تنگدستی اور تندرستی
میں نے مزید سنگساری سے بچنے کے لیے ڈاکٹر زاہد حسین سے گردے میں سے پتھر نکلوایا تھا۔
ابھی سوا سال قبل ہی تو میں نے مزید سنگساری سے بچنے کے لیے ڈاکٹر زاہد حسین سے گردے میں سے پتھر نکلوایا تھا لیکن نارمل سائز سے بڑھے ہوئے پروسٹریٹ' غذائوں میں ملاوٹ اور پانی کی آلودگی نے اور پھر گناہوں کی کچھ سزا اسی جہاں میں دے دینے کے فیصلے کے تحت قدرت نے چند مزید کنکریاں برسا دیں، اگرچہ میں نے فریاد بھی کی تھی کہ؎
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
بہرحال پروسٹریٹ اور کنکریوں سے بہت بڑی سزائیں اور آزمائشیں تو ہم روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں جن میں سے ایک کا تدارک کرنے کی PTI نامی سیاسی پارٹی کے بانی عمران خاں کو خدا نے توفیق دے رکھی ہے اور جس کا شروع کیا ہوا کینسر اسپتال ابھی تک معیار اور اصولوں پر کاربند ہے۔ ملک کی سیاست میں چونکہ اب منافقت، کرپشن اور وراثت داخل ہو کر اسے تجارت کا درجہ دے چکی ہے اس لیے تحریک انصاف اگر سیاست کے اس گند کو بھی کینسر سمجھ کر صاف کرنے میں کامیاب ہوئی تو ملکی بقا اور سلامتی کا امکان ہو سکتا ہے ورنہ بہت سی قومیں، سلطنتیں اور بادشاہتیں ہو گزری ہیں جن کا ذکر بھی اب داستانوں تک میں نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو پڑھ کر کراہت آتی ہے۔ یہ سبق خود PTI کے لیے بھی ہے۔
آمدم برسر مطلب، معروف فزیشن پروفیسر ڈاکٹر نصرت اللہ چوہدری نے مشورہ دیا کہ پروسٹریٹ کو پال پوس کر بڑا ہونے کا موقع دیا جائے تو یہ کھیل کے میدان کی بجائے شوکت خانم اسپتال کا رستہ بھی دکھا سکتا ہے اس لیے پروفیسر ڈاکٹر خالد جاوید ربانی سے رجوع کرو۔ ڈاکٹر ربانی نے سرجری کا مشورہ دے کر میرے جنم دن کی تاریخ دی لیکن میری ہی درخواست پر اس میں چند روز التوا کے ساتھ سرجری کی تاریخ طے کی اور تسلی دی کہ ''خدا نے فضل کیا اور میری مدد کی تو یہ رخصتی کی تاریخ نہیں ہو گی۔ آپ خود بھی استغفار کرو اور عزیزوں سے دعائے خیر کی درخواست کرو۔ امید ہے تمہارے اتوار کے کالم کا ناغہ بھی نہیں ہو گا۔''
مجھے انسانی جسم میں پتھروں کی موجودگی کے علم سے بہت سال قبل شاعر انقلاب جوشؔ ملیح آبادی کی وقت لے کر اپنے ذاتی کام سے اپنے گھر آمد یاد آ گئی۔ جوشؔ صاحب مولانا مودودی کے بے تکلف دوست تھے۔ مولانا نے ایک بار جوشؔ صاحب کو بتایا کہ انھیں گردے میں پتھری ہو گئی ہے۔ جوشؔ صاحب نے ہنستے ہوئے جو کچھ کہا میرا قلم وہ الفاظ لکھنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ ان دوستوں کی گفتگو میں میرا کیا دخل لیکن سرجری کے نتیجے میں جو میں اندر سے سنگسار ہو رہا تھا بچ نکلا ہوں لیکن ایک اور ماہر سرجن ڈاکٹر محمود جو اس وقت شیخ زاید اسپتال کے چیئرمین تھے یاد آئے ہیں جن کی میڈیکل پروفیشن کے لیے کئی خدمات ہیں۔ وہ منسٹر ہیلتھ بھی ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی کی Monopaly ختم کرنے کے لیے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز بھی قائم کی جن میں ان کی معاونت اور مخالفت میں خود ڈاکٹر ہی پیش پیش تھے۔ جہاں لوگ ان کی سرجری میں مہارت کے مداح تھے وہیں ان میں دوست اور مخالف بنانے کی صلاحیت بھی بے پناہ تھی۔ ایک بار میرے والد بزرگوار نے اپنا ایک آپریشن کروانے سے انکار کر دیا تو میں نے ڈاکٹر محمود سے پوچھا کہ اگر یہی اپریشن کروانے کی ضرورت آپ کے والد کو پڑتی تو انھوں نے کہا کہ میں ہر بصورت ان کا یہ اپریشن کر دیتا اس پر میرے والد فوراً تیار ہو گئے۔
اس ہفتے ڈاکٹروں سے واسطہ پڑا ہے تو ایک اور ماہر سرجن ڈاکٹر کا ذکر اس لیے ضروری سمجھا کہ اگرچہ ان سے اپائنٹمنٹ لینے والوں کو مہینوں بعد کی تاریخ ملتی ہے اور تب نہ وہ مجھے جانتے تھے نہ میں انھیں لیکن میرے پرابلم کے حل کے لیے انھوں نے خود اور فوری آفر دی تو تکلیف مستقل اور دو دن میں رفع ہو گئی۔ واقعہ یوں ہے کہ بارہ سال قبل میرا امریکا جانا ہوا تو درجنوں ہوائی اڈوں پر چند روز میں سفر کرتے ہوئے ایک بھاری ہینڈ بیگ اٹھائے دور اور دیر تک تیز تیز چلنا پڑا۔ جس کا نتیجہ اسپورٹس کے دوران کلائی کا مستقل درد بن گیا جو کسی دوا سے ٹھیک نہ ہوا تو میں نے ڈاکٹر نصرت چوہدری کے کمرے میں اس کی تفصیل بیان کر کے علاج پوچھا۔ چند منٹ بعد ڈاکٹر نصرت کے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اس نے بات سنی اور دوسری طرف کا فون ہولڈ کروا کے مجھ سے کہا کہ ''میرے ایک کولیگ نے مجھ سے پوچھا ہے کہ اگر تمہارا مریض دوست پسند کرے تو اسے فلاں سٹیرائڈ کا انجکشن دے کر میرے پاس بھیج دو کیونکہ تمہارے پاس Tennis Elbow کا علاج کرنے کی دوا نہیں ہے اور ابھی ایک شخص جو میری تمہاری بات سن رہا تھا اور میرے کمرے سے نکل کر برابر والے کمرے میں گیا ہے ڈاکٹر عامر عزیز تھا''۔ اس روز انجکشن لگنے کے بعد سے آج تک مجھے کلائی کا درد نہیں ہوا۔ میں نے ڈاکٹر عامر سے Steroid کا پوچھا تو انھوں نے کہا تھا۔ ''یہ معمول کا علاج نہیں لیکن اناڑی ڈاکٹر تجویز کرے تو زہر قاتل' ماہر اسے استعمال کرے تو اس میں شفا ہے''
اسپتال کوئی بھی ہو اپنی ایک الگ دنیا رکھتا ہے، کوئی یہاں مرنے کا خوف لیے اور کوئی جلد از جلد بیماری پر قابو اور شفا پانے کی امید کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ یہیں پر ایک تیسرا مریض ایک نئی زندگی کو جنم دینے کی خواہش کے ساتھ خوشیاں سمیٹ کر لے جانے کے لیے لایا جاتا ہے۔ کسی وارڈ یا کمرے میں بھاگم دوڑ دیکھی جا سکتی ہے اور کسی میں بوجھل قدموں کی آمد و رفت اور افسردہ چہرے، تیسری جگہ پھولوں کے گلدستے اور مٹھائی کے ڈبے جاتے نظر آئیں گے۔ اسپتال ایک عارضی قیام گاہ یعنی دنیا کا نقشہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک میں مریض لاوارث اور ادویات سے محروم جب کہ دوسری جگہ مہنگی اور متبادل ادویات اور خوراک و مشروبات کی بھر مار ملے گی جہاں نرسیں بار بار اپنی رسٹ واچ دیکھ ڈاکٹری ہدایات پر عمل پیرا ملیں گی۔
بیماری اور ناسازی طبع کے بارے میں ایک اور بات یاد آئی۔ ہمارے ایک بزرگ اپنے نوجوان بیٹے کو نصیحت کرتے سنے گئے۔ کہہ رہے تھے کہ دوستوں کی محفل میں دو باتوں کا تکرار کے ساتھ ذکر کرنے سے احتراز کرو۔ ایک مالی تنگی کا، دوسرے اپنی بیماری کا۔ اگر بار بار مالی پریشانی کا ذکر کرو گے تو کئی دوست ملنا کم یا بند کر دیں گے یا ملاقات نہ ہونے کا کوئی عذر گھڑ لیں گے۔ دراصل وہ اس خدشے کا شکار ہونے لگیں گے کہ موصوف دوست ملاقات پر اب کہیں ان سے قرض ہی نہ مانگ بیٹھے۔ دوسرے یہ کہ اگر آپ احباب میں بیٹھ کر کثرت سے اپنی بیماری ہی کا رونا روتے پائے جائیں گے تو دوسرے آپ سے کنی کترانے لگیں گے اور ملنے سے اجتناب کریں گے کہ ''یہ کیا بیماری ہم سے ہر وقت چمٹی رہتی ہے اور محفل میں بیٹھے دوستوں کا مزہ کرکرا کرنے آ جاتی ہے''۔ تو اے دوستو میں فلتھی رِچ نہیں کہ کمینہ ہو جائوں اور اتنا بدحال بھی نہیں کہ ذلیل سمجھا جائوں اور بفضل خدا بیمار نہیں رہا صحت مند ہوں بلکہ آپ کی خوش حالی پر خوش اور آپ کی جسمانی و دماغی صحت کے لیے ہر وقت دعا گو ہوں۔ اور ڈاکٹر آصف بھی اب مجھے مریض نہیں دوست سمجھتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ؎
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے