ناول کورونا وائرس کے خلاف چینی سماج کا اتحاد

چین میں صحت عامہ اور عوامی خدمات کی فراہمی کے سبھی ادارے چوبیس گھنٹے فعال ہیں


شاہد افراز January 29, 2020
کورونا وائرس کے خلاف چینی عوام انفرادی سطح پر تمام حفاظتی اقدامات پر عمل پیرا ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عالمی سطح پر صحت کے اعتبار سے اس وقت اگر کسی موضوع کی بات کی جائے تو فوری طور پر ذہن میں ''ناول کورونا وائرس'' آتا ہے۔ چین کے شہر ووہان سے جنم لینے والا یہ مہلک وائرس اب تک سو سے زائد جانیں لے چکا ہے جبکہ وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے اور اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے چار ہزار سے زائد افراد ناول کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: ووہان وائرس... چین سے بحرانوں میں لڑنا بھی سیکھ لیجیے!

اس صورتحال میں بطور صحافی چین کے دارالحکومت بیجنگ میں قیام کے دوران ناول کورونا وائرس کو شکست دینے کےلیے چینی سماج کے جذبے اور جدوجہد سے متعلق کئی واقعات نظر سے گزر رہے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی رویوں میں وہ عزم جھلکتا ہے جو کسی بھی آزمائش کا ڈٹ کر سامنا کرنے کےلیے تیار ہے۔

چین میں ناول کورونا وائرس ایسے وقت میں سامنے آیا جب چینی عوام نیا قمری سال اور جشن بہار کی خوشیاں اپنے پیاروں کے ساتھ منانے کی تیاریاں کررہے تھے، مگر صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ جشن بہار کے موقع پر کروڑوں افراد اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔ چینی لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کورونا وائرس سے خود کو اور دیگر لوگوں کو بچانے کی خاطر سفر سے گریز کیا جائے۔ لہٰذا دنیا کی سب سے بڑی سفری سرگرمی متاثر ہوئی۔

چینی حکومت کی جانب سے ناول کورونا وائرس کے مزید پھیلاؤ اور روک تھام کی خاطر ووہان شہر جانے والے فضائی اور زمینی راستے عارضی طور پر بند کردیے گئے اور اس وقت ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد آبادی کا حامل یہ شہر ''تنہا جزیرے'' میں تو ضرور تبدیل ہوا لیکن چینی عوام، بالخصوص ووہان کے شہری اس عارضی بندش کو وبائی صورتحال پر قابو پانے کےلیے ایک ''حفاظتی جزیرے'' سے تعبیر کر رہے ہیں، جس کا مقصد عالمی سطح پر صحت عامہ کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: چین میں پھیلتا پراسرار کرونا وائرس اور حکومتی اقدامات

ناول کورونا وائرس کے پیش نظر جشن بہار کی مناسبت سے منعقد کی جانے والی تمام عوامی سرگرمیاں منسوخ کردی گئی ہیں اور عوامی اجتماعات کا انعقاد بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ چینی عوام انفرادی سطح پر تمام حفاظتی اقدامات پر عمل پیرا ہیں۔ گھروں سے باہر نکلتے وقت ماسک کا استعمال لازم ہے۔ دفاتر، بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنز، ہوائی اڈوں یا دیگر عوامی مقامات پر تمام افراد کے جسمانی درجہ حرارت کی جانچ کےلیے عملہ موجود ہے جبکہ عوام خود بھی صحت و صفائی سے متعلق تمام ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔ چینی حکومت نے ہمیشہ کی طرح عوامی مفادات کو ترجیح دی ہے اور وبا کی روک تھام اور کنٹرول کےلیے فوری طور پر ایک قومی نظام تشکیل دیتے ہوئے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔

چین کشادگی، شفافیت اور سائنٹیفک تعاون کے جذبے کے تحت بین الاقوامی برادری کے ساتھ انتہائی ذمے دارانہ انداز میں تعاون اور بروقت معلومات کا تبادلہ کررہا ہے تاکہ مریضوں کے علاج اور وبائی امراض کے پھیلاؤ کی روک تھام کےلیے مربوط اقدامات کیے جائیں۔

چینی عوام کا جذبہ بھی اس وقت عروج پر ہے، بالخصوص شعبہ طب سے وابستہ افراد اپنی تعطیلات کو منسوخ کرتے ہوئے چین بھر سے ووہان شہر کا رخ کر رہے ہیں۔ اس وقت چین کے مختلف شہروں سے چھ ہزار سے زائد طبی کارکن ووہان پہنچ چکے ہیں، جہاں وہ پہلے سے فعال دیگر طبی عملے کو تعاون اور معاونت فراہم کر رہے ہیں۔

چین میں صحت عامہ اور عوامی خدمات کی فراہمی کے سبھی ادارے چوبیس گھنٹے فعال ہیں۔ حفاظتی ماسک بنانے والے ادارے دن رات مصروف ہیں جبکہ ماسک سمیت طبی آلات اور دیگر ضروریات زندگی کی ترسیل کےلیے محکمہ ڈاک کا عملہ بھی ہمہ وقت مصروف عمل ہے۔

حفاظتی اقدامات کے پیش نظر چینی حکومت نے تیس جنوری کو اختتام پذیر ہونے والی جشن بہار کی تعطیلات میں تین روز تک کی توسیع کردی ہے جبکہ تعلیمی اداروں میں اسپرنگ سمسٹر کے آغاز کو عارضی طور پر مؤخر کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے محکمہ تعلیم بعد میں بہار سمسٹر کے آغاز سے متعلق شیڈول کا اعلان کرے گا۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے ناول کورونا وائرس کے خلاف فتح کو ''عوامی کردار'' سے مشروط کیا ہے جبکہ ان کی جانب سے محکمہ صحت سمیت تمام متعلقہ اداروں کو واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ مفاد عامہ کو ترجیح دی جائے اور وائرس کی روک تھام اور اس پر قابو پانے کے عمل میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔

ووہان شہر میں پاکستانی طلبا سمیت دیگر کمیونٹی کی تعداد پانچ سو زائد ہے۔ اکثریتی طلبا تعطیلات کے باعث پاکستان میں اپنے آبائی علاقوں میں موجود ہیں اور جو اس وقت شہر میں موجود ہیں اُن کے حوصلے بھی بلند ہیں۔ پاکستانی سفارتخانہ ووہان شہر میں جامعات کی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور یہ امر باعث اطمینان ہے کہ چین میں اب تک کسی بھی پاکستانی فرد کے ناول کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔

چین میں قیام پذیر سبھی پاکستانیوں کے دل اپنے چینی بہن بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور سب دعاگو ہیں کہ صورتحال میں بہتری آئے اور معمولات زندگی بحال ہوسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں