سیاح آئے کچرا لائے
پاکستان میں اس وقت سیاحت کا شعبہ تقریباً مکمل طور پر مقامی سیاحوں کی تعداد پر مشتمل ہے۔
جونز فیملی کا تعلق امریکا کی ریاست مزوری کے شہر سینٹ لوئس سے ہے۔ جونز فیملی مسٹر جونز، ان کی مسز ایمی اور دو بیٹوں ایڈن جس کو وہ اے مین اور بیٹن جسے وہ بی مین کہتے ہیں پہ مشتمل ہے۔ اس فیملی کا عزم ہے دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک کی سیرکرنا اور اس سیرکو جونز فیملی کے یو ٹیوب چینل ''ویئر دا جونز'' کے ذریعے دنیا کے لوگوں سے شیئرکرنا ہے۔
جونز فیملی اب تک کئی ممالک گھوم چکی ہے مثلاً میکسیکو، آئس لینڈ، انگلینڈ، انڈونیشیا، ملائیشیا، بھارت، نیپال وغیرہ۔ جونز فیملی پچھلے سال اگست کے آخر میں پاکستان پہنچی۔ پاکستان میں اپنے چھ ہفتوں کے قیام کے دوران یہ لوگ لاہور، اسلام آباد، گلگت، اسکردو، پشاور سے لے کر خنجراب پاس تک گئے، اس کے علاوہ انھوں نے کے ٹو بیس کیمپ تک بھی ٹریکنگ کی۔ پاکستان آنا جونز فیملی کے لیے مبارک ثابت ہوا، ان کے یو ٹیوب چینل کو ہزاروں نئے سبسکرائبرز حاصل ہوئے اور پاکستان کے ان کے زیادہ تر ویڈیوز کو لاکھوں ویوز ملے، پاکستان کا ان کا پہلا ویڈیو ایک ملین ویوز کے قریب پہنچ چکا ہے جو ان کا پہلا ملین ویوز ویڈیو ہو گا۔
جونز فیملی کو پاکستان کے قدرتی حسن، یہاں کے شہروں کی تاریخی، ثقافتی اور تعمیراتی خوبصورتی، پاکستانی کھانوں کے ذائقے اور ان کی نہ ختم ہونے والی ورائٹی اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے لوگوں کی مہمان نوازی نے اپنا گرویدہ کر دیا۔ جونز فیملی اپنے ساتھ پاکستان کی بے شمار خوشگوار یادیں لے کر واپس گئی اور ان کا جلد پاکستان واپس آنے کا بھی پلان ہے۔
یو ٹیوب کے کئی اور غیر ملکی وی لاگرز کی طرح جو پاکستان آئے اور پاکستانیوں کے معترف ہو کر گئے مگر ساتھ ہی ایک بڑے مسئلے پہ پریشان بھی ہوئے جونز فیملی کو بھی ان وی لاگرز کی طرح پاکستان میں ہر سو پھیلے کوڑے کے انبار در انباروں نے افسردہ کر دیا۔ جونز فیملی کو سیف الملوک جھیل سے لے کر کے ٹو کے بیس کیمپ تک کے کئی کلو میٹر ٹریک پہ ، راولپنڈی سے لاہور تک کے ٹرین کے سفر میں ہر جگہ اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر پڑے نظر آئے جن میں سب سے نمایاں ظاہر ہے کہ پاکستانیوں کی فیوریٹ پلاسٹک کی تھیلیاں تھیں۔
تقریباً چار دہائیوں کے بعد اب پاکستان ایک بار پھر بین الاقوامی سیاحت کے ایک نئے دور کے آغاز پہ کھڑا ہے۔ پاکستان میں غیر ممالک سے آنے والے افراد کی تعداد 2015ء میں 5 لاکھ 63 ہزار تھی جو 2018ء میں بڑھ کر انیس لاکھ ہو گئی۔ البتہ ان 19 لاکھ میں بڑی تعداد بیرون ملک پاکستانیوں کی تھی۔ 2018ء میں بیرون ملک سے آنے والے لوگوں میں سے 17823 غیر ملکی ٹورسٹ ویزا پہ پاکستان آئے، 2017ء میں یہ تعداد 10476 تھی۔
چنانچہ اگر آپ باقاعدہ ٹورسٹ ویزا پہ پاکستان آنے والے غیر ملکیوں کی تعداد کو دیکھیں تو یہ ابھی محض آغاز ہے۔ ویسے اس تعداد میں موجودہ حکومت کی طرف سے 175 ممالک کے شہریوں کے لیے پاکستان آن لائن ویزا سسٹم جب کہ 50 ممالک کے شہریوں کے لیے ٹورسٹ کیٹیگری میں آن آرائیول ویزا سہولت کے اجرا کے بعد 2020ء اور آیندہ کے سالوں میں نمایاں اضافے کی امید ہے۔ کسی ملک کی ترقی میں سیاحت اہم کردار ادا کر سکتی ہے تاہم یہ ترقی بین الاقوامی سیاحت سے ہوتی ہے جو ملک میں زرمبادلہ لاتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت سیاحت کا شعبہ تقریباً مکمل طور پر مقامی سیاحوں کی تعداد پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں ہر سال سفر کرنے والے مقامی سیاحوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے جو مختصر دورانیے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر کا رخ کرتے ہیں خصوصاً مئی تا اگست کے مہینوں میں۔ ملک میں مقامی سیاحت سے ملک کی معیشت کو اس بڑے پیمانے پہ فوائد حاصل نہیں ہوتے کہ جتنے ملک میں بین الاقوامی سیاحت سے ہوتے ہیں۔
گوکہ یہ درست ہے کہ مقامی سیاحت سے ٹرانسپورٹ، ہوٹل اور ریسٹورنٹ اور رینٹل سیکٹر کے کچھ شعبوں کو کام اور روزگار ملتا ہے مگر بدقسمتی سے کیونکہ پاکستان میں ٹیکسوں کی ادائیگی کا رجحان ہے نہ ٹیکسوں کی وصولی کا جدید اور کرپشن فری نظام موجود ہے۔ ہر گروہ اپنی جگہ قانون سے بالاتر مافیا بنا ہوا ہے ، لہٰذا ان سیکٹرز میں مقامی سیاحت کے نتیجے میں آنے والا پیسہ آگے ملکی خزانے تک نہیں پہنچ پاتا۔
غیر ملکی سیاحوں کے لائے گئے زرمبادلہ کا بڑا حصہ کرنسی ایکسچینج مافیا کی سرمائے کی غیر قانونی منتقلی کے دھندے میں غائب ہو جاتا ہے۔ مقامی سیاحت ملک کی معیشت پہ تو اثرانداز ہو نہ ہو ملک کے قدرتی ماحول، صاف پانی کے قدرتی ذخائر، انسانی صحت اور پانی اور سیوریج کی شہری سہولتوں پہ ضرور اثرانداز ہو رہی ہے اور وہ بھی بڑے بھیانک انداز اور وسیع پیمانے پہ۔
پاکستان میں سیاح خصوصاً مقامی سیاح جنھیں اپنے گھروں، اسکولوں اور مدرسوں تک کہیں بھی صاف ستھرائی اور بنیادی سماجی و شہری آداب کی تربیت نہیں دی گئی ملکی خزانے کے لیے اتنا پیسہ تو نہیں لاتے جتنا یہ سیاح جہاں جہاں بھی جاتے ہیں کوڑا کرکٹ پھیلاتے ہیں۔ ملک بھر میں عموماً اور ملک کے سیاحتی علاقوں میں بڑے پیمانے پہ پھیلنے والے کوڑے کے تین پہلو ہیں۔ نمبر ایک سیاح خصوصاً مقامی سیاح جن کے لیے سیاحت کا واحد مقصد کسی سیاحتی مقام پر پہنچ کر پیٹ بھر کر کھانا کھانا ہوتا ہے پلاسٹک کی تھیلیاں، کھانے پینے کی بچی کچھی اشیا، چھلکے، مختلف چیزوں کے پیکس اور بوتلیں وغیرہ ہر طرف پھینکتے ہیں۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مرکزی اور علاقائی اداروں کو مختلف این جی اوز کے ساتھ مل کر کپڑے کے تھیلے سیاحوں میں بانٹنے ہوں گے تا کہ شہری ذمے داریوں سے مکمل بے حس یہ لوگ پلاسٹک کی تھیلیاں کم سے کم استعمال کریں۔ جگہ جگہ کوڑا پھینکنے پہ بھاری اور فوری جرمانے عائد کرنے ہوں گے اور ساتھ ہی اس بارے میں میڈیا کے ساتھ مل کر آگہی مہم چلانی ہو گی۔ نمبر دو یہ کہ سیاحتی علاقوں میں کچرے کو اٹھانے کا جدید نظام موجود نہیں۔
ہوٹلوں، ریسٹورنٹس، گیسٹ ہاؤسز، مکانوں، دکانوں، ورکشاپوں سے روزانہ کی بنیاد پہ کمرشل فضلے کے ساتھ ساتھ انسانی فضلہ بھی ان علاقوں کی تازہ پانی کی جھیلوں، ندیوں اور دریاؤں میں شامل ہو رہا ہے۔ جب کہ کچرا اٹھانے کا موثر نظام نہ ہونے کی بنا پہ کچرے کے ڈھیر پھیلتے جا رہے ہیں چنانچہ سیاحتی علاقوں میں کچرا اٹھانے کا جدید نظام جلد از جلد لانا ہو گا ساتھ ہی دریاؤں اور جھیلوں میں گرنے والے آلودہ پانی کے لیے بڑی تعداد میں واٹر فلٹر پلانٹس لگانے اور چلانے ہوں گے۔
نمبر تین جمع ہونے والے کچرے اور انسانی فضلے کو تلف کرنے کے لیے سب سے بہتر ہے کہ ان علاقوں میں نجی کمپنیوں کو WTE یعنی ویسٹ ٹو انرجی کے جدید ترین پلانٹس لگانے کی ترغیب دی جائے کہ وہ خود کچرا اور فضلہ جمع کر کے اس سے بجلی اور گیس پیدا کریں اور کمرشل بنیادوں پر فروخت کریں۔ ایک اور اہم معاملہ سیاحتی علاقوں میں کمرشل تعمیرات کے بے ہنگم پھیلاؤ کا ہے کہ جسے قدرتی ماحول کے حساب سے کنٹرول نہ کیا گیا تو ہمارا ہر سیاحتی علاقہ ایک اور مری بن جائے گا۔ لیجیے جناب! یہ کالم تو ختم ہوا مگر خاطر جمع رکھیے کہ نہ ہی سیاحت کو ''سے حا ات'' کہنے والے ہمارے ٹی وی نیوز رپورٹرز اور ٹی وی اینکرز اور نہ ہی ہمارے باتونی حکمران اس کالم کا کوئی نوٹس لیں گے۔
ہو گا یہ کہ آنے والے سالوں میں پاکستان آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا مگر ہر طرف بڑھتے پھیلتے کوڑے کرکٹ سے گھبرا کر یہ غیر ملکی سیاح جلد ہی پاکستان آنا بند کر دیں گے، غیر ملکی میڈیا میں پاکستانی سیاحتی علاقوں میں کچرے اور گندگی کے ڈھیروں پہ نیوز رپورٹس چلیں اور چھپیں گی پھر سیاحت کو ''سے حا ات'' کہنے والا ہمارا میڈیا اور ہمارے باتونی حکمران اس معاملے کا ''نوٹس'' لیں گے مگر تب تک ہمارے ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی ہمیں دیر ہو چکی ہو گی۔