نئی تاریخ

بلاشبہ آج کا پاکستان اپنی تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک جانب ملک کو امن و امان کے قیام کے حوالے سے دہشت...


MJ Gohar November 15, 2013
[email protected]

بلاشبہ آج کا پاکستان اپنی تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک جانب ملک کو امن و امان کے قیام کے حوالے سے دہشت گردی، خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگیٹڈ کلنگ، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور سرحدی کشیدگی، بیرونی مداخلت کاری اور قومی سلامتی کے تحفظ جیسے ہمالیاتی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ کراچی تا خیبر آگ و خون کا الاؤ روشن ہے قبائلی علاقے امریکی ڈرون حملوں کا مسلسل نشانہ بن رہے ہیں۔ کشت وخوں کی اس جنگ میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت، پارلیمنٹ، سیکیورٹی ادارے، علمائے کرام، دانشور طبقے، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور دیگر مذہبی و سماجی تنظیموں، جماعتوں کی خواہش و کوششوں اور اپیلوں و اقدامات کے باوجود ملک کے طول و عرض میں امن و سکون کا خواب ہنوز تشنہ تعبیر ہے۔ ہر شخص عدم تحفظ کا شکار اور خوف کی کیفیت میں مبتلا ہے یہ صورت حال ہر محب وطن کے لیے یقینا افسوس ناک، تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ اہل اقتدار ہی طاقت و اختیارات کے اصل ماخذ ہوتے ہیں حالات کے تقاضوں کو سمجھنا، زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کرنا اور حکومتی پالیسیوں کے نفوذ کو یقینی بنانا ان کا فرض منصبی ہے۔ اگر صاحب اقتدار صلاحیتوں و قابلیتوں کے حامل دور اندیش، بصیرت افروز، وژنری اور فیصلہ سازی کی قوت سے مالا مال ہوں تو دلیرانہ و جرأت مندانہ اقدامات کے ذریعے بڑے سے بڑے چیلنج کا پامردی اور کامل یقین کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں اور ملکی سلامتی و استحکام کو یقینی بنانے و قوم کا مستقبل سنوارنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن افسوس کہ آج یہ کھیتی ویران ہے یہی وجہ ہے کہ آج شدت پسند حاوی، امن و امان مخدوش، دانشور طبقہ مایوس، قوم پریشان اور ملک کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔

دوسری جانب وطن عزیز اپنی عسکری، عدالتی، سیاسی اور پارلیمانی تاریخ کے حوالے سے بھی اہم مراحل طے کر رہا ہے جو حد درجہ قابل اطمینان بات ہے۔ 2008 کے انتخابی عمل کے بعد سے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی وژنری قیادت میں پاک فوج نے خود کو سیاست سے مکمل طور پر جدا کرلیا جس سے ملک میں جمہوریت کو فروغ و استحکام ملا اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پی پی پی کی حکومت نے سابق صدر آصف علی زرداری کی مدبرانہ قیادت میں ان کی مفاہمانہ سیاسی پالیسی کے طفیل اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کی۔ آئینی طریقہ کارکے مطابق انتخابات اور انتقال اقتدار کے مراحل طے ہوئے اور چھ دہائیوں کے بعد ایک نئی سیاسی، پارلیمانی اور آئینی تاریخ رقم کی گئی بعینہ ہی صدر کا انتخاب بھی آئینی طریقہ کار کے مطابق کیا گیا۔ ملکی و غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں پاکستان عمل کے تسلسل کی بے حد پذیرائی کی گئی اور اس ضمن میں سابق صدر آصف علی زرداری کی مفاہمانہ پالیسی و سیاسی فیصلوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ 2007 میں عدلیہ نے ماضی کی روایت کو توڑتے ہوئے تاریخ ساز کروٹ لی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں ''آزاد عدلیہ'' کا سورج طلوع ہوا ۔ گزشتہ 5/6 سالوں میں عدلیہ نے بڑے اور اہم فیصلے کیے جس کی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں نمایاں کوریج کی گئی۔

بعض عدالتی فیصلوں و اقدامات کے حوالے سے عدلیہ اور پارلیمنٹ و حکومت کے درمیان تناؤ، محاذ آرائی اور سرد جنگ جیسی کیفیت کا تاثر بھی ابھرتا دکھائی دیا اس ضمن میں ملکی و غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں آئینی و قانونی ماہرین، تجزیہ نگار اور ممتاز دانشور حضرات اپنے تحفظات کا برملا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ اسی حوالے سے گزشتہ دنوں جنیوا میں انٹر پارلیمنٹری یونین (I.P.U) کے اجلاس میں ممتاز پاکستانی سینیٹر فرحت اللہ بابر نے جو مدبرانہ تقریر کی وہ نہایت اہمیت کی حامل ہے اور ارباب حل و عقد کے لیے اس میں غور و فکر کا بڑا سامان موجود ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ آئی پی یو اپنے 150 رکن ممالک میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات ختم کروانے میں فعال اور موثر کردار ادا کرے اور اس امر کا خیال رکھے کہ کسی ملک کی عدلیہ ''جوڈیشل ایکٹوزم'' کے تحت پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے یہ تجویز پیش کی کہ جس طرح انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس باقاعدگی کے ساتھ مختلف ممالک میں عدلیہ کی آزادی کا جائزہ لینے کے لیے وفود بھیجتا ہے اسی طرح آئی پی یو کو بھی مختلف ممالک میں اپنے وفود بھیجنے چاہئیں جو اراکین پارلیمنٹ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے نمایندوں سے ملاقاتیں کرکے اس امر کا جائزہ لیں کہ مختلف ممالک میں پارلیمنٹ کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے کون سے خطرات درپیش ہیں۔ ریاستی اداروں کے درمیان اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس کی وجہ بذات خود اداروں کی زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی کوشش ہے۔

انھوں نے کہا کہ عدالتیں آمرانہ حکومتوں سے تعاون کرنے میں عار محسوس نہ کرتی تھیں تاہم پاکستان میں ایک تاریخی جدوجہد کے بعد عدلیہ آزاد ہوئی اور اب عدلیہ آئین و قانون کی جو تشریح کرتی ہے اس سے اختلافات پیدا ہورہے ہیں اور پاکستان میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جیسے قومی اسمبلی کی منتخب اسپیکر کے احکامات کو نظر انداز کرنا، منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دینا اور الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگانا اور الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات میں مداخلت اور صدارتی الیکشن کے شیڈول میں تبدیلی وغیرہ۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اپنی مذکورہ تقرری عدلیہ پارلیمنٹ کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور تمام ریاستی اداروں کے مابین آئینی اختیارات کے استعمال سے ان میں توازن پیدا کرنے کی جو راہ دکھلائی ہے ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چاہیے۔

آئی پی یو کے مذکورہ اجلاس میں قومی اسمبلی کے اسپیکر جناب ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمایندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین پر مشتمل ایک وفد نے شرکت کی تھی۔ آئی پی یو کی جنرل کونسل نے 16 رکنی ایگزیکٹو کمیٹی کا بھی انتخاب کیا جس میں پیپلز پارٹی کے ممتاز سینئر رہنما اور تجربہ کار سینیٹر میاں رضا ربانی کو بھی بحیثیت رکن منتخب کیا گیا جو بلاشبہ پاکستان اور پی پی پی کے لیے ایک اعزاز اور قابل فخر بات ہے۔ امید ہے کہ رضا ربانی اپنے طویل پارلیمانی تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے آئی پی یو کی ایگزیکٹو کمیٹی میں ایک فعال کردار ادا کرتے ہوئے وطن کا نام روشن کریں گے۔ آج ملک جس بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے اس سے نکلنے کے لیے ہر محب وطن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ریاستی اداروں پر زیادہ ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ طاقت و اختیارات کے حامل ہوتے ہیں۔ آج اگر آئینی، سیاسی، پارلیمانی، عدالتی اور عسکری حوالے سے نئی تاریخ رقم ہورہی ہے تو یہ ارباب حل و عقد کے صبر و تحمل، حکمت و بصیرت اور پیچیدہ مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کا ثمر ہے۔ کاش! یہ سلسلہ چلتا رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں