قافلۂ عشاق کا امام حسین سربلند
حق کائنات کا حسن ازل ہے، حق احسان ہے، باطل بد صورتی ہے، ظلم ہے۔
حق کائنات کا حسن ازل ہے، حق احسان ہے، باطل بد صورتی ہے، ظلم ہے۔
حق سر جھکاتا ہے فقط خالق کائنات کے روبرو، باطل ہر اک کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ حق کی پیشانی خاک آلود ہوتی ہے صرف رب کائنات کی بارگاہ میں، باطل خاک آلود و خوارہتا ہے نفس کی شرارگاہ میں۔ روز ازل سے باطل کے روبرو حق ہمیشہ بر سر پیکار رہا ہے اورابد تک رہے گا کہ حق ہی کے لیے ہے سرخ روئی اور سر بلندی ، فقط حق کا نصیبا ہے سر بلندی ۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
کربلا حق و باطل میں امتیاز کا نام ہے ۔ کربلا سچائی اور کذب میں تفریق کا نام ہے ۔ کربلا انسانیت کی پناہ کا نام ہے ۔ کربلا آمریت کے خلاف جمہور کی آواز ہے۔ کردار حسینیؓ دراصل بقا ء انسانیت ہے ۔ حسین،ؓ مظلوم کی سر پرستی کا نام ہے ۔ حسینؓ اسلام کی حقانیت اورسر بلندی کا نام ہے ۔ حسینؓ قافلہء عشاق کا امام ہے ۔ حسینؓ بقائے دوام ہے ۔ حسینؓ شجیع نے اپنے اور اپنے چہیتوں کے خون سے اسلام کے شجر طیب کی آب یاری کی اور ثابت کردیا کہ نظریہ اور دین اہم ہوتا ہے ۔ جواں مردوں کا امتحان ہمیشہ میدان کارزار میں ہوا کرتا ہے اور جواںمرد ہی سرخ رو اور سر بلند رہتے ہیں اور ایسے سر بلند کہ ان سے زیادہ سر بلند کوئی اور نہیں ہوتا ، اور جب وہ راہ حق میں قتل کر دیے جائیں تو خالق کل کائنات خبردار کرتا ہے کہ کوئی انہیں مردہ مت جانے ، کوئی اپنے شعور کے دھوکے میں نہ آئے، انہیں ہی دوام ہے جو راہ خدا میں جان کا نذرانہ پیش کردیں ۔ حسینؓ اسی قافلے کا امام ہے اور رہے گا ۔
کربلا میں بظاہر تو باطل کو فتح حاصل ہوئی، شیرخوار اور معصوم بچوں، عفت مآب خواتین، باکردار جوانوں اور افضل مردان حق کے ساتھ ظلم و ستم ہوا اور سب ہی جانتے ہیں کیسا ظلم اور ظلم بھی ایسا کہ خود ظلم بھی شرم سار اور رسوا ہوا ۔ مگر راز دارانِ حقیقت اور صاحبانِ بصیرت خوب جانتے ہیں اور اس کا بر ملا اعتراف کرتے ہیں کہ شکست کس کا مقدر بنی اور بدکرداری کی کالک کس کے حصے میں آئی۔ کون نہیں جانتا یہ سچائی، کہ حسینؓ اور حسینی ہی سر بلند رہے ۔
ہر انسان پیدائش کے بعد طبعی عمر گزار کر اپنے وجود کے خاک ہو جانے کا شعور رکھتا ہے، ہوش سنبھالنے کے بعد انسان کو زندگی اور موت کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ عقل اور حاصل ہونے والے دنیاوی علم کی بنیاد اور مشاہدے پر وہ اس بات کا یقین کرلیتا ہے کہ دنیا میں ہر جنم لینے والے کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، تاہم قرآن حکیم اپنے ماننے والوں کو ایک اور روشن ترین اور ابدیت کی طرف جانے والے راستے کا ادراک کرواتا اور اس کا فہم عطا کرتا ہے۔ قرآن کے بتائے ہوئے اس راستے میں وہ زندگی پوشیدہ ہے جسے فنا نہیں، جو نیست سے ہم آغوش نہیں ہوتی اور جسے کبھی فنا نہیں۔ اس ابدیت کے راستے پر وہی سفر کرتے ہیں جو خالقِ کائنات کی وحدانیت اور اس کے حبیب کریمﷺ پر ایمان لاتے ہیں۔ حسینؓ کے نانا جناب رسول اللہﷺ جو شہر علم ہیں حسین ؓ کے والد گرامی جناب علیؓ جنہیں شہر علم ﷺ کے باب علم کا شرف عظیم حاصل ہے وہ حسین ؓ ہی تو جانتے ہیں کہ علم کیا ہے ، حقیقت کیا ہے ، بصیرت کسے کہتے ہیں بصارت کیا ہوتی ہے ، کائنات کے ہر ذرے میں کیا راز پوشیدہ ہے ، ہاں حسینؓ جانتے ہیں ۔
قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے''جو اﷲ کی راہ میں قتل کر دیے جائیں انہیں مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں اور اپنے رب سے رزق پا رہے ہیں، مگر تمہیں اس کا شعور نہیں۔''
یہ کیسی زندگی ہے، جس سے ہمیں کتاب اللہ، جو ہر شک اور شبہے سے پاک و منزہ ہے، آگاہ کر رہی ہے؟ یہ کون سا رتبہ و مقام ہے جس کا ذکر قرآن حکیم فرقان مجید نے کیا ہے؟ اس کا جواب بھی قرآن سے ہی ہمیں ملا ہے۔ یہ وہ اعزاز ہے جو اﷲ خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی راہ میں جان قربان کردینے والوں کو عطا فرماتا ہے۔ مسلمان اس رتبے کو شہید اورشہادت کے نام سے جانتے ہیں۔ حقیقی زندگی کی طرف جاتا ہوا یہ راستہ مومن کا انعام ہے۔ قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے رب کائنات کا عظیم تحفہ ہے۔
شہادت دراصل باطل کی نفی کرنے اور راہ حق میں اپنی جان قربان کردینے کا نام ہے۔ اسلام ایسا دین ہے جس میں عدل و انصاف کو بنیاد قرار دیاگیا ہے۔ ہمارا دین اسلام، جو رب کائنات کا پسندیدہ دین ہے، ہمیں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنے، مجبور اور محکوم کو ظالم کے ظلم سے نجات دلانے اور حق بات کہنے میں جرأت کا مظاہرہ کرنے کا درس دیتا ہے، جس کا انعام شہادت کے مرتبے اور مقام کی صورت میں ملتا ہے۔ دنیائے اسلام میں قربانی اور ایثار کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ کہیں مسلمانوں نے اﷲ کی راہ میں مال و دولت اور دنیاوی آسائشوں کو قربان کردیا تو کہیں ظلم و جبر کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں۔ یہ مہینہ محرم الحرام سن ہجری کا پہلا ماہ مکرم جو ہمیں راہ حق پر ڈٹ جانے اور ظالم کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کا درس دیتا ہے۔
اس ماہ میں میدان کربلا میں حق و انصاف کے علم برداروں کی طرف سے دی جانے والی عظیم قربانی مسلمانوں کے لیے قیامت تک مثال بن گئی۔ محرم الحرام میں نواسۂ رسولﷺ حضرت امام حسینؓ نے یزید اور یزیدیت کو شکست فاش دی ۔ اپنے اہل خانہ اور چند جاں نثاروں کے ساتھ آپؓ نے اپنی اور اپنے چہیتوں کی جان کا نذرانہ اپنے رب کی بارگاہ عظیم میں پیش کرکے اسلام کو زندہ کردیا، ہر ظلم کو خندہ پیشانی اور جواں مردی سے برداشت کیا ، لیکن حسین شجیعؓؓ نے ظلم کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔ حسینؓجری نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کا درس میدان کار زار کرب و بلا میں بہ نوک سناں بھی پیش کیا ۔ حسین ؓذی وقار نے آمریت کے خلاف اپنے خون مطہر سے وہ تاریخ رقم کردی جس کی مثال کہیں نہیں ملتی ، حسینؓ نے اپنے رب سے کیا وعدہ ایسی شان سے نبھایا کہ عقل دنگ اور شعور گنگ ہے
کربلا کے میدان میں باطل نے ظاہری طور پر مٹھی بھر جان نثاران حسینؓکو زیر کرلیا ، مگر رازدارانِ حقیقت اور صاحبانِ بصیرت جانتے ہیں کہ شکست کسے ہوئی اور رہتی دنیا تک کون رسوا ہوا۔ یزید رسوائی کا نشان عبرت اور حسین ؓ نشان عزم و استقلال اور مظلوموں کی زندگی بن گئے۔
ایک بار پھر ہم کرب و بلا کے معرکے میں امام حسینؓ عالی اور ان کے وفا شعار ساتھیوں کی شہادت عظمیٰ کو یاد کررہے ہیں اور تا قیامت یاد کرتے رہیں گے ۔ قرآن کی مذکورہ بالا آیت ہمیں بتاتی ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتے۔ ہر مسلمان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ اﷲ اپنے بندوں سے کیے گئے وعدے ضرور پورے کرتا ہے اور یہی یقین ہمیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ ہم ظلم کا مقابلہ کریں اور راہ حق میں اپنے مال اور جان کی قربانی کی اگر ضرورت پڑجائے تو اس سے بھی دریغ نہیںکریں ۔ دنیا میں ہمیشہ ہی حق اور باطل معرکہ آرا رہے ہیں اور رہیں گے اور کردار حسینی ؓ ہر دور میں قافلہ عشاق کی رہبری اور راہ نمائی کرتا رہے گا ۔