مولانا فضل الرحمٰن اور اپوزیشن جماعتوں کا رویہ

مولانا نے بہت کوشش کی کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر کسی طرح حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلائی جائے


ضیا الرحمٰن ضیا January 27, 2020
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رویے سے مولانا دل برداشتہ ہوچکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

انتخابات 2018 کے بعد حسب روایت شکست کھانے والی سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے اور انتخابات میں بدترین دھاندلی کا الزام عائد کردیا گیا۔ انتخابات کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں ایک اتحاد تشکیل دیا، جسے غیر مرئی اتحاد بھی کہا جاسکتا ہے۔ مولانا نے اپنی طرف سے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح اس اتحاد کو فعال بنایا جائے اور مشترکہ طور پر حکومت کے خلاف جد جہد کی جائے۔ اس کے لیے انہوں نے متحدہ اپوزیشن تشکیل دی اور اس اپوزیشن کے فیصلے کرنے کےلیے رہبر کمیٹی قائم کی، جس میں اپوزیشن اتحاد میں شریک تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل ہوئے۔ کہنے کو تو یہ اتحاد تھا لیکن عملاً یہ اتحاد بری طرح ناکام ہوگیا۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنی اپنی پوزیشن بچانے کی فکر میں اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم سے ہونے والے کسی فیصلے پر عمل نہ کرسکیں۔ یہ دونوں بڑی جماعتیں ہر موقع پر پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلیں اور حکومت کی طرف سے ہونے والی چھوٹی چھوٹی پیشکشوں پر اس اتحاد کو نقصان پہنچاتی رہیں یا کسی خوف کی وجہ سے حکومت کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کردیا۔

اپوزیشن جماعتیں صدارتی انتخابات کے موقع پر کوئی مشترکہ امیدوار لانے میں ناکام رہیں۔ پیپلز پارٹی نے تمام سیاسی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف اعتزاز احسن کو اپنا امیدوار نامزد کردیا۔ جس کی وجہ سے مشترکہ اپوزیشن کو بری طرح شکست ہوئی۔ اپوزیشن جماعتیں مولانا کو یقین دلاتی رہیں کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حکومت کو گھر جانا چاہیے، یہ دھاندلی زدہ انتخابات تھے، لہٰذا ان کے ذریعے بننے والی حکومت کو ہٹانے کےلیے مشترکہ جدوجہد کےلیے وہ مولانا کے ساتھ ہیں۔ جب مولانا نے اپوزیشن جماعتوں کے اس بیانیے کے مطابق حکومت کو گھر بھیجنے کی تحریک چلاتے ہوئے ایک انتہائی قدم اٹھایا اور اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا تو ان دونوں بڑی جماعتوں کی ہوا ہی اکھڑ گئی۔ ان کے سربراہان بدحواس سے نظر آنے لگے اور اس احتجاج میں شرکت کے بارے میں کوئی واضح مؤقف نہ دے پائے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے مارچ شروع کیا تو یہ سربراہان پیچھے پیچھے رہے اور ان کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ بس حجت پوری کرنے کےلیے ایک ایک بار کنٹینر پر آئے اور تقریریں کرکے ایسے غائب ہوئے جیسے ان کے ووٹ کو عزت مل گئی ہے اور ان کی ایک تقریر ہی حکومت کی بنیادیں ہلا دینے کےلیے کافی ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماؤں نے مولانا کو میدان میں اکیلا چھوڑ دیا اور خود غائب ہوگئے۔ مولانا تنہا ہی کچھ دن تک تو حکومت کے خلاف جدوجہد کرتے رہے لیکن انہیں یہ تحریک ختم کرنی پڑی۔ یوں ان بڑی جماعتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی۔ ایک بار پھر جب آرمی ایکٹ میں ترمیم کا معاملہ سامنے آیا تو اس اہم معاملے پر بھی ان دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ اپوزیشن سے مشاورت کے بغیر ہی حکومت کے اس بل کی حمایت میں ووٹ دے دیے۔ جس سے مولانا نہایت دل برداشتہ ہوئے اور انہوں نے شہباز شریف سے شکوے بھی کیے۔

لاہور میں اپوزیشن جماعتوں کا آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کےلیے مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں اجلاس ہوا، جس میں انہوں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو مدعو ہی نہیں کیا، جبکہ دیگر اپوزیشن جماعتیں اس اجلاس میں شریک ہوئیں۔ اپوزیشن رہنماؤں میں محمود خان اچکزئی، حاصل بزنجو، آفتاب شیرپاؤ، پروفیسر ساجد میر، اکرم خان درانی نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں حکومت مخالف نئی حکمت عملیوں پر غور کرنے کے علاوہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رویے پر بھی بات ہوئی۔

اجلاس کے بعد مولانا نے 19 مارچ کو لاہور سے آئین پاکستان تحفظ تحریک کے آغاز کا اعلان کیا اور کہا کہ 19 مارچ کو لاہور میں آئین پاکستان کانفرنس ہوگی۔ پاکستان کی اسلامی شناخت کےلیے چاروں صوبوں میں کنونشن کریں گے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو دعوت دینے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جن سے بیمار ہوئے کیا اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگیں گے؟ انہوں نے مزید کہا کہ دو بڑی جماعتوں نے ترمیمی ایکٹس پر حکومت کا ساتھ دے کر ووٹ کو عزت دینے کے بجائے اس کا تقدس پامال کیا، اور اپنے بیانیے کی نفی کی۔ آزادی مارچ میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنے پورے حجم کے ساتھ تعاون کرتیں تو صورت حال مختلف ہوتی۔ اس کے علاوہ انہوں نے چند اہم عوامی مسائل کا بھی تذکرہ کیا اور وفاقی وزرا کی عجیب و غریب منطق اور جاہلانہ گفتگو پر بھی بات چیت کی۔ ہم اس طرف نہیں جاتے کیونکہ ہمارا موضوع ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا رویہ ہے، جس سے مولانا دل برداشتہ ہوچکے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کا سیاسی کردار کبھی قانونی طریقے سے مشکوک نہیں ہوا۔ اگر کسی نے الزامات عائد بھی کیے تو فقط میڈیا کی حد تک ہی رہے۔ کسی نے کبھی عدالتوں میں مولانا کے خلاف کوئی مقدمہ نہ کیا۔ اگر کیا بھی تو وہ الزامات ثابت نہیں ہوئے۔ موجودہ دور حکومت میں جب باقی تمام اپوزیشن رہنما نیب اور دیگر احتساب اداروں کی زد پر ہیں، مولانا اس وقت بھی محفوظ ہیں اور حکومت کے خلاف تحریکوں کی سربراہی بھی کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کے کارکن اور ان کے چاہنے والے ان سے مطمئن ہیں۔ لیکن انہیں اس بات پر تشویش تھی کہ آخر مولانا ماضی کی ان کرپٹ سیاسی جماعتوں کو کیوں ساتھ لے کر چلنے پر بضد ہیں؟ عوام تو ماضی میں ان دونوں سیاسی جماعتوں کے کردار سے بخوبی واقف تھے، اس لیے وہ مولانا کے اس عمل پر تشویش میں مبتلا تھے کہ مولانا جیسے زیرک سیاستدان کو ایسے کرپٹ اور دنیا کے پجاریوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا زیب نہیں دیتا۔

مولانا نے بہت کوشش کی کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر کسی طرح حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلائی جائے۔ بالآخر مولانا پر یہ بات واضح ہوہی گئی کہ یہ دونوں بڑی جماعتیں اپنے مفادات کےلیے کسی سے بھی کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کےلیے تیار ہیں۔ اس لیے ہمارا ان کے ساتھ چلنا اب ناممکن ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اب اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں ان جماعتوں کو مدعو نہ کیا اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک کو آگے بڑھانے کا اعلان کردیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں