یہ تو وہی جگہ ہے…
اگر بینظیر صاحبہ اس دن گاڑی کی چھت کی کھڑکی سے سر نا نکالتیں تو کیا یہ مناظر ایسے ہی ہوتے جیسے کہ آج ہیں؟
مکاں وہی ہے زماں بدلتا رہا۔ 1947سے لے کر آج تک ہماری سیاست اور ہماری ریاست وہیں کھڑی ہیں۔ہم سب ہی ادھورے ادھورے ہیں۔ ہماری جمہوریت ادھوری، انصاف دھورا، بالادستی، حق حکمرانی، ریاست، سیاست، پارلیمان، وزیراعظم سب ہی ادھورے ادھورے۔ خود آمریت بھی ادھوری آتی اور جاتی رہتی ہے۔ مگر اس کے سائے ہمیشہ منڈلاتے رہتے ہیں۔
1947 میں ہم ملے تو اجنبی کی طرح تھے۔ ہم مسلمانان ہند تھے، مختلف ثقافتوں اور زبانوں کے بولنے والے۔ اور پھر کیا ہوا، ہماری قیادت کمزور نکلی، ہجرتوں کے طویل سفر تھے، اتنے طویل فاصلے کہ جیسے کبھی نہ ختم ہونے والے۔ ہجرت کر کے آنیوالوں سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی وہیں رہ گئی اور جیسے آج ہمارے نصیر الدین شاہ کو احساس ہونے لگا ہے کہ ہندوستان میں بحیثیت مسلمان اب نہیں رہا جا سکتا۔ ان کی بھی جمہوریت یرغمال ہو گئی مگر کچھ اور طرح سے کہ بغیر نظریہ ء ضرورت کے!
اگر بینظیر صاحبہ اس دن گاڑی کی چھت کی کھڑکی سے سر نا نکالتیں تو کیا یہ مناظر ایسے ہی ہوتے جیسے کہ آج ہیں؟ وہ مریم نواز چی گویرا لگتی تھیں، وہ بلاول جو ایوانوں میں چنگھاڑتا تھا، یہ کیا ہوا کہ سب کو چپ سی لگ گئی! این آر او تو بینظیر نے بھی کیا تھا مگر ایسا نہیں تھا، جو ان صاحبان نے کیا ہے۔ وہ تو آمر کے لیے exit strategy کا ایک طریقہ کار تھا۔ مگر یہ این آر او کیا ہے؟ یعنی آج یہ چھوٹی سی تنخواہ پر بھی کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جب عوام سو رہے ہوتے ہیں تو پھر لیڈر ایسے ہی کام کرتے ہیں ۔ جب تک آرا نظر نہیں آتی تو ٹرام کے دروازے کے ہینڈل سے کوئی ٹکراتا بھی نہیں ہے۔
دو موڑ تھے اور پھر سرد جنگ کے وہ زرد پتے تھے، جو ہمارا مقدر بن گئے۔ اور بھی بہت کچھ تھا ۔ مگر یہ دو مواقع تھے جو ہم نے گنوائے۔ ہم جنرل ایوب کو مورد الزام ٹھراتے ہیں جس نے آمریتوں کے لیے پہ درپہ یلغاریں کیں، اور اس کے لیے دروازے کھولے مگر ایوب خود ظہور پذیر نہیں ہوا تھا۔ یہ ملک ہے کیا؟ اس کا وارث کون ہے؟ یہ کمزور مسلم لیگ وضع نہ کر سکی، برطانیہ عالمی سامراج کا رہبر، مگر اب امریکا بن چکا تھا۔ سویت یونین کے اشتراکی نظریئے پر ایک آمرا سٹالن کی شکل میں ابھر چکا تھا۔
عجیب بیانیہ تھا دنیا کا۔ اور اس بیانیہ کے پیچھے بھی معاشی مفادات تھے۔اور پھر جب مشرقی پاکستان کے لوگوں نے جمہوریت کی بحالی کی بھرپور تحریک کی قیادت کی تو یہاں بھی مغربی پاکستان کے طلباء، دانشور، صحافی آگے آگے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ جمہوریت ہار گئی اقتدار منتقل نہ ہوا، اس کو، جس کا حق تھا۔ سرد جنگ بھی ایک مہرا تھا یا شاید بھٹو ان سب باریکیوں کو سمجھتے تھے۔ شیخ مجیب سویت نواز ٹھہرے اور بھٹو امریکا نواز۔
سب ادھورا ادھورا رہ گیا۔ ہم پھر سے اجنبی ٹھہرے '' آخر شب کے ہمسفر فیضؔ نہ جانے کیا ہوئے'' کی طرح۔ اس سرد جنگ کے پس منظر میں بھٹو بھی مارا گیا اور مجیب بھی! مگر بینظیر کیوں ماری گئی!
میں سوچتا رہا کہ ہمارے خان صاحب، ظفر اللہ جمالی، شوکت عزیز یا جونیجو کا تسلسل ہیں۔ مگر شاید ایسا نہیں۔ وہ ایک بھرپور پارٹی کے لیڈر ہیں، لاکھوں کا مجمع جمع کر جاتے ہیں، شعلہ بیان مقرر بھی۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ وہ بھٹو کی طرح ایسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب تھے۔ مگر پھر کیا ہوا؟ وہ شاید کرکٹ کے میدان سے باہر نہ نکل سکے اور ان کے مداح بھی وہی کرکٹ کے چاہنے والے تھے وہ بھی یہی سمجھ بیٹھے کہ یہ ملک چلانا ورلڈ کپ جیتنے والے کے لیے آسان ہو گا۔
اور اب پاکستان کی تاریخ کے سب ریکارڈ ٹوٹ چکے جس طرح سے آج یہ مہنگائی آئی ہے۔ ان کے وزراء کے بیان، ان کے بیان، سوشل میڈیا، ٹک ٹاک یہ سب جیسے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار بیٹھے۔ آج ان کے زمانے میں ہم پھر امریکا کو بہت قریب ہونے جا رہے ہیں۔ مگر یہ ڈاکٹرائن ان کی نہیں کسی اور کی ہے۔ ہمیں توازن برقرار رکھنا تھا۔ جس طرح ہم پہلے سے رکھتے آ رہے تھے۔ چین سے تعلقات در اصل ذوالفقار علی بھٹو کی دریافت تھی۔ امریکا نے بھی چین سے تعلقات ذوالفقار علی بھٹو کے توسط سے بنائے۔
اور پھر چین دنیا کی سپر طاقت کی حیثیت سے ابھرنے لگا۔ مغرب نے اس کا نوٹس لینا شروع کیا۔ اس نئی ابھرتی جنگ میںہم قرضوں سے مقروض ملک کی حیثیت سے بیچ راہ میں پھنس گئے۔ آزاد خارجہ پالیسی ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ اور ہم نے پھر بھی کوشش کی کہ ہم جتنا ہو سکے آزاد رہیں۔ جغرافیائی حیثیت سے ہماری اپنی بھی مجبوریاں تھیں۔ افغانستان غیر مستحکم، ایران غیر مستحکم۔ ہندوستان جارحیت پسند، کشمیر مقبوض۔ اس سارے تناظر میں ہمیں دیکھنا تھا کہ جس تیزی سے ہماری امریکا سے بڑھتی دوریاں تھیں، وہ ایک انتہا تھی اور جس تیزی سے بڑھتی دوستیاں ہیں، وہ اک اور انتہا ہو سکتی ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بلآخر اس حکومت کی کرپشن کے حوالے سے بیانیہ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ ایک تو یہ بیانیہ حقیقت کا عکاس نہ تھا اور دوسری طرف مہنگائی نے وہ ستم ڈھائے کہ لوگ اب اس کرپشن کے بیانیہ سے بیزار ہو چکے ہیں۔ سخت تنگ آ چکے ہیں۔ ریاست مدینہ سے لے کر جو بھی بڑی بڑی باتیں ، دعوے اور وعدے تھے سب دھرے کے دھرے ر ہ گئے۔ اورآخرکار میاں صاحب بھی لڑتے لڑتے تھک گئے اور بلاول بھٹو بھی۔ یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہو یا ہماری اندرونی سیاست یا پھر سیاستدان۔ سب اسی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں جو پہلے سے کم تر ہے۔ مگر ہم سول حکمرانی کی جنگ لڑتے رہیں گے اور یہ جستجو جاری رہے گی۔
نہ تن میں خون فراہم، نہ اشک آنکھوں میں
نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی