پاکستان اسٹیل مل ملازمین کی حالت زار

ملازمین نے عدالت سمیت ہر قانونی طریقہ اختیار کرکے دیکھ لیا لیکن حکمرانوں کی بے حسی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔


Adnan Ashraf Advocate January 24, 2020
[email protected]

LONDON: پاکستان کے صنعتی افق پرکبھی ایک دیوہیکل صنعتی ٹائی ٹینک ہوا کرتا تھا جس کا نام پاکستان اسٹیل ملز تھا۔ 30 مربع کلو میٹر پر محیط یہ فولاد ساز کارخانہ اپنی پیداوار سے اربوں روپے کا زرمبادلہ بچایا کرتا تھا اور ٹیکسوں کی مد میں اربوں روپے حکومتی خزانے میں جمع کراتا تھا۔

اس کے وجود سے دوسری صنعتوں کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ کاروباری و اقتصادی سرگرمیاں بڑھنے سے کوڑیوں کی زمینوں کی قیمتیں کروڑوں تک جا پہنچیں اطراف کی آبادیوں اور گوٹھوں میں بہت سے رفاہی و سماجی کام ہوئے۔ 25 ہزار افرادی قوت کے حامل اس ادارے سے بلاواسطہ طور پر بڑے پیمانے پر روزگار حاصل تھا۔ یہ ادارہ اپنی بجلی خود پیدا کرتا تھا اور اضافی بجلی KESC کو فراہم کرتا تھا جو کورنگی انڈسٹریل ایریا کو مہیا کی جاتی تھی۔ میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے اس نے گجوکنال سے اپنی نہر نکالی تھی۔

نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے کے درمیان لنک روڈ بناکر اس نے نقل و حمل کی نئی راہ داری فراہم کی تھی۔ عالمی ادارے نے اسٹیل ملزکو دنیا کا صاف ترین کارخانہ (Center of Excellence) کا درجہ دیا تھا۔ اس کے میٹلرجیکل سینٹر اور ہیومن ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ میں اپرینٹس، ڈپلومہ سے لے کر ایم ایس تک کی تدریس ہوتی تھی۔ اسے منی پاکستان بھی کہا جاتا تھا یہاں ملک کے کونے کونے کے شہری ملازمت کرتے تھے ، اس کی آبادیاں اسٹیل ٹاؤن اور گلشن حدید کسی چھوٹے، جدید شہرکا نقشہ پیش کرتی تھیں۔

لاتعداد اسکولز، کالجز، بیکن ہاؤس، کیڈٹ کالج، سو بستروں کا اسپتال و دیگر اسپتال وکلینکس، پارکس، جھیلیں، کرکٹ اسٹیڈیم، آسٹروٹرف سے مزین ہاکی اسٹیڈیم، روسیوں کی تفریح کے لیے رشین بیچ، کنٹری کلب، مساجد و امام بارگاہیں، چرچ اور مندر کے علاوہ تمام مذاہب کے الگ الگ قبرستان، کمیونٹی سینٹر، وسیع و عریض رقبے پر پھیلا فروٹ فارم قائم تھا جہاں سے سستے داموں فروٹ و سبزیاں ملازمین کے علاوہ مارکیٹ میں بھی فروخت کی جاتی تھیں۔ ریشم کے کپڑوں کا فارم، مور اور ہرن گارڈن قائد اعظم پارک قائم تھا۔ اسٹیل ملز میں شفٹوں کی وجہ سے زندگی چوبیس گھنٹے جاگتی تھی۔ رات کا منظر دن سے بھی سہانا لگتا تھا اگر کسی پلانٹ پر سوئی بھی گر جائے تو نظر آجاتی تھی۔

مگر سیاسی مداخلت و لوٹ مارکی وجہ سے لب دم یہ ادارہ اب شدید بد انتظامی و مالی خسارے کا شکار ہے۔ اس کے تقریباً تمام پلانٹس بند ہو چکے ہیں۔ اب وہاں جنگلی سوروں، گیدڑوں، سانپوں اور دیگر موذی جانوروں کا راج ہوتا جا رہا ہے۔ چور ، ڈاکو منظم طریقے سے پلانٹس سے قیمتی اشیا چوری یا ڈاکہ زنی کرکے لے جاتے ہیں۔ ملازمین خوف و ہراس اور عدم تحفظ کا شکار ہیں چھ چھ ماہ تنخواہیں نہیں ملتیں، ریٹائر ہوجانے اور مر جانے والے ملازمین کو ان کے واجبات نہیں ملتے ہیں نہ کوئی ان کا پرسان حال ہے۔

سیاستدان اور حکمران صرف نمائشی و رسمی طور پر مزدور دوستی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں مگر ایوانوں میں ان کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔ چند سال پیشتر قائد اعظم گیٹ کے سامنے دھرنا دیے ملازمین سے یکجہتی کے لیے پہنچنے والے عمران خان، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، اسد عمر اور عارف علوی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ''اسٹیل ملز پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ 18 ارب منافع دینے والا یہ ادارہ بند پڑا ہے ملازمین کو چھ چھ ماہ تنخواہیں نہیں ملتی ، یہ کیسا نظام ہے، چوری و کرپشن حکمران کرتے ہیں قیمت عوام کو چکانا پڑتی ہے۔

مزدوروں کو اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلنا ہوگا '' مگر مسند اقتدار حاصل کرنے کے بعد انھوں نے بھی اس مسئلے کو نظر اندازکیا ہوا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز میں کرپشن و بدعنوانیوں پر وہائٹ پیپر تیار کرنے والے پاسلو یونین کے صدرگل احمد پاشا کو دن دہاڑے بھرے بازار میں شہید کر دیا گیا۔ ادارے میں مزدور حقوق کی ایک اور علمدار پروگریسو یونین کی چیئرمین گلزار بیگم کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اسٹیل ملز کرپشن کیس کے گواہ سابق چیئرمین اسٹیل ملز سجاد حسین کو شاہراہ پر قتل کر دیا گیا۔ ادارے کے ایک انتہائی نیک نام ڈائریکٹرکیپٹن (ر) اعجاز ہارون کی موت بھی ایسے ہی ہوئی۔ ان حالات و واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسٹیل ملز کو لوٹنے اور تباہ کرنے والے مافیا اور عناصر کتنے بااثر اور طاقتور ہیں۔

اسٹیل ملز کے ملازمین کو کئی کئی ماہ تک تنخواہیں نہ ملنے سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ادارے میں جون 2013 کے بعد سے ریٹائرڈ ہونے والے یا وفات پا جانے والے ملازمین کو تاحال واجبات کی ادائیگی نہیں کی گئی، نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے کوئی امکانات نظر آتے ہیں۔ یہاں کے ملازمین کی بڑی تعداد ملک کے مختلف حصوں یا شہر کراچی سے تعلق رکھتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری یا ذاتی رہائش چھوڑ کر اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرنا ان کی مجبوری ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پلانٹس پر کام کرنے والے ملازمین صنعتی حضرات کے اثرات اور مخصوص ٹیکنالوجی ہونے کی وجہ سے صحت و اہلیت کی بنیاد پر کہیں کام کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے ہیں ان میں بیماری کی شرح اور دوا دارو کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں جس کا احساس اور اندازہ ارباب اختیار و اقتدار کو قطعی نہیں ہے۔

تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق واجبات کی ادائیگی میں مسلسل تاخیر کے باعث حالات سے تنگ اور عدالتوں سمیت تمام اداروں سے مایوس ہوکر ریٹائر ملازمین نے اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ ملازمین ریٹائرڈ ایمپلائیز یونٹی آف پاکستان کی اپیل پر احتجاج کے لیے اسٹیل موڑ پر جمع ہوئے، بعدازاں ریل کی صورت میں ملیر پریس کلب تک گئے۔ اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ حکومتی عدم توجہ کی وجہ سے جون 2013 کے بعد سے 5800 ریٹائرڈ یا وفات پا جانے والے ملازمین کو ان کے واجبات کی ادائیگی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ملازمین نے عدالت سمیت ہر قانونی طریقہ اختیار کرکے دیکھ لیا لیکن حکمرانوں کی بے حسی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے لہٰذا مجبوراً احتجاجی تحریک شروع کی ہے جس کے تحت 31 جنوری کو بیک وقت تمام صوبائی و وفاقی دارالحکومتوں کے پریس کلبوں پر علامتی بھوک ہڑتال کی جائے گی۔

انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ کے اعلان سے پہلے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات ادا کیے جائیں ورنہ ہر سطح پر حکمرانوں کا گھیراؤ کیا جائے گا۔سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نیشنل ہائی وے پر سرد و یخ بستہ ہواؤں میں کھڑے سراپا احتجاج ساٹھ ستر سالوں کی عمر کے حامل یہ ضعیف العمر ریٹائرڈ ملازمین اپنے ہاتھوں میں جو بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ہیں ان پر تحریر ہے کہ ہم سفید پوش گدا گری نہیں کرسکتے، ہمارے بچوں کا مستقبل تباہ کرنے والو! تمہیں روز محشر حساب دینا ہوگا، کیا ہم اپنے واجبات ملنے کے انتظار میں دنیا سے چلے جائیں گے، حکمرانو! کتنے اور جنازے اٹھنے کا انتظار کر رہے ہو، ظالم حکمرانو! خدا کے عذاب سے ڈرو۔''

یہ ویڈیو ارباب اختیار و اقتدار کے علاوہ قلم کاروں اور سول سوسائٹی کو بھی دعوت فکر دے رہی ہے وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔