کرپشن اور بے عیب محکمہ
بدعنوان سرکاری ملازم اپنی کرپشن کمائی اپنے نام جمع کرنے کے بجائے رشتہ داروں یا دوستوں کے پاس امانتاً رکھوائے جاتے ہیں
شیخ صاحب گزشتہ دس ماہ سے احتساب کی چکی میں پس رہے تھے۔ ان کا ایک ہی مکان تھا جس میں انُ کی رہائش تھی۔ ایک ہی بینک اکائونٹ تھا اور صرف ایک پرانے ماڈل کی موٹر کار تھی۔ دونوں بچے البتہ بیرون ِ ملک مقیم تھے۔ ان کے وفاردار اور محنتی ہونے کی شہرت کی وجہ سے حکمران انھیں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے اور اپنے ذاتی اور اہم سرکاری کام انھی کے سپرُد کرتے۔ ان کے بارے میں دو قسم کی آراء تھیں ۔
ایک یہ کہ حکمرانوں کا مقرب ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ ان کے خلاف ہیں اور اُن کے بارے میں کرپٹ بلکہ مہا کرپٹ ہونے کے الزامات لگاتے ہیں اور اس کی وجہ Jealousy ہے۔ دوسرے لوگ ان کی سادہ زندگی اور عام رہن سہن کی بنا پر انھیں وفادار اور محنتی گردانتے تھے اور ساتھ ہی ایماندار سمجھتے تھے۔ ان کے مہربان حکمران الیکشن ہار کر کرپشن کے الزامات کا شکار ہونے اور پھر سزا پا کر پس ِ زنداں چلے گئے تو موصوف بیوروکریٹ پر بھی سختی کے دن آ گئے۔ حراست میں لیے گئے ۔ طویل عرصہ زیر ِ حراست رہے لیکن تفتیش میں کامیابی نہ ہونے کی وجہ سے ضمانت پر رہا ہو گئے ۔ ان کی ضمانت پر رہائی کی بنیاد کا ذکر آگے آئے گا۔
پرانی بات ہے ڈھاکا سے آئے ایک سینئر افسر جن کا تعلق محکمہ پولیس سے تھا، صوبہ سندھ کے ایک خوشحال ضلعے میں تعینات ہوئے۔ انھوں نے اپنے ماتحت سے محکمہ ڈاک کے بہت سے منی آرڈر فارم منگوائے ۔ بجائے کسی ماتحت کے وہ دوسرے محکموں کے افراد یا ملنے والوں سے منی آرڈر فارم پُر کرواتے جن میں ڈھاکا کے رہائشی رشتہ داروں کا نام پتہ بطور وصول کنندہ ہوتا۔
ایک مہینہ گزرنے پر وہ ہر ماتحت تھانے کے انچارج کو ایک منی آرڈر فارم دے کر رقم پوچھ کر فارم پوسٹ کرنے کا کہتے۔ اس کے ساتھ اپنے دفتر کا کارندہ ضرور بھیجتے۔ یوں اس طریق ِ کار سے منی آرڈرز کے ذریعے ہر مہینے ایک معقول رقم بہت سے دوستوں اور رشتہ داروں کو منتقل ہوتی رہتی اور یہ سلسلہ جہاں بھی تبادلے کے بعد اس پولیس آفیسر کی تعیناتی ہوتی ، دوبارہ شروع ہو جاتا۔ جب مجھے ایک دوسرے محکمے کے افسر نے رشوت وصولی اور اس کی ترسیل کا یہ انوکھا واقعہ کئی سال قبل سنایا تھا تو مجھے یہ مذاق لگا تھا ۔
گزشتہ دنوں ایک محفل میں میری ملاقات اس طریق واردات کے راوی سے دوبارہ ہو گئی تو میں نے اس سے تصدیق چاہی، مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے ہو بہو منی آرڈر کی کہانی سنا کر کہا کہ وہ اس واردات کو کیسے بھول سکتا ہے۔کرپشن اور ناجائز کمائی کے حوالے سے ہمارے ملک میں فوراً اور ہمیشہ سرکاری ملازم اور بیوروکریٹ کا کردار موضوع گفتگو بنتا ہے اور اسی کو مورد ِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔
سیاسی حکمران اپنی طاقت کے باوصف ہدف تنقید نہیں بنتے تھے لیکن پھر پلڑا گھوما تو وہ بھی گرفت میںآئے۔ بلاشبہ ملک اور عوام حکمرانوں کی اچھی گورننس ہی سے ترقی کرتے ہیں لہٰذا اُمید کرنی چاہیے کہ موجودہ حکمران وعدے وفا کریں گے اور بد عہدی کے انجام سے خبردار رہیں گے۔ ان دنوں گرانی بیروزگاری اور آٹے گندم کی غریب عوام کی پہنچ سے دوری نے ملک میں غم و غصے کا طوفان بپا کر رکھا ہے۔
نوے فیصد غربت کے مارے عوام کی روزانہ خوراک میں گندم کی روٹی کا تناسب بھی 90 فیصد کے لگ بھگ ہوتا ہے اگر یہ صورت ِ حال زیادہ عرصہ رہی تو احتجاج کے طوفان حکومت کے لیے خطرناک ہوں گے۔ غضب خدا کا ملک زرعی اور گندم گرانی کے علاوہ نایاب۔ یہی نہیں سبزیاں، دالیں اور دیگر اناج بھی غریب ہی نہیں متوسط طبقے کی قوت ِ خرید سے باہر ہیں اور اگر یہ صورت حال زیادہ عرصہ رہی تو بات بگڑ سکتی ہے۔ اور بگڑتی گئی تو بہت دور تک جائے گی اسے فوری کنٹرول کرنے کا جتن نہ کیا گیا تو حکومت کے ڈگمگانے کے امکان بھی موجود ہیں۔
کرپشن کے ہوائی الزامات کی زد میں آیا ہوا ایک سینئر بیوروکریٹ چند روز قبل 18 ماہ حراست میں رہ کر بوجہ عدم ثبوت ضمانت پر رہا ہوا ہے ، گرفت میں آئے ایک اور بیوروکریٹ کے خلاف چار سال تک چلنے والے مقدمے میں عدالت نے صرف سات گواہان استغاثہ کی شہادتیں قلمبند کیں جب کہ قانون کی کتابوں میں لکھا ہے Justice delayed is justice denied ۔
کوئی عام شخص یا سرکاری ملازم تو اس نیب پر تنقید کی جرآت تک نہیں کر سکتا لیکن چند روز قبل عدالت عظمیٰ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ '' نیب استحصالی ادارہ بن گیا ہے کہ کسی کے خلاف عدالت میں ریفرینس دائر کرنے میں بھی چھ چھ سال لگا دیتا ہے''۔
بعض بدعنوان سرکاری ملازم اپنی کرپشن کی کمائی اپنے نام جمع کرنے کے بجائے رشتہ داروں یا دوستوں کے پاس امانتاً رکھوائے جاتے ہیں، ایک ایسے ہی کرپٹ سرکاری ملازم نے کرپشن کا پیسہ اپنے معتمدین کے پاس رکھوانا شروع کر دیا جب وہ ملازمت سے ریٹائر ہوا تو ان رشتہ داروں اور دوستوں کے پاس وصولی کرنے گیا ۔
ان تمام امانت داروں نے آپس میں ملی بھگت کر کے لا علمی ظاہر کر کے پیسہ واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کرپٹ افسر کو اتنا Shock ہوا کہ برداشت نہ کر سکا اور دار ِ فانی سے کوچ کر گیا۔ یہ واقعہ تو میرے علم میں ہے لیکن بلاشبہ ایسی ان گنت مثالیں ہوں گی۔ لیکن ایک بات نوٹ کرنے کی ہے کہ بہت سے کرپٹوں کے امانت دار وفاداری بھی نبھاتے ہیں اور کرپٹوں کے دیانت دار ہونے کا جعلی بھرم بھی رکھتے ہیں۔