لیاری سمیت کئی علاقے خطرناک عمارتوں کا جنگل بن گئے

بہارکالونی،نیاآباد،شاہ ولی اللہ روڈ اور دیگرعلاقوں میں35 سے 240 گزکے پلاٹس پر 8منزلہ خطرناک عمارتیں تعمیرکی جانے لگیں


وکیل راؤ January 24, 2020
نوٹس لے کر تعمیراتی کام فوری بند کرایاجائے،ماہرین تعمیرات۔ فوٹو: فائل

متعلقہ اداروں کی ملی بھگت اورسنگین مجرمانہ غفلت کے باعث لیاری سمیت کئی علاقے خطرناک عمارتوں کے جنگل بن گئے۔

لیاری سمیت کئی علاقوں میں سنگین تعمیراتی قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ،لیاری کے مختلف علاقوں میں 35 سے 240 گز کے پلاٹوں پر 6 سے 8منزلہ عمارتوں کی تعمیر تیزی سے جارہی ہے۔

باخبر ذرائع کے مطابق مکروہ کام میں متعلقہ اداروں کے اہلکار ملوث ہیں اور بھاری رشوت کے عیوض یا تو ان خطرناک عمارتوں کی تعمیر کی این او سیز جاری کی جارہی ہیں یا پوری طرح فیضیاب ہونے کے بعد مجرمانہ خاموشی اختیار کی جارہی ہے ،سرکاری سرپرستی میں بہارکالونی، کھڈہ مارکیٹ، آگرہ تاج کالونی، نیا آباد، شاہ ولی اللہ روڈ سمیت لیاری کے دیگر علاقوں میں کھلے عام غیرقانونی تعمیرات جاری ہیں۔

ماہرین نے حکومت سندھ اور متعلقہ اداروں کو خبردار کیا ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں سمیت لیاری میں جاری خطرناک عمارتوں کی تعمیر کا گھناؤنا فوری بند کرایا جائے بصورت دیگر کسی بھی ناگہانی صورتحال میں یہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہوسکتا ہے،ماہرین کے مطابق معمولی زلزلے کے باعث یہ عمارتیں زندہ افرادکا قبرستان بن سکتیں ہیں،تعمیراتی کام فوری بند کرایاجائے۔

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں لیاری سے متصل کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں اسی طرز پر تعمیر کی گئی عمارت منہدم ہوگئی تھی،ایک دوسری عمارت کی بنیاد کمزور پڑنے سے وہ ٹیڑھی ہوگئی ہے، یہ عمارتیں بھی چھوٹے سائز کے پلاٹوں پر تعمیر کی گئی تھیں، کھارادر اورمیٹھادر اور اطراف کے علاقوں میں بھی غیرقانونی تعمیرات موجود ہیں۔

خطرناک عمارتوں کا معاملہ متعدد باراسمبلی میں اٹھایا،صرف زبانی نوٹس لیاگیا،عبدالرشید

لیاری سے منتخب رکن سندھ اسمبلی سید عبدالرشید نے روزنامہ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لیاری میں خطرناک عمارتوں کی تعمیر کا معاملہ متعدد مرتبہ سندھ اسمبلی میں اٹھا چکے ہیں تاہم متعلقہ حکام کی جانب سے صرف زبانی نوٹس لیا گیا لیکن عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے ،انھوں نے الزام عائدکیاکہ شہریوں کی زندگیوں کوخطرے سے دوچار کرنے کے اس کھیل میں مبینہ طور پر یوسیزکے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا بھتہ فی پروجیکٹ ایک لاکھ تک ہوتا ہے۔

ڈی ایم سی، علاقہ پولیس اس کام میں مبینہ طور پر رشوت کے عوض سہولت کار بنے ہوئے ہیں واٹر بورڈ،کے الیکٹرک اور سوئی گیس کا عملہ رشوت کے عیوض ان عمارتوں میں کنکشن فراہم کرتے ہیں، سید عبدالرشید نے بتایا کہ کئی افراد ڈی ایم سی ضلع جنوبی کے بیٹر کے طور پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی جانے والی عمارتوں کی مالکان سے پیسے وصول کرتے ہیں جنھیں پولیس کی بھی سرپرستی حاصل ہے۔

ایک چھت کے ریٹ 2سے 5لاکھ تک وصول کیے جاتے ہیں

باخبر ذرائع کے مطابق لیاری میں جاری خطرناک عمارتوں کی غیر قانونی تعمیرات کے گھناؤنے دھندے میںایک چھت کے ریٹ 2لاکھ روپے سے 5لاکھ تک وصول کیے جاتے ہیں،سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے متعلقہ عملے سے لیکر محکمہ اینٹی کرپشن، مبینہ طور پر ڈی ایم سی، یوسی ، کے الیکٹرک، ڈی سی آفس اور لیز ڈپارٹمنٹ کا عملہ اس کام میں ملوث ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن کے آفیسرز کا کالا دھن بلڈرزکے ذریعے اس ناجائز کاروبار میں سرمایہ کاری کے طور پراستعمال ہوتا ہے ،عدالتی حکم پر ہونے والے اقدامات بھی نمائشی ہوتے ہیں۔

بلڈرزگلیاںہڑپ کرنے کیلیے اضافی رقم دیتے ہیں،ذرائع

سندھ میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی کا ماضی میں گڑھ تصور کیے جانے والے علاقے لیاری میں200 سے زائد مقدمات پر قائم مختلف پلاٹوں پر بلند عمارتیں تعمیرکی جارہی ہیں،ذرائع کے مطابق ان پلاٹوں کا سائز 35سے 240گز تک ہے جن پر کئی کئی منزلہ عمارتیں تعمیر کے مراحل میں ہیں علاقے کی سڑکیں اور گلیاں ہڑپ کرنے کے لیے بلڈرز اضافی پیسے ادا کرتے ہیں جس سے نہ صرف علاقے کی گلیاں تنگ ہوتی جارہی ہیں بلکہ وسائل کی تقسیم کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔

لیاری میں تعمیر ہونے والی عمارتوں کے حوالے سے موقف جاننے کے لیے چیئرمین ڈی ایم سی لیاری ملک فیاض سے فون پر رابطہ کیا گیا تاہم انھوں نے موقف دینے سے گریزکیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔