ڈیووس 2020اور پاکستان
اس سال بھی اس عالمی اہمیت کے سالانہ اجلاس میں پاکستان کی نمایندگی میں ’’پاکستان بریک فاسٹ‘‘ کی تقریب نمایاں رہی۔
بین الاقوامی برادری کے سامنے ڈیووس میں پاکستان کی نمایندگی کے تین دن یاد گار رہے۔ برسوں سے اس موقع کو پاکستان کے حوالے سے یاد گار بنانے والے منتظمین دن رات محنت کرتے ہیں۔
عالمی میڈیا میں پاکستان کا منفی چہرہ پیش کیا جاتا ہے لیکن یہاں ملک کے بارے میں حقائق پر مبنی تصویر سامنے لائی جاتی ہے اور ساتھ ہی پورے جوش و جذبے کے ساتھ مسائل سے نمٹنے کے لیے اس ملک کی اہلیت اور عزم کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں پاتھ فائنڈر اور مارٹن ڈو کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ یہ دونوں گروپ اس بار 60افراد کو ڈیووس لے کر گئے اور ساتھ ہی وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے بھی مسلسل کوششوں میں مصروف رہے۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی اس عالمی اہمیت کے سالانہ اجلاس میں پاکستان کی نمایندگی میں ''پاکستان بریک فاسٹ'' کی تقریب نمایاں رہی۔ ڈیووس میں یہ سلسلہ 19برس سے جاری ہے۔ صبح سویرے سات بجے تقریباً ڈھائی سو افراد پاکستان سے متعلق وزیر اعظم کی جامع گفتگو سننے کے لیے جمع ہوئے۔ اعداد و شمار کے حوالوں کے ساتھ ساتھ مشکل حالات میں ثابت قدم رہنے کے لیے اپنے ذاتی تجربات سے سیکھے گئے سبق کے تذکرے نے ان کی گفتگو کو مزید دل چسپ بنا دیا۔
انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مشکل ترین حالات کے باوجود وہ شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انھوں نے پاکستانیوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ جہاں ایک جانب مسائل ہیں وہیں پاکستان ان مسائل سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے نزدیک ایک پُرسکون زندگی وہی ہے جس میں حریف سے مقابلے کی صلاحیت پیدا کرلی جائے۔ یہ سبق درس گاہوں میں پڑھائے جانے کے قابل ہے۔ انھوں نے یہ واضح کیا کہ ان کی حکومت کی مرکزی پالیسی کرپشن کے خلاف جنگ ہے۔
اس کے علاوہ اداروں کی تعمیر اور احساس پروگرام کے ذریعے غریب طبقے کو مدد فراہم کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ انھوں نے دو اہم نکات پر بھی روشنی ڈالی۔ سب سے پہلے انھوں نے کہا کہ تبدیلی لانے کے لیے صبر و تحمل ضروری ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ملک میں استحکام کے لیے سرمایہ کاری کے ذریعے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وزیر اعظم کی امید افزا گفتگو کے بعد سوال و جواب بھی ہوئے۔ اس دل چسپ نشست کی ویڈیو یوٹیوب پر موجود دیکھی جاسکتی ہے۔
پاکستان بریک فاسٹ کے علاوہ عالمی اقتصادی فورم کے بین الاقوامی شرکا کو مختلف موضوعات پر پاکستانی ماہرین کی آراء سے آگاہی کے لیے بھی خصوصی اہتمام کیا گیا۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے پاکستان میں معاشی اصلاحات اور مالیاتی شمولیت کے موضوع پر ایک نشست میں تفصیلی اظہار خیال کیا۔ ڈاکٹر رضاباقر نے واضح کیا کہ گزشتہ برس پاکستانی روپے کی قدر میں اس لیے کمی واقع ہوئی کہ شرح مبادلہ کو مصنوعی طور پر روکنے کے بجائے مارکیٹ کی قدر کے مطابق آزاد رکھنے کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے، گزشتہ حکومت نے روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر روکے رکھا جس کی وجہ سے پاکستان کا برآمداتی شعبہ عالمی سطح پر مسابقت میں پیچھے رہ گیا۔
نئی پالیسی کے بعد نہ صرف غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ برآمدات بڑھانے کے لیے حکومت دیگر اقدامات بھی کررہی ہے۔ انھوں نے مالیاتی شمولیت کے حوالے سے بتایا کہ نچلی سطح پر اس ضمن میں اقدامات کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ اس کے بعد چھوٹے کاروبار کرنے والوں کی بینک کے قرضوں تک رسائی میں اضافہ ہوگا اور بالخصوص خواتین کی معاشی عمل میں شمولیت کے حوالے سے بھی مدد ملے گی۔
پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ایک اور اہم موضوع سی پیک پر بھی گفتگو کی ایک نشست منعقد کی گئی۔ اس نشست کی نظامت کے فرائض اکرام سہگل نے انجام دیے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ عالمگیریت مخالف سیاست دانوں کا گروہ سی پیک اور بیلٹ روڈ انیشیٹیو کی مخالفت کررہا ہے اور ان کے عزائم تباہ کُن ہیں۔ عالمگیریت کے عمل کو روکا اور پلٹایا نہیں جاسکتا، اس پر ایسے انداز میں عمل ہونا چاہیے کہ کم ترقی یافتہ ممالک بھی ترقی کے سفر میں شامل ہوجائیں۔ چینی صدر لی شی پنگ دنیا میں استحکام لانے کے لیے ملکوں کو ایک جگہ جمع کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مسائل نہیں ہیں۔ اس منصوبے میں پاکستان کے مفاد کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس کی عمل شکل کیا ہوگی۔ مزید یہ کہ سی پیک کے دروازے ابھی مزید کھلیں گے۔
پاکستان میں خواتین کے حالات بھی عالمی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ اس موضوع پر بھی ایک نشست ہوئی۔ اس بار سرکل ویمن ایسوسی ایشن کی بانی صدف آصف نے صنفی حقوق، خواتین کی تعلیم اور معاشی کردار کے حوالے سے ہونے والی نشستوں کی میزبانی کی۔ مقررین میں پنجاب کی رکن صوبائی اسمبلی عائشہ نواز، روٹس میلینئم کے چیئرمین چوہدری فیصل مشتاق اور اخوت کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب شامل تھے۔
ان موضوعات پر گفتگو کے دوران صدف نے خواتین کے لیے مائیکروفنانسنگ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ وہ خواتین اور ٹیکنالوجی سے متعلق ایک منصوبے 'ٹیک کرو'کا آغاز کرچکی ہیں۔اس منصوبے کے تحت ٹیکنالوجی کے کاروبار میں بچیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے اہل خانہ سے بات کی جاتی ہے کیوں کہ بچیوں اور خواتین کے لیے روزگار کے محفوظ مواقعے کے لیے ٹیکنالوجی میں روشن امکانات پائے جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ عملی زندگی میں خواتین سے تعاون اور ان کا احترام سکھانے کے لیے کلاس میں تیس فی صد مردوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
عائشہ چوہدری فنون لطیفہ کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں، وہ سیاست دانوں کے بارے میں پائے جانے والے منفی تاثر کو دور کرنے کے لیے اس شعبے کی جانب آئیں۔ انھوں نے بچیوں کی تعلیم پر توجہ اور اس کی اہمیت سے متعلق ان کے گھر والوں کو قائل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ کئی مرتبہ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی جیسے مسائل کی وجہ سے بچیاں تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے 2001میں 'اخوت' کا آغاز کیا۔ یہ دنیا میں اسلامک مائیکرو فنانسنگ کی سب سے بڑی تنظیم ہے جو پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کو قرضوں کی فراہمی کے ذریعے معاشرے میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان دنیا میں سب سے بڑا مائیکرو فنانس فراہم کرنے والا ملک ہے، 70ہزار ماہانہ قرضوں کی فراہمی کے لیے حکومتی معاونت بھی حاصل ہے اور قرض حاصل کرنے والوں میں 45فی صد خواتین شامل ہیں۔
فیصل مشتاق نے اسکولوں کا ایک نیٹ ورک متعارف کروایا ہے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مسائل بنے بنائے حل درآمد کرنے سے حل نہیں ہوں گے ، ہمیں اپنے حالات کے مطابق اپنے راستے خود بنانے ہوں گے۔ انھوں نے اس اہم نکتے کی نشان دہی بھی کی کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبہ کا ایک بہت بڑا حصہ عطیات و خیرات کے ذریعے چل رہا ہے تاہم یہ ریاست کی ذمے داری ہے اور تعلیم کو فلاحی تنظیموں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اسی لیے عطیات و خیرات ٹیکس کے متبادل نہیں ہوسکتے۔
غرض یہ کہ اس سال ایک بار پھر ڈیووس میں پاکستان کی درست تصویر پیش کرنے میں کام یابی حاصل ہوئی۔ ان کوششوں میں پاکستان کو درپیش چیلنجز اور اس کی کام یابیوں کو درست درست بیان کیا گیا۔ امید ہے کہ جس طرح قطرہ قطرہ سمندر بنتا ہے یہ کاوشیں بھی پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ثمر آور ثابت ہوں گی۔
(معاون مضمون نگار ڈاکٹر بیٹینا روبوٹکا ہمبلوٹ یونیورسٹی برلن کے شعبہ برائے جنوبی ایشیا کی سابق پروفیسر ہیں)