مہنگائی تجاوزات اور پی ٹی آئی

یہ کہنا بھی بجا ہے جب عمران خان نے مسند سنبھالی تب اندرونی خلفشار ، قرضوں کی بہتات اور خزانہ خالی تھا۔


Naseem Anjum February 02, 2020
[email protected]

پی ٹی آئی کی حکومت نے جہاں خارجی معاملات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، وہاں ملکی نظم و نسق میں خصوصاً مہنگائی کے حوالے سے نا کام نظر آتی ہے، یہ کہنا بھی بجا ہے جب عمران خان نے مسند سنبھالی تب اندرونی خلفشار ، قرضوں کی بہتات اور خزانہ خالی تھا ، ہر شخص گزشتہ ادوار شہنشاہی سے سخت پریشان تھا۔ تعلیمی اور طبی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا ان حالات میں سابقہ حکومتوں کے لگائے زخموں کا مداوا ضروری تھا۔

اس لیے کہ مایوس طبقے نے ووٹ اسی لیے دیا تھا کہ اسے جینے کا حق اور بنیادی ضرورتیں فراہم کی جائیں، تحفظ کی فضا ہموار ہو اور ناحق شہریوں کو نہ مارا جائے۔ پولیس کے حقوق محدود کیے جائیں تعلیم اور ادویات غریب کی پہنچ سے دور نہ کی جائیں۔ لیکن دکھ بھری کتھا یہ ہے کہ سب کچھ الٹ ہو گیا اور فاقہ زدہ انسان کو بقول شاعر چاند سورج بھی روٹیوں کی شکل میں نظر آنے لگے نظیر اکبر آبادی نے افلاس کا نقشہ کیا خوب کھینچا ہے۔

پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے

یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے

وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے

ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے

بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں

آٹا ماضی کی حکومتوں میں بھی بار بار غائب کیا گیا اور ذخیرہ اندوزی کی بنا پر گندم خراب ہوگئی اور سندھ کے رہنے والے خصوصاً تھر کے مکین روٹی کو ترس گئے، آج بھی آٹا، غریب طبقے کے لیے ''عنقا'' بن چکا ہے ،کوئی مہنگا آٹا خریدنا بھی چاہے تو اس کی جیب اجازت نہیں دیتی ہے۔ لہٰذا وہ کسی نہ کسی طرح شکم کی آگ بجھانے کی کوشش کرتا ہے، قرضے لیتا ہے محنت مزدوری کرتا ہے تاکہ زندگی کی گاڑی چلتی رہے، لیکن اس وقت اسے چاروں طرف اندھیرا نظر آتا ہے، جب تجاوزات کے نام پر اس سے اس کا روزگار چھین لیا جاتا ہے۔

چھوٹے اور کچے، پکے گھروں یا کوارٹرز کو مسمار کر دیا جاتا ہے، اس طرح بے روزگاری اور بے گھری اسے خودکشی کی طرف مائل کر لیتی ہے آئے دن خودکشی کے واقعات سامنے آتے ہیں، لیکن مایوس کن واقعات کا تدارک نہیں ہوتا ہے۔

بھلا ہو چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار کا جنھوں نے نہ کہ ڈیم کی مد میں وطن پرستوں سے پیسہ ڈیم فنڈ میں جمع کرانے کی کوششیں کی تھیں، سپریم کورٹ کے آرڈر پر ہر شخص نے دل کھول کر عطیات دیے اور بقول چیف جسٹس کے ان کی نواسی نے بھی اپنی جیب خرچ سے ڈیم کے لیے مناسب رقم دی تھی، بڑے فخر سے انھوں نے یہ بات اپنی تقریر کے دوران بتائی تھی اور اب نہ ڈیم ہے اس طرز سے بے شمار گھرانے سڑکوں پر آگئے، اپنے ہی وطن میں بے یار و مددگار، موسموں کی سنگینی برداشت کرنے پر مجبور، چونکہ یہ سپریم کورٹ کا آرڈر تھا، ان بدترین حالات میں بھی ہر سلسلہ جاری ہے اور مسلسل تجاوزات اس طرح ہٹائی جا رہی ہیں کہ بے بس لوگوں پر ظلم کی فضا ہموار کردی گئی ہے نہ متبادل روزگار اور نہ گھر دیا گیا۔

کراچی میں کئی سرکاری اسکول بند ہیں جہاں گھوسٹ اساتذہ بھرتی تھے پارک بھی ایسے موجود ہیں جو اجڑ چکے ہیں ان جگہوں پر ان کا ٹھکانہ بنانا ناگزیر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے آٹا ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم تو دیا ہے یہ مسئلہ سندھ کا ہی نہیں ہے، بلکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کا بھی ہے یہاں بھی آٹے کا شدید بحران ہے۔ ساتھ میں گیس کی لوڈ شیڈنگ اور سی این جی پمپ بند رہنے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ مالکان اور رکشہ ٹیکسی چلانیوالوں کو مشکلات کا شدید سامنا ہے آج کل زیادہ تر سی این جی پر ہی گاڑیاں چلائی جاتی ہیں لیکن سی این جی کی عدم فراہمی نے گاڑیوں کو کھڑا کر دیا ہے کسی کو ایمرجنسی کے موقع پر فوراً اسپتال پہنچنا یا کوئی اور ضروری کام کرنا ہو تو مطلوبہ جگہ پہنچنے سے قاصر ، نہ ذاتی سواری اور نہ رکشہ ٹیکسی۔

موجودہ حکومت نے غیر ملکی سطح پر اپنا اعتبار قائم کیا ہے امریکی صدر ٹرمپ جیسے سخت گیر حکمران وزیر اعظم عمران خان کی عزت کرنے پر مجبور ہیں اور وہ عمران خان کی پالیسیوں اور فہم و فراست کے بظاہر قائل نظر آتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ نے پاکستان کو محفوظ ملک قرار دے دیا ہے برطانوی ہائی کمیشن نے پاکستان کی پرامن صورتحال کا اعتراف کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ شمالی علاقہ جات کا سفر بھی محفوظ ہوگیا ہے۔

اب بذریعہ سڑک برطانوی شہری سیاحت کا لطف اٹھا سکیں گے اور اس طرح سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور اللہ نے چاہا تو یہ غربت کی کہانی قصہ پارینہ بن جائے گی۔ لیکن مہنگائی کے خلاف فوری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے عوام کی بنیادی ضرورتوں کو بہم پہنچانا ریاست کی اہم ذمے داری ہے اگر حکومت مدینہ کے اصولوں کو اپنانا ہے تو انصاف کو سستا اور غریب و بے بس انسانوں کی مدد کرنا لازم ہونا چاہیے، ہمارے پیارے نبیؐ کے عہد مبارک میں ایک عورت پر چوری کا الزام تھا اسے آپؐ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ سے بھی یہ جرم سرزد ہوتا تو اسے بھی میں یہی سزا دیتا جو ملزمہ کے لیے ہے۔

اسی طرح خلافت راشدہ میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیا کرتے تھے اور حضرت عمرؓ کی خلافت میں حضرت عمرؓ خود راتوں کو گشت کرتے اور اگر کسی کے گھر سے بچوں کے رونے کی آواز آتی تو آپؓ اجازت لے کر اندر تشریف لے جاتے اور تمام معاملہ سننے کے بعد اپنی پیٹھ پر راشن لاد کر لاتے اور خاتون خانہ کو حکم دیتے کہ کھانا پکا کر بچوں کو دو اور خود ہر طرح سے غربا و یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتے تھے۔

ایک موقع پر فرمایا کہ تمہارے مال میں سے مجھ کو اسی قدر حق حاصل ہے جس قدر ایک یتیم کے مال میں متولی کو ہوتا ہے اگر میں دولت مند ہوں گا تو کچھ نہ لوں گا اور اگر حاجت مند ہوا تو صرف کھا کے بقدر لوں گا۔ ہر مسلمان کو آزادی رائے اور حکومت پر نکتہ چینی کرنے کا پورا حق حاصل تھا معمولی معمولی مسلمان برسر عام حضرت عمرؓ کو ٹوک دیا کرتے تھے، ایسے واقعات سے بے شمار لوگ واقف ہیں۔ یہ قاعدہ بھی رائج کیا کہ دولت مند اور معزز شخص کے علاوہ معمولی آدمی قاضی نہیں ہو سکتا ،اس کی وجہ یہ بتائی کہ دولت مند رشوت کی طرف راغب اور معزز شخص فیصلہ کرنے میں کسی کے رعب سے متاثر نہیں ہوگا، عدل و انصاف میں مساوات کو قائم رکھنے کے لیے عملی کوششیں کیں اور بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔

ریاست مدینہ میں مہاجرین کی آمد اور انصارکی آؤ بھگت نے مہاجرین کی تمام ضرورتوں کو پورا کردیا یہ ایک ایسا سبق ہے جسے یاد کرنا ضروری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان امرا کے لیے احکام صادر کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے غریب بے گھر بھائیوں کی مدد کریں۔ شہر کراچی میں جہاں غربت کی لکیر سے نیچے رہ کر زندگیاں بسر کی جا رہی ہیں وہاں صاحب ثروت کی کمی نہیں ہے۔ ان کے پاس زمینیں، جائیدادیں، سب کچھ ہے۔

رسول پاکؐ کی اسی سنت پر عمل کرلیں کہ جب مہاجرین مکہ مدینہ تشریف لائے تھے تو کچھ بھی نہ تھا، خالی ہاتھ تھے ان حالات میں رسول پاکؐ نے مہاجرین و انصار میں رشتہ اخوت قائم کردیا یعنی ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنا دیا۔ انصار نے اپنے بھائیوں کی حیثیت سے محض مہمانی نہ کی بلکہ رہنے کی جگہ بھی دی ان کو مال و دولت، زمین و جائیداد، کھیتی باڑی بلکہ اپنی پوری کائنات میں برابر کا شریک بنالیا۔ ہے کوئی حضرت محمدؐ کی سنت مبارکہ کو اپنانے والا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔