یہ انتہائی گھسی پٹی بات ہے کہ عظیم شاعر ادیب اب پیدا نہیں ہو رہے

ایک ڈی سی کے منصب کا تقاضا راجندر سنگھ بیدی یا قدرت اللہ شہاب بننا نہیں، اچھا منتظم بننا ہے


عبید اللہ عابد February 02, 2020
ممتاز محقق ،نقاد، مترجم، مزاح نگار، اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے گفتگو کا احوال فوٹو : ظفراسلم راجہ

60سے زائد تحقیقی وتنقیدی مقالات، اردو، پنجابی اور انگریزی میں تحقیق و تنقید و تراجم اور نثری تخلیقات کی42 کتابوں اور 26 شعری مجموعوں کے مصنف ڈاکٹرانعام الحق جاوید 6جون1949ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو، ایم اے پنجابی امتیازی حیثیت (گولڈمیڈل) سے پاس کیا۔

پنجاب یونیورسٹی ہی سے پنجابی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں چیئرمین شعبہ پاکستانی زبانیں اور ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔آپ نے اوپن یونیورسٹی میں'ایم فل' اور 'پی ایچ ڈی' کے لئے پاکستانی زبانوں اور ادب جیسے موضوعات کا اجراء کیا جو قومی یکجہتی اور لسانی ہم آہنگی کے فروغ کے حوالے سے منفرد نوعیت کے اہم پروگرام ہیں۔

ملازمت کا باقاعدہ آغاز1981ء میں اکامی ادبیات پاکستان اسلام آباد میں بطور ریسرچ آفیسر کیا،1984ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے منسلک ہوگئے جہاں ماہانہ جریدے'اخبار اردو' کے مدیر اور شعبہ دارالتصنیف کے انچارج کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ جون1997ء علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے منسلک ہوئے، ایک نجی یونیورسٹی میں بطور پرو وائس چانسلر بھی کام کرتے رہے۔ 31 جنوری 2014ء کو 'نیشنل بک فاؤنڈیشن' سے بطور مینیجنگ ڈائریکٹر منسلک ہوئے اور دسمبر2019 ء کے اواخر میں اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے۔

پاکستان ٹیلی وژن کے اردو اور پنجابی کے سینکڑوں ادبی پروگراموں اور مشاعروں میں بطور کمپئیر، شاعر اور سکالر شرکت کی۔ کئی برس تک چلنے والے پنجابی ادبی پروگرام ''سانجاں'' کے علاوہ اڑھائی سال تک ''سخن رنگ'' کے نام سے نئی کتابوں کے تعارف پر مبنی ہفتہ وار ادبی پروگرام کیا۔

ڈاکٹرانعام الحق جاوید کو 2009ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطاکیاگیا۔ وہ اپنی علمی وادبی خدمات کی بدولت متعدد قومی و عالمی ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔ بحیثیت سکالر اور شاعر ڈیڑھ درجن ممالک کے 60سے زائد دورے کئے اور پاکستان کی نمائندگی کی۔

روزنامہ ایکسپریس نے ان سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔

انھوں نے جنگل میںگم شدہ 'نیشنل بک فاؤنڈیشن' کو ترقی اور خودکفالت کی ایسی شاہراہ پر ڈالا کہ دنیا اش اش کراُٹھی۔ یہ کامیابی کی ایک شاندار داستان ہے، اس میں ان بہت سوں کے لئے سبق ہیں جو سرکاری اداروں کو ہمیشہ سرکاری ادارہ سمجھ کر کام کے بجائے آرام کرتے ہیں۔ ڈاکٹرانعام الحق جاوید کی زندگی میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ موت کے منہ سے واپس آئے، ایک بار خرکاروں کے ہتھے چڑھنے سے بال بال بچے، دوسری بار جب کھجور کے بلند ترین درخت پر ''چاڑھا'' بن کر چڑھے ہوئے تھے اور تیسری بار جب اللہ تعالیٰ نے انھیں اونٹ کے کینہ کا شکار ہونے سے بچالیا۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے ان سے بہت سے کام لینے تھے، وہ کہتے ہیں:'' مجھے دنیا میں اس لئے بھیجاگیا تھا کہ میں اس میں کچھ اچھی تبدیلیاں لاؤں اور جہاں کہیں کمی بیشی نظرآئے، اسے درست کروں''۔

وہ بنیادی طور پر فوج میں کمیشن حاصل کرکے کمانڈو بننا چاہتے تھے لیکن یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اس کے بعد انھوں نے فیصل آباد سے ڈیرہ اسماعیل خان کے راستوں کی خوب خاک چھانی، وہ کچھ اور بنناچاہتے تھے لیکن قسمت نے انھیں کچھ اور ہی بنادیا۔کہتے ہیں:

٭ پڑھنا نہیں چاہتا تھا

'' زندگی کا راستہ سیدھا نہیں ہے، آپ تھوڑی دیر چلتے ہیں تو احساس ہوتاہے کہ آپ درست جانب نہیں جا رہے، پھر آپ واپس نہیں ہوتے لیکن راستہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا، بی اے کے بعد کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آگے کیا کروں؟ والدصاحب سے وعدہ کیا تھا کہ ایم اے کروں گا، وہ مجھے یونیورسٹی میں داخل کرانا چاہتے تھے لیکن میں یونیورسٹی میں نہیں پڑھناچاہتا تھا۔

کیوں؟

'' والدصاحب کے سوا پورا خاندان فیصل آباد شہر میں آڑھت وغیرہ کا کا روبار کرتاہے۔ ہم غلام محمد آباد کالونی کی کانگریسی گلی میں رہتے تھے، ساتھ والی گلی میں نصرت فتح علی خان اور لسوڑی شاہ کا گھر تھا، حبیب جالب بھی ادھر ہی تھے۔ والد صاحب ملٹری پولیس میں تھے اور ڈیرہ اسماعیل خان میں تھے، وہ انتہائی محنتی، ذہین اور اصول پرست آدمی تھے چنانچہ ہر اصول پرست آدمی کی طرح سخت گیر تھے، میں بھی انہی کے ساتھ تھا۔ میرا پڑھنے کے بجائے کاروبار کی طرف رحجان تھا۔گرمیوں کی چھٹیوں میں، فیصل آباد آتا تو پان یا برف کے کسی کھوکھے پر بیٹھ جاتا، ان کے ساتھ مل کر کام کرتا تھا، وہ مجھے بھی کچھ پیسے دے دیتے تھے۔ میٹرک میں تعلیم کو خیر باد کہنے کا سوچا کیونکہ خاندان کے دیگر لوگ بڑی آزادی کے ساتھ اچھی زندگی گزار رہے تھے، ایسے میںپڑھنا ایک عذاب لگتاتھا''۔

'' ڈی آئی خان میں سائیکل کی ایک بڑی دکان خریدنا چاہتا تھا، میرے پاس کچھ پیسے تھے لیکن والد صاحب نے کان سے پکڑا اور فرسٹ ائیر میں داخل کرا دیا۔ ایف اے ہوا تو میں نے کہا کہ اب بس! لیکن والدصاحب نے پھر پکڑا اور تھرڈ ائیر میں داخل کرادیا۔ 1968ء میں بی اے کرلیا۔ بہن بھائیوں میں بڑا تھا، سوچاکہ ملازمت کرکے کچھ کماتاہوں۔

ڈی آئی خان میںایک پنسار والے سے اچھی دوستی تھی، بڑی دکان تھی، اچھی خاصی کمائی ہوتی تھی۔ اس وقت شہر میں دو ہی دکانیں تھیں جن میں سے ایک یہ تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکیموں کی دوائیوں کے سربند پیکٹ نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے اور سیون اپ ابھی مارکیٹ میں نہیں آئی تھی چنانچہ عید اور بالخصوص بڑی عید کے موقع پر پنسار کی اس دکان سے اجوائن کی تقریباً 9بوریاں اور کالے نمک اور سونف کے تین تین توڑے باآسانی بِک جاتے تھے کیونکہ کھا کھا کر لوگوں کے پیٹ بری طرح خراب ہوئے ہوتے تھے۔ وہ دکان چھوڑنے لگا تو میں نے اس سے ساڑھے چار لاکھ روپے میں سودا کرلیا ۔ میں زندگی کوایک نیا موڑ دینا چاہتا تھا تاہم والد صاحب کی وجہ سے ایسا نہ کرسکا''۔

٭زندگی میں نیاموڑ

پھر ایم اے اردو کرنے کاسوچا لیکن خیال آیا کہ اس کی بنیاد پر نوکری نہیں ملے گی۔ اس وقت پروفیسر کی ساڑھے تین سو روپے تنخواہ ہوتی تھی۔ میری انگلش بہت اچھی تھی چنانچہ ایم اے انگلش کرنے کا خیال پیدا ہوگیا۔اسی اثنا میں ہم راولپنڈی آگئے۔ ایک سال تک پڑھا لیکن پھر چھوڑدیا۔ اب والد صاحب نے کہا کہ ایم اے اسلامیات کرلو یا ایم اے تاریخ۔ تاریخ پڑھنے کا مجھے بھی شوق تھا ، کچھ عرصہ پڑھا لیکن پھر اسے بھی چھوڑ دیا۔ پھر ایم اے اسلامیات کا سوچا لیکن وہ بھی نہ ہوا۔ چار سال اسی کشمکش میںگزر گئے کہ کدھر جاؤں۔

سٹینوگرافر اور اسی طرح کے کچھ کورسز بھی کرچکا تھا۔ پھر اچانک ایم اے اردو کرنے کا سوچا اور1974 ء میںپرائیویٹ طور پر ہی کرلیا۔ صرف ایک نمبر سے میری فرسٹ ڈویژن رہ گئی، ایم اے اردو کرنے سے انسان ادب کا ان پڑھ طالب علم بننے کے بجائے پڑھا لکھا طالب علم بن جاتاہے۔ بعدازاں لاہور چلاگیا۔ وہاں عطاالحق قاسمی، احمد ندیم قاسمی،ڈاکٹر وحیدقریشی، خواجہ محمد زکریا سمیت بہت سی شخصیات سے تعلقات بن گئے۔ زندگی میں دوسرا اہم موڑ تب آیا جب ایک دوست قائم نقوی کی دیکھا دیکھی ایم اے پنجابی کا امتحان دیدیا اورپہلی پوزیشن اور گولڈ میڈل حاصل کرلیا''۔

٭نیشنل بک فاؤنڈیشن ... کامیابی کی کہانی

''پہلے نیشنل بک فاؤنڈیشن (این بی ایف) ایک گم شدہ ادارہ تھا، لیکن اب ساڑھے32 کروڑ روپے سالانہ سیل اورچھ، سات کروڑ روپے منافع بھی مل جاتا ہے۔31جنوری 2014ء کو این بی ایف سے وابستہ ہوا ۔ اپنی تقرری سے پہلے بہت کم این بی ایف کے دفتر میں آیاتھا، اس سے پہلے یہ دفتر ایسا تھا کہ کوئی شخص ایک بار آجائے تو اسے دوبارہ پتہ پوچھنا پڑتا تھا کیونکہ یہ درختوں کے درمیان میں چھپا ہوا تھا۔ تقرری کے چار ماہ گزرنے کے بعد ہی مجھے پتہ چل گیا کہ یہاں کام کرنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ فاؤنڈیشن میں پہلے سال میں سات، آٹھ کتابیں ہی شائع ہوتی تھیں، تاہم میں نے جاتے ہی چار کُتب ڈرتے ڈرتے ایک ، ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیں۔ اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں اس قدر تیزی سے آگے بڑھوں گا۔

دراصل ہوا یوں کہ ایک روز میں کتابوں کی ایک دکان میں گیا، اپنی شائع کردہ چارکتابوں میں سے ایک کتاب کا پوچھا، اس نے بتایا کہ دس نسخے منگوائے تھے، اسی روزکوئی فرد آیا، اس نے ایک ہزار روپے کا نوٹ نکالا اور سب کے سب خرید لیے۔ انہی دنوں کراچی جانے کا اتفاق ہوا، کراچی ائیرپورٹ پر اترتے ہی سیدھا این بی ایف کی دکان جو ائیرپورٹ کے اندر ہی موجود ہے، پرگیا، پتہ چلا کہ وہ کتاب یہاں بھی ختم ہوچکی ہے حالانکہ کتابیں شائع ہوئے ایک یا ڈیڑھ ماہ ہی گزراتھا۔ میں نے اسلام آباد واپسی پر یہ کتابیں مزید دو، دو ہزار کی تعداد میں شائع کروائیں۔ یہ ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اب میں نے سوچاکہ ہمارے معاشرے میں لوگ کتاب خریدتے ہیں۔ اس کے بعد میں دلیر ہوتا چلا گیا''۔

٭پہلا خطبہ

''آج جب میں این بی ایف سے فارغ ہوا ہوں تو اس کے صحن میں لگی ٹف ٹائلوں کے علاوہ سب کچھ بدلاجا چکا ہے، میں نے جب ذمہ داری سنبھالی تو اپنے سارے سٹاف کے سامنے ایک خطبہ دیا اورکہا کہ میں کرپشن کروں گا نہ کرنے دوں گا، مجھے قانون اور قاعدے کے مطابق چلناہے۔ میں نے انھیں اپنے استادوں شفیق الرحمن اور ڈاکٹر وحید قریشی کے واقعات سنائے۔ کتابیں چھاپنے والے کاروں کی چابیاں لے کر ڈاکٹر وحیدقریشی کے پاس آتے تھے، انھیں کہتے تھے کہ آپ کے لئے کار نیچے کھڑی ہے، آپ ہمیں کام دیں، آپ ہمیں نوازتے جائیں اور چلتے جائیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ یہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ پروفیسری کرنے لگے''۔

''شفیق الرحمن جب 'اکادمی ادبیات' سے ریٹائر ہو رہے تھے، میں ان کے ساتھ کام کرچکا تھا، ان کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔ مجھے پتہ چلا کہ آج 'اکادمی ادبیات' میں ان کا آخری دن ہے، چنانچہ میں ان سے ملنے چلاگیا۔ ان کی بیوی بھی کالج میں پروفیسر تھیں، وہ بھی اُس روز ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ جب میں ان سے ملنے پہنچا تو شفیق صاحب کار کے پاس کھڑے تھے، بس! گھر جانے کے لئے تیار کھڑے تھے جبکہ ان کی اہلیہ دفتر کے اندر قائم شو روم میں تھیں، وہاں کوئی کتاب دیکھ رہی تھیں۔ شو روم کے لڑکے نے ان کی کتاب میں دلچسپی دیکھتے ہوئے کہا کہ میڈم ! آپ یہ کتاب لے جائیں (مفت میں)۔ جب وہ یہ کتاب ہاتھ میں پکڑے نیچے کار کے پاس پہنچیں تو شفیق صاحب نے کتاب کے متعلق سوال کیا۔ انھوں نے بتایا کہ یہ کتاب شو روم والے لڑکے نے تحفتاً دی ہے، شفیق الرحمٰن کہنے لگے:''نہیں، نہیں، اسے واپس کرکے آئیں''۔ انھوں اپنی اہلیہ کو مفت میں وہ کتاب بھی نہ لینے دی جو انہی کی چئیرمین شپ میں شائع ہوئی تھی۔ میں نے سٹاف کو بتایا کہ آپ نے بھی اسی کردار کو اختیارکرناہے''۔

٭شفیق الرحمن کا مزید تذکرہ

''اکادمی ادبیات میں دو سال کا عرصہ جو میں نے ان کے ہمراہ گزارا، اس دوران وقت کی پابندی اور اصول پرستی کے علاوہ بھی ان کی شخصیت کی کئی جہتیں سامنے آئیں۔10بجے کے قریب دفتر آتے اور بالعموم12بجے رخصت ہوجاتے۔ کہا جاتا تھا کہ ٹھیک ایک بجے کھانا میز پر لگ جاتا تھا۔ اگر ایک بج کر پانچ منٹ ہوجاتے اور کھانا نہ چناگیاہوتا تو میز چھوڑ کر کمرے میں چلے جاتے اور ڈنر کے وقت ہی ڈائننگ ٹیبل کا رخ کرتے۔ ایک مرتبہ بیگم صاحبہ( جو خود بھی ایک اہم کالج کی پرنسپل اور دوجرنیلوں کی بہن تھیں) اپنا بریف کیس ان کی کار میں رکھ کر کہنے لگیں'مجھے بھی ساتھ لے چلیں، راستے میں ڈراپ کردیجئے گا' یہ کہہ کر بیگم صاحبہ گھر کے اندر کسی کام سے گئیں جہاں ذرا دیر ہوگئی۔ شفیق الرحمن صاحب نے گھڑی پر اپنی روانگی کا وقت دیکھا جو بیت چکاتھا چنانچہ آہستہ آہستہ سے کار کا دروازہ کھول کر بریف کیس نیچے فرش پر رکھا اور ڈرائیور سے کہا گاڑی سٹارٹ کرو اور چلو... اور پھر واقعی چلے بھی گئے''۔

٭فیصل آباد کا ایک واقعہ

'' میں فیصل آباد میں اپنے ادارے کی بک شاپ پر گیا، وہاں یونیورسٹی کا ایک طالب علم ایک کتاب اٹھاتاہے، پھر اسے رکھ دیتاہے، اس کے بعد پھر اٹھا لیتا ہے۔ اس کی قیمت 400 روپے تھی اورکسی دوسرے ادارے کی شائع کردہ تھی۔ وہ ایک کشمکش میں پھنسا ہوا تھا کہ جیب میں موجود پیسوں سے یہ کتاب خریدے یا گھر کی کوئی ضرورت پوری کرے۔ اس نے پوچھا کہ یہ کتاب کتنی کم قیمت پر مل سکتی ہے؟ میں نے انھیں مشورہ دیاکہ وہ این بی ایف کے ریڈرزکلب کے ممبرز بن جائیں اور کتاب آدھی قیمت پر لے جائیں۔ اس واقعے کے بعد میں اس فیصلے پر اٹل ہوگیا کہ قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرنا۔ کم قیمت رکھنے کے سبب ہماری کتابیں زیادہ فروخت ہوجائیں گی۔ میں کتاب میلوں میں اپنے سٹال پر بیٹھ کر خریداروںکے تاثرات دیکھتا، طلبہ وطالبات کتاب دیکھتے، قیمت پر نظر ڈالتے اور فٹافٹ اپنی جیب سے پیسے نکالتے اور کتابیں خرید لیتے''۔

٭ خواب کچھ پورے، کچھ ادھورے

''میرے دور میں ساڑھے چھ سو کتابیں شائع ہوئیں، ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھی جس کا 30 فیصد حصہ میں نے خود نہ پڑھا ہو۔ بعض کتابیں ایسی ہیں جن پر70 فیصد محنت میری ہوتی تھی جبکہ اس کی پروڈکشن میں بھی میرا پورا کردار ہوتاتھا۔ میں جتنے اداروں میں بھی رہا، وہاں سے جلد گھر واپس نہیں آتا تھا، اگرکسی وجہ سے کبھی جلد آ بھی جاتا تھا تو شام کے قریب واپس چلاجاتا اور دیر تک کام کرتا رہتا، یا پھر کام گھر لے آتا تھا۔ این بی ایف میںآیا تو اپنا تخلیقی کام اور مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا،کسی تقریب میں نہیں جاتا تھا، ٹی وی وغیرہ پر بھی نہیں۔ سات آٹھ بجے دفتر سے واپس آتا، ایک ڈیڑھ گھنٹہ گھر والوں کے ساتھ گزارتا اور پھر فاؤنڈیشن ہی کے کاموں کے لئے نکل جاتا تھا۔ میں نے بڑی تعداد میں عام کتابیں شائع کیں، ٹیکسٹ بکس کا معیار بلند کیا،2014ء سے پہلے کتابوں کا معیار ایسا نہیں تھا ۔ اب کسی کتاب کی قیمت اس کے صفحات سے زیادہ نہ تھی۔ دوسری طرف ہم ہرکتاب سے50 فیصد منافع لیتے تھے لیکن جب کوئی فرد زیادہ کتابیں خریدتا تو اسے40 فیصد رعایت پر کتاب دی جاتی تھی ۔ اس پالیسی کے باوجود ہم تین چار کرورڑ روپے سالانہ کماتے تھے''۔

'' میں نے کوڑے کرکٹ سے بھرے سٹور کو تیرہ ماہ کی ریکارڈ مدت میں میوزیم بنایا، جس میں قرآن مجید کے ایسے اٹھارہ نسخے موجود ہیں جن کا ہدیہ ایک کروڑ روپے تک ہے لیکن میں نے وہ بطور عطیہ لئے۔ فاؤنڈیشن کے مرکزی دفتر میں ایک سٹون بک بنوائی، ایشیا کی سب سے بڑی سٹون بک۔آرٹسٹوں سے نہایت کم قیمت پر کام کروایا حالانکہ اس قدر کم قیمت پرکوئی بھی کام نہیںکرتا۔ میں نے پہلے اسلام آباد میں اپنی مددآپ کے تحت' شہر کتاب' بنایا ۔ سرکاری خزانے سے ایک پائی نہیں لی۔ یہ جناح سپرمارکیٹ میں ایک کنال سات مرلے کا پلاٹ تھا جو ایک جنگل تھا، اب وہاں 28دکانیں بنی ہوئی ہیں۔

ایک کتاب کیفے ہے، ریڈنگ روم ہے۔ لوگوں سے ایک سال کا ایڈوانس کرایہ لیا اور اسی پیسے سے شہرکتاب بنایا۔ اب وہاںسے سالانہ پینتالیس لاکھ روپے کرایے کی مد میں ملتے ہیں۔ پھر کراچی میں شہرکتاب بنوایا۔ بہت سے خواب پورے ہوئے لیکن کچھ ادھورے بھی رہے۔ بک پارک کا آئیڈیا تھا لیکن وہ آگے نہ بڑھ سکا۔ خیال تھا کہ ایف نائن پارک یا دیگر پارکس میں 'جہاں بچے جاتے ہیں' ایک جگہ مفت حاصل کریںگے جہاں بچوں کی کتابیں اور ایک ریڈنگ روم ہوگا اور اسے 'بک پارک' کانام دیا جائے گا۔ سی ڈی اے والے اس کے لئے وعدے وعید ہی کرتے رہے''۔

٭کامیابی کتاب کا فارمولا

''پہلا اصول:کتاب کا مواد اچھا ہوناچاہئے، اگر استاد مومن پر کتاب لکھوانی ہے تو اس فرد سے لکھوائیں جس نے مومن پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ کئی دوست اس پالیسی پر سخت ناراض ہوئے۔ تاہم میں ایسی کتاب نہیں شائع کرسکتا تھا جس سے سرکاری خزانے کو نقصان ہو۔

دوسرا اصول: کتاب سازی کے اصولوں کے مطابق کتاب تیار ہو، پڑھنے والوں کے لئے سہولت کی حامل یعنی ریڈرز فرینڈلی ہو۔ کتاب کی قیمت کا تعین خود ہی کرتا تھا۔کتاب کی قیمت95 روپے بنتی تو میں 90روپے کروا دیتا کہ پڑھنے والے بالخصوص طالب علم کے لئے دس روپے بھی بہت اہم ہوتے ہیں۔

تیسرا اصول : ٹائٹل ایسا ہوناچاہئے جو اپنی طرف کھینچے، پہلا صفحہ دیکھ کر فوراً پتہ چل جائے کہ کتاب کس موضوع اور معیار کی ہے۔ قیمت نمایاں جگہ پر لکھی جائے بالخصوص آخری صفحے پر''۔

''میں نے جو کام کرنے کا سوچا اور جو منصوبہ بنایا(خواہ وہ دفتری تھا یا ذاتی) اور اس کے لئے جو ٹائم فریم یعنی مدت طے کی اس کے اندر اندر اسے مکمل کیا۔ این بی ایف میں نیشنل بک میوزیم آٹھ ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل کرکے اس کا افتتاح کرایا۔ دوسری طرف اس دوران شہرِکتاب کا منصوبہ بھی ساتھ ہی چلنا شروع ہوگیا اور وہ بھی تقریباً 18ماہ میں مکمل ہوگیا۔ آج کا کام کل پر کبھی نہیں چھوڑا بلکہ اکثراوقات کل کے کام کا آغاز بھی آج ہی کردیا، چاہے رات گئے کیا۔

پڑھتے ہوئے یا لکھتے ہوئے اگرسردیوں میں بھی رات کے بارہ بجے سر میں حجامت کرانے کی کھجلی ہوئی اور ارادہ پختہ ہوگیا تو گاڑی لے کر نکل پڑا اور اگر کسی بھی گیسو تراش کی دکان کھلی نہ ملی تو اس کے اردگرد کے دکانداروں سے پتہ کراکے کسی نہ کسی نائی کے گھر جا پہنچا، اسے جگایا، کار میں بٹھاکر ساتھ لیا ، دکان کھلوائی، حجامت کرائی، ڈبل ٹرپل پیسے دیے اور پھر اسے گھر چھوڑ کر آیا، چاہے اس عمل میں رات کے 2ہی کیوں نہ بج گئے اور ایسا کئی بار ہوا۔ ویسے تو بہت معروف مقولہ ہے کہ نائی، دھوبی اور درزی ہمیشہ ایک رکھو مگر نائی کے معاملے میں میرا اصول مختلف ہے کیونکہ میں عدیم الفرصتی کے باعث حجام کی دکان میں بیٹھ کر انتظار نہیں کرسکتا خواہ یہ فائیو اسٹار ہوٹل یا کلب کا حجام ہی کیوں نہ ہو چنانچہ نارمل حالات میں بھی جب کبھی حجامت بنوانی ہو، سب سے پہلے اسی حجام کی طرف جاتا ہوں جس کی طرف پچھلی دفعہ گیا تھا مگر چلتی کار میں سے ہی کن اکھیوں سے دیکھ لیتاہوں اور اگر رش ہو تو آگے بڑھ جاتا ہوں''۔

'' میں ڈوبتے جہاز کا سوار کبھی نہیں رہا اور نہ ہی میں نے کبھی چڑھتے سورج کی پوجا کی۔ بس! اپنے حال میں مست اور کام بدست رہا۔ شرافت کے لبادے کو ہرلباس پر ترجیح دی۔ سرکاری کاموں کو ذاتی کام سمجھ کر کیا اور جو کام کیا اس کی حقیقی روح کے مطابق کیا، جن کے ماتحت رہا ان سے بہت کچھ سیکھا اور ماتحتوں کو بہت کچھ سکھایا۔ جن اداروں میں کام کیا ان کے سربراہوں کا لاڈلا رہا اور جہاں جہاں خود سربراہ رہا اپنے ماتحتوں کو لاڈلا رکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے ہرکام اپے سینئرز کے احکامات کے مطابق کیا اور ہرکام میری مرضی کے مطابق ہوا۔ اسی طرح میرے جونئیرز نے بھی ہرکام میرے کہنے کے مطابق کیا اور ہرکام ان کی منشا کی مطابق کیا۔ اس سلسلے میں میں نے یہ مقولہ گھڑا کہ ''اچھا ماتحت وہ ہوتا ہے جو حکم تو اپنے سینئرز کا مانتا ہے لیکن کام اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہوتا ہے''۔

''میں نے بھی اوپر کی منزل پر پہنچ کر سیڑھی کبھی نیچے نہیں لڑھکائی اور زمین سے اپنا رابطہ استوار رکھا کیونکہ اس طرح آدمی اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے۔ آج بھی اگر مجھے میری ضرورت سے زیادہ یعنی تین کلو روسٹڈ مرغ روزانہ ملنا شروع ہوجائے تو میں یقیناً پیٹ بھر کر کھاؤں گا لیکن باقی کے مرغ کو ضائع نہیں کروں گا بلکہ زیادہ سے زیادہ مستحقین کو تلاش کرکے ان تک پہنچاؤں گا خواہ اس کے لئے مجھے کتنی ہی دقت کیوں نہ اٹھانی پڑے''۔

٭ ریڈرز کلب

''میں نے کتابوں کی فروخت کا ایک نظام بنایا۔ ریڈرز کلب کے لئے آغاز میں ایک کروڑ روپے کا فنڈ مختص تھا، پھر اسے بڑھایا اور ساڑھے تین، چار کروڑ روپے تک لے گیا۔ میں نے اپنی تقرری کے پہلے ڈیڑھ دو برسوں کے دوران میں ریڈرزکلب کی ممبرشپ کے خواہش مندوں کے لئے سہولت والا نظام بنایا ورنہ آنے والوںکو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ این بی ایف کے ہر اسٹیشن کو ویب کیمرے، سیکنرز اور لیب ٹاپس لے کردیے تاکہ اسی جگہ تصاویر اور شناختی کارڈ کی کاپی لی جائے اورآنے والا فرد کارڈ بنوائے بغیر واپس نہ جائے۔ پہلے ریڈرزکلب کے لئے مختص ڈھائی کروڑ روپے کا فنڈ ختم نہیں ہوتا تھا لیکن2019ء میں سات دن کے اندر ہی ممبرشپس کی تعداد مکمل ہوگئی حالانکہ ہم نے دس دن تک سکیم چلانے کا منصوبہ تیار کر رکھا تھا''۔

٭منفردکتاب میلہ

ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے دور میں ہونے والے کتاب میلوں کے ذریعے شعرا اور ادیبوں کو ایسی عزت و احترام ملا کہ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسلام آباد کی تمام بڑی شاہراہیں ان کی بڑی بڑی تصاویر سے مزین ہوتی تھیں۔ صدرممنون حسین ایک کتاب میلہ میں آئے تو انھوں نے اپنی تقریر میں اس پہلو کا خاص طور پر ذکر کیا۔ ڈاکٹرانعام الحق جاویدکہتے ہیں:''کتاب میلہ پہلے ہلکے پھلکے انداز میں ہوتا تھا۔2018ء میں کتاب میلہ چار روزہ تھا،ساڑھے تین لاکھ لوگ آئے، دوکروڑ80 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں،80 سے زائد پروگرام کئے۔ میںکتاب میلے کے لئے بھی بہت سی ڈونیشنز لیتا تھا۔

میرے دور میں جب پہلا میلہ ہوا تو اگلے میلے میں حصہ لینے اور ڈونیشن دینے کے لئے بڑی تعداد میں لوگ آگئے، ایک فرد نے کہاکہ ایک بڑی موبائل کمیونیکیشن کمپنی آپ کو ایک کروڑ روپے کی ڈونیشن دے گی۔ بس!جب صدرمملکت تقریب میں شرکت کے لئے آئیں تو اس کمپنی کے چئیرمین کو مناسب جگہ دیدی جائے اور ان کی صدر مملکت سے ملاقات بھی کروا دی جائے، ہاں! ایک کروڑ روپے میں سے آپ کو پچاس لاکھ روپے ملیں گے۔ میں نے انکار کردیا کیونکہ ہم ایک کروڑ روپے کی رسید جاری کرکے پچاس لاکھ روپے نہیں لے سکتے تھے۔ اس طرح آڈٹ وغیرہ کے معاملات میں ہمارے لئے مشکل بنتی، کوئی دوسرا راستہ بھی اختیار کیا جاسکتا تھا لیکن اس میں میرے اوپر حرف آسکتا تھا''۔

''نگران وزیراعظم جسٹس ناصرالملک نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کا دورہ کیا، سیکرٹری نے انھیں پریزنٹیشن دی کہ ہم کتاب میلہ کراتے ہیں تو ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ وہ کہنے لگے کہ ہاں! کتاب اچھی روایت ہے، اس میں فیملیز کتابوں کے گرد گھومتی ہیں۔ تاہم انھوں نے یہ نہ بتایا کہ وہ بھی نیشنل بک فاؤنڈیشن کے کتاب میلے میں آتے رہے ہیں۔ پھر انھیں 'شہرکتاب' کا دورہ کرایاگیا، وہاں بھی پریزنٹیشن دی گئی تو وہ ایک بار پھر مسکرائے، تب انھوں نے کہا کہ ہاں! میں یہاں خود آچکاہوں''۔

٭بڑے لوگ کیوں پیدا نہیں ہوتے؟

افتخارعارف اور امجد اسلام امجد کو عصرحاضر کا بڑا شاعر ماننے والے اور ادب کے حوالے سے ضمیرجعفری، شفیق الرحمن سے متاثر ہونے والے ڈاکٹرانعام الحق جاوید کہتے ہیں: ''یہ ایک کلیشے ہے کہ اب کوئی بڑا شاعریا بڑا ادیب پیدا نہیں ہو رہا۔ یقیناً قائداعظم ، لیاقت علی خان، علامہ اقبال، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز کے بعد اس سطح کے لوگ نہیں آئے ۔ اداکاری میں دلیپ کمار، پینٹنگ میں صادقین کے بعد آنے والے لوگ صادقین نہیںہوں گے۔ مذہبی پیشواؤں میں رئیس الاحرار کے بعد رئیس الاحرار نہیںکہ جن کی تقریر سننے کے لئے لوگ بیٹھیں تو پھر اٹھیں ہی نہیں۔ اس صورت حال کا سبب یہ ہے کہ اب کام میں پھیلاؤ آگیا ہے''۔

''پہلے فلم انڈسٹری میں دلیپ کماراور گائیکی میں مہدی حسن یا نورجہاں تھیں تو کوئی دوسرا نہ تھا۔ دراصل یہ کام جان جوکھوں کا تھا۔ ہرکوئی منوبھائی یا شبلی نعمانی نہیں ہوتا۔گزشتہ ربع صدی میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ اب بچہ ایک غزل لکھتاہے تو اخبار میں شائع ہوجاتی ہے، پہلے'فنون' ہی ایک رسالہ ہوتا تھا، اچھے خاصے بزرگ ہونے پربھی یہاں غزل چھپتی تو لوگ پڑھتے تھے ورنہ لوگ حلقے ہی میں بیٹھے رہتے تھے۔پہلے کوئی ٹی وی پر نظرآتا تو لوگوں کے فون آتے تھے کہ آج آپ کو ٹی وی پر دیکھا ہے۔ اخبار میں کالم چھپنے پر لوگوں کے فون آتے تھے۔

اب آپ ٹی وی پر پروگرام کرتے یا اخبار میں کالم لکھتے ہیں تو لوگوں کو بتاتا پڑتا ہے کہ آج مجھے ٹی وی پر دیکھنا یا اخبار میں میرا کالم پڑھنا۔ بہت زیادہ مقبول ہونے والا ڈرامہ 'وارث' آج نشر ہو تو اس قدر زیادہ مقبول نہ ہو۔ اب لوگوں کے پاس چوائس زیادہ ہے، ہر نئی چیز اپنی طرف راغب کرتی ہے۔ اسی طرح مطالعے کا معاملہ ہے، اس میں بھی لوگوں کے پاس چوائس زیادہ ہوچکی ہے۔ اب لوگ ڈیجیٹل کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ پہلے ایک ماسٹرجی ہوتا تھا، اب ہرگلی ، محلے میں کئی سکول کھل گئے ہیں۔ ارفع کریم ہی کو دیکھ لیں، اسے دیکھتے ہوئے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں تعلیم کا معیار گرگیا ہے''۔

ذوق و شوق رکھنے والے لوگ ادارے بناتے ہوتے۔

'' مقتدرہ قومی زبان، اکادمی ادبیات جیسے اداروں میں جان ڈالنی ہے تو یہاںایسے لوگوں کو لگایا جائے جو ذوق وشوق رکھتے ہوں، صرف نوکری ہی نہ کرناچاہتے ہوں۔ حکمران کی خوبی اس کا اچھا منتظم ہونا ہے، پانچ وقت کا نمازی ہونا خوبی نہیں ۔ نماز پڑھنا ذاتی فعل ہے۔ اگرکوئی ڈی سی ہے تو اس کے منصب کا تقاضا راجندر سنگھ بیدی یا قدرت اللہ شہاب بننا نہیں۔کوئی بہت بڑا شاعر ہے تو اسے صرف اسی بنیاد پر ایم ڈی این بی ایف نہیں لگایا جا سکتا، شاعر ہونا اس کا ذاتی فعل ہے''۔

کہتے ہیں، '' لوگ غلط کہتے ہیں کہ پاکستان میں کچھ نہیں ہو رہا، پاکستان میں بہت کچھ ہو رہا ہے، پاکستان دنیا کے قریباً دو سو ممالک میں سے چھٹی ایٹمی طاقت بنا۔ دنیا کا گیارھواں ملک جس نے سب میرین بنائی۔ ظاہر ہے کہ کچھ دماغ یہاں ہیں تو یہ سب کچھ بنا۔ پاکستان میں سب بے ایمان ہیں نہ ہی سب کام چور۔ سب بیوروکریٹس ایک جیسے نہیں ہوتے، کچھ بڑی وزارتوں میں جانا چاہتے ہیں تاکہ وہاں کام کریں لیکن کچھ ایسے شعبے ڈھونڈتے ہیں جہاں وہ آرام کریں۔کام دلچسپی کے سبب ہی ہوتا ہے''۔

٭ریٹائرمنٹ کے بعد

ڈاکٹرصاحب سے سوال کیا کہ 'نیشنل بک فاؤنڈیشن' سے ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کیسے گزارنے کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے:''سردیوں کے باقی دن آرام سے گزاروں گا۔آج کل جن کتابوں کے لکھنے کاخواب دیکھتا رہتا ہوں، ان میں ایک 'ادراکِ ذات وکائنات پر مبنی ایک اہم دستاویز'،دوسری 'ذہنی وفکری و نفسیاتی مسائل کے قابلِ فہم حل'، تیسری' شخصیت میں مثبت تبدیلیوں کے آئینہ دار جھروکے' اور 'منفی عادات سے نجات کے قابلِ عمل طریقے'۔

پسند اور ناپسند
ڈاکٹرانعام الحق جاوید کہتے ہیں:
٭ذاتی لائبریری نہیں بنائی کیونکہ علمی صدقہ جاریہ کا قائل ہوں، میرے پاس بہت سی نادر و نایاب کتابیں آئیں، طنز و مزاح کی سب سے زیادہ کتابیں میرے پاس تھیں لیکن وہ بھی بانٹ دیں۔
٭ ایف اے تک میں فٹ بال ، ہاکی ، بیڈمنٹن اور باسکٹ بال کا بہترین کھلاڑی رہا اور طویل عرصے تک خلیفہ کے اکھاڑے میں ڈنڈ بیٹھکیں نکال کر کلاجنگ، دھوبی پٹڑا اور پہلوانی کے دیگر دائو پیچ سیکھتا رہا۔ان ڈور گیمز میں کیرم بورڈ، ڈرافٹ بورڈ اور تاش میں اکثر بازی جیتتا اور ٹورنامنٹس میں حصہ لیتا۔ شطرنج کا شوق البتہ بعد میں ہوا۔ پیشہ ور شطرنجی نہیں ہوں کیونکہ شکر رنجی سے گریز کرتا ہوں۔

٭ نورجہاں کا گانا کان میں پڑتا تو چلتے ہوئے رک جاتا۔ محمد رفیع، ایس ڈی برمن کوبھی سنتا تھا، سہگل کی آواز بالکل مختلف لگتی تھی۔ ایک ہوٹل میں جب بھی چائے پینے جاتا تو سہگل کا گانا لگواتا۔ ایک دن ہوٹل والے نے فرمائش پوری کرنے سے انکار کردیا کہ سہگل کا گانا سنتے ہی ہمارے آدھے گاہک اُٹھ کر چلے جاتے ہیں۔
٭جوانی میں فلمیں دیکھتا تھا اب وقت ہی نہیں ملتا۔ صبیحہ سنتوش بہت پسند تھے۔ بی اے میں تھا توسب سے پہلی فلم ' میدان ' (پنجابی)دیکھی تھی، 'وعدہ' بھی بہت پسند آئی۔
٭''خوش خوراک ہوں، جب اسلام آباد سے لاہور کا سفر شروع کرتا ہوں تو سوچتا ہوں، سب سے پہلے شاہی مرغ چنے کھائوں گا۔کسی بھی شہر جائوں تو وہاں کے سب سے مشہور کھابے کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہوں''۔

٭ ادویات اور پرہیز دونوں سے پرہیز کرتاہوں اور نیچروپیتھی پر یقین رکھتاہوں۔ ذہنی و دہنی ورزش(مشاعرے پڑھنا، لیکچر دینا اور خوش خوراکی) کے ساتھ ساتھ بدنی ورزش بھی ضروری خیال کرتا ہوں۔
٭ ایک وقت میں بہت سی کتابیں میرے زیرمطالعہ ہوتی ہیں، آج کل قائداعظم اور علامہ اقبال پرلکھی گئی پانچ چھ کتابیں پڑھ رہا ہوں، تاریخ اور نفسیات مرغوب موضوعات ہیں۔گزشتہ دنوں شورش کاشمیری کی'لاہور کے نورتن' پڑھی۔
٭میرے نزدیک ٹھنڈا مزاج، میٹھی زبان، برداشت، درگزر اور قناعت ایسی خوبیاں ہیں جو انسان کو باکمال بناتی ہیں مگر یہ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہیں۔ جب سے میں نے یہ پڑھا کہ 'زندگی کے میدان میں تنقید، طنز اور فقرے بازی سے حوصلہ مت ہارو کیونکہ شور کھلاڑی نہیں تماشائی کرتے ہیں'' تب سے اس قول پر عمل پیرا ہوں۔

٭فیملی کے بارے میں سوال کیا تو ڈاکٹرانعام الحق جاوید ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ ہم تو وحدانیت کے قائل ہیں، ایک بیوی، جن سے1979ء میں شادی ہوئی کیونکہ اس زمانے میں بہترین بیویاں لاہور ہی سے ملتی تھیں، معروف شاعر انجم رومانی کی صاحبزادی اور خالص گھریلوخاتون ہیں، ایک بیٹا ہے جو کاروبار کرتا ہے، ایک پوتا اور پوتی۔ ہم پانچ بہن بھائی تھے، چھوٹا بھائی کلکٹرکسٹم کی حیثیت سے ریٹائر ہوا، تیسرے بھائی کا جوانی ہی میں انتقال ہوگیا اور دوبہنیں ہیں۔ ایک بہنوئی سیشن جج ہے اور دوسرا فیصل آباد ہی میں وکیل ہے۔

٭ اب مجھے لکھنے پڑھنے اور کام کرنے کا نشہ لگ چکا ہے اسی لئے میرے دوست مجھے Alcohlic کے وزن پر Worchohlic کہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ لکھنا پڑھنا مجھے سب سے آسان کام لگتاہے۔18،18گھنٹے بھی لکھتا پڑھتا رہوں تو تھکاوٹ نہیں ہوتی، الٹاطبعیت ہشاش بشاش اور مزاج پُرسکون رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ہرکام دوبھر لگتا ہے اور بے دلی سے کرتاہوں حتیٰ کہ سوٹ پہننا، بوٹ کسنا، ٹائی لگانا یا بنک جاکر پیسے کیش کرانا بھی عذاب لگتا ہے حالانکہ جیب میں پیسے آرہے ہوتے ہیں۔ ہاں! اگر رات کو گھر پر ہوں اور پڑھنے لکھنے سے اکتا جائوں تو 10بجے کے بعد گھر کے کام کرنے کا شوق ضرور اُمڈ آتاہے۔

مثلاً گملوں میں لگے پودوں کو پانی پلانا، اپنے ڈنر کے لئے فریج میں سے سالن نکال کر اپنی مرضی کے مطابق Remakeکرنا، سلاد تیار کرنا جس میں پیاز، لہسن، زیتون، ادرک، مولی ، گاجر، کھیرا، ٹماٹر، پارسلے، مختلف طرح کے سبز پتے،اپنے گملوں میں سے توڑا ہوا کڑی پتہ، سبز پودینہ اورسبز دھنیا لازماً شامل ہوتے ہیں۔ رات کا کھانا اس وقت کھاتا ہوں جب اس کے فوراً بعد بستر پر لیٹ کر سونا ہو اور سونے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ صورت حال کے مطابق کم ازکم رات کے بارہ، ایک یا دو تو بج ہی جاتے ہیں۔ یہ گزشتہ کئی برسوں کا معمول ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔