ہونے والا اضافہ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان سارے اعدادوشمار کے مقابلے میں صرف دو فیصد صارفین نے کرپشن، اقربا پروری اور رشوت ستانی جیسے امور کو اپنی سب سے بڑی پریشانی قرار دیا۔

صارفین کا کہنا ہے کہ ایک سال پہلے وہ معاشی طور پر قدرے بہتر حالات میں تھے۔ تحفظ روزگار، قوت خرید، بچت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے اس سروے میں پاکستان کی معاشی صورتحال میں پچھلے چھ ماہ کے دوران ابتری کو نوٹ کیا گیا ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں گھر، گاڑی یا روزمرہ کی اشیاء خریدنے کے حوالے سے 90 فیصد پاکستانیوں کے اعتماد میں کمی آئی ہے۔ اسی طرح اس سال تحفظ روزگار اور مستقبل کےلیے سرمایہ کاری یا بچت کرنے کے حوالے سے 80 فیصد پاکستانیوں کے اعتماد میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ اس سروے میں حصہ لینے والے 40 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سال وہ یا ان کا کوئی جاننے والا معاشی صورتحال کے باعث بے روزگاری کا شکار ہے۔ فرانسیسی ادارے کی جانب سے کیے گئے حالیہ سروے کے نتائج نے ناصرف حکومتی حلقوں کی جانب سے ملکی معیشت کو پٹڑی پر ڈالنے اور بہتری کی جانب گامزن کرنے کے دعوؤں کی نفی کی ہے، بلکہ احتساب کے حوالے سے کیے گئے اقدامات پر بھی منفی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

اس میں قصور عوام کا ہی نہیں کیونکہ اقتدار کے حصول کےلیے ایسے سہانے خواب دکھائے گئے جن کی تعبیر عملی زندگی میں فی الحال ممکن نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے 2017 میں قوم کو نوکریاں اور گھر فراہم کرنے کا وعدہ کیا، جبکہ 2018 میں انڈوں اور مرغیوں سے ملکی معیشت کو استحکام میں لانے کی مہم چلائی گئی۔ سال 2019 میں بڑھتی مہنگائی پر عوام کو صبر کی تلقین کی جبکہ 2020 کے آغاز میں ہی پوری قوم کو واضح طور پر بتادیا کہ سکون صرف قبر ہے۔ کسی بھی ملک کے سربراہ کی جانب سے اپنی تقاریر میں ایسی گفتگو کرنا عوام میں غیریقینی کی صورتحال پیدا کرنے کےلیے کافی ہے۔ پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے دیا جانے والا ریلیف صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود ہے۔

وزیراعظم نے چند روز قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت کی کارکردگی کو سوشل میڈیا پر کوریج نہیں مل رہی۔ انہوں نے ہدایات کیں کہ حکومتی کارکردگی بالخصوص پنجاب میں شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبوں کو سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے، تاکہ حکومت کا امیج اچھا بن سکے۔ سابقہ حکومتیں گلی محلوں میں شروع کیے گئے منصوبوں کا کریڈٹ تختی لگا کر حاصل کرتی تھیں، جبکہ موجودہ حکومت سوشل میڈیا پر شوروغل مچا کر داد سمیٹ رہی ہے۔

سال 2020 کے پہلے روز وزیراعظم عمران خان نے پوری قوم کو مہنگائی کم ہونے کی نوید سنائی، لیکن محض چند گھنٹے گزرنے کے بعد ہی ملک بھر میں 27 بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ رواں سال مہنگائی کی شرح 20 فیصد سے بھی بڑھ چکی ہے۔ ‏حکومت کی جانب سے آئے روز مہنگائی میں اضافے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کرپشن کا سارا پیسہ عوام کے پاس ہے۔ گلوبل مارکیٹ ریسرچ اینڈ کنسلٹنگ فرم کے حالیہ سروے کے مطابق موجودہ دور حکومت میں معاشی عدم استحکام کے باعث 31 فیصد پاکستانی ملازمتوں سے فارغ ہوچکے ہیں، جبکہ 79 فیصد آبادی اقتصادی صورتحال سے خوفزدہ ہے۔

حکومت کی جانب سے آئے روز لگائے جانے والے ٹیکسز، کرپٹ اشرافیہ کو ریلیف اور حکمران طبقے کی جانب سے تقاریر میں استعمال کیے جانے والے جملوں سے معاشرے میں تناؤ اور بے چینی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر حکومت اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتی ہے تو مہنگائی کی بڑھتی شرح کو کنٹرول کرنے ساتھ دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ اگر عوام کو حکومت کی جانب سے عملی اقدامات کے بجائے محض دلاسے ہی میسر رہے تو پی ٹی آئی کی سیاست اور اقتدار کو مستقبل قریب میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں