سول حکومتوں کی مجبوریاں اور لاچاریاں
جمہوری ادوارمیں شایدہی کسی حکمراں کواتنا آسان اورحامی و مددگار موقعہ نصیب ہوا ہوگا جتنا ہمارے خان صاحب کومیسرہوا ہے۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر برسر اقتدار آنے والی ہماری سول حکومتوں میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُن کے اندر اتنی جرأت و ہمت بھی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی مشکلات کا برملا اظہار بھی کرسکیں یا کم از کم قوم کو یہ بتا سکیں کہ اُنہیں نا کام و نا مراد بنانے والے پس پردہ کردار کون کون سے ہیں، جس طرح وہ اقتدار دلانے والی قوتوں کا نام اپنی زبان پر لانے سے ہچکچاتے رہتے ہیں۔ اُسی طرح اپنے زوال کے اسباب و محرکات کا ذکر کرنے سے بھی ڈرتے اورگھبراتے رہتے ہیں۔ ماضی کی کئی سول حکومتوں کی طرح ہماری آج کی عمرانی حکومت کا بھی یہی حال ہے۔
2018 کے عام انتخابات میں توقع سے زیادہ نشستیں حاصل کیے جانے کی وجوہات اور کرشمات کا اعتراف تو کجا وہ صوبہ پنجاب میں حکومت کے بنانے میں مدد گار پس چلمن خفیہ کرداروں کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ پی ٹی آئی کے بعض سیاستدان بلاشبہ اِس کام میں مہارت رکھنے والی شخصیت سمجھے جاتے ہیں لیکن وہ ہر گز ہر گز کامیاب نہ ہوتے اگر حکومتیں بنانے اور گرانے والی قوتوں کی اُنہیں پشت پناہی حاصل نہ ہوتی۔ وہ اتنے طرم خان بھی نہیں ہیں کہ پلک جھپٹتے سارے آزاد ارکان خرید سکھیں۔
آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ ابتدائی آفیشل نتائج کے مطابق اکثریت رکھنے والی جماعت مسلم لیگ (ن) نے اتنی آسانی سے گھٹنے ٹیک دیے اور کوئی خفیف یا معمولی سی بھی کوشش نہ کی کہ چند آزاد ارکانِ اسمبلی کو ساتھ ملا کے پنجاب میں حکومت بنا لے۔ لگتا ہے اُسے معلوم تھا کہ وہ کچھ بھی کر لے اُسے اِس بار پنجاب میں حکومت بنانے نہیں دیا جائے گا۔ انھی خدشات اور اندیشوں کے سبب اُس نے پی ٹی آئی کے لیے میدان کسی حجت ، پس و پیش خالی چھوڑ دیا۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی ارکان بڑی شدت سے اِس انتظار میں تھے کہ کب میاں شہباز شریف کی جانب سے اشارہ آئے وہ ساتھ ملکر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) حکومت کا حصہ بن جائیں۔ خود پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو قطعاً یہ اندازہ نہ تھا کہ مسلم لیگ یوں بیک آؤٹ کر جائے گی اور وہ یہ معرکہ اتنی آسانی سے سر کر لیں گے۔
پنجاب میں حکومت بنانے کا معرکہ سر کر لینے کے بعد وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو خان صاحب کے پاس کئی اچھے اور قابل اُمیدواروں کے نام موجود تھے لیکن حیرت انگیز طور پر قرعہ عثمان بزدار کے نام نکلا۔ اِس نام کے بارے میں کسی کو اُمید نہ تھی کہ خان صاحب ماضی کے انتہائی متحرک وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے بعد ایک ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ جیسی انتہائی اہم پوسٹ کے لیے نامزد کر دیں گے جسے حکومت کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ آخر ایسی کونسی مجبوریاں ہونگی کہ پنجاب اسمبلی میں میسر اتنے ذہین اور قابل افراد میں سے خان صاحب کو یہی ایک انتہائی سیدھا سادہ شخص پسند آگیا اور ایسا آیا کہ وہ اُسے مسلسل وزیراعلیٰ رکھنے پر نہ صرف بضد ہیں بلکہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ خان صاحب اتنے بھولے بھی نہیں ہیں کہ اُنہیں عثمان بزدارکی کمزوریاں اور خامیاں دکھائی نہیں دیتیں مگر وہ اُنہیں ہٹانے پر قطعاً تیار نہیں۔
اندرونِ ملک خان صاحب کو ایک اچھی حکمرانی کرنے میں جو مشکلات اور دشواریاں درپیش ہیں وہ تو شاید اتنی خوفناک اور پریشان کن نہ ہوں لیکن بیرونی محاذ پر اپنے کچھ دوست ممالک اور سپر پاورکی جانب سے اُن کے سر پر جو تلوار لٹک رہی ہے اُس کا سوچ کر تو شاید اُنہیں نیند بھی نہ آتی ہو۔ 22 سالہ دور اپوزیشن میں تو وہ مادر پدر آزاد تھے۔ حکومت وقت کو اُن کی کچھ ایسی ہی مجبوریوں اور لاچاریوں پر ہر روز تنقید کیا کرتے تھے۔ خودی اور غیرت کے ایسے سہانے دلنشیں سبق پڑھایا کرتے تھے کہ لوگ اُنہیں انتہائی غیرت مند ، اُصول پسند ، دلیر اور بہادر لیڈر کے طور پر اپنے دل و دماغ میں سمانے لگے۔ مگر حقیقت تو اُس وقت کھل کر عیاں ہوگئی کہ جب خان صاحب کو قدرت نے وزیر اعظم بنا کر اپنے حسین اقوال زریں پر عمل کرنے کا بھر پور موقعہ عنایت فرما دیا۔
پاکستانی جمہوری ادوار میں شاید ہی کسی حکمراں کو اتنا آسان اور حامی و مددگار موقعہ نصیب ہوا ہوگا جتنا ہمارے خان صاحب کو میسر ہوا ہے۔ اُنہیں نہ تو اپوزیشن کی جانب سے کوئی ٹف ٹائم دیاجا رہا ہے اور نہ کسی اور جانب سے کسی خفیہ اور نادیدہ دباؤ کا سامنا ہے، جب کہ سرکاری ادارے بھی بھر پور انداز میں اُن کے معاون و مدد گار ہیں۔ آج سے کچھ ماہ پہلے چیئرمین نیب نے ہواؤں کے رخ کے بدلنے جانے کی نوید سنائی تھی لگتا ہے وہ ہوائیں بھی اب اپنا رستہ بھول چکی ہیں۔ زرداری اور میاں نواز شریف کو تواپنے ادوار میں جس قدر مشکل حالات کا سامنا رہا ، شومئی قسمت سے وہ خان صاحب کو ابھی تک درپیش نہیں ہوئے۔
آصف علی زرداری ،گرچہ پارلیمانی طرز حکومت میں ایک ایسے عہدے پر براجمان تھے جس میں حکمرانی کا تمام بوجھ وزیر اعظم پر ہوتا ہے۔ صدر مملکت کا عہدہ تو بس ایک علامتی عہدہ ہوتا ہے جسے کبھی کسی غلط اور ناپسندیدہ کام کا ذمے دارگردانہ نہیں جاتا مگر اس کے باوجود وہ اپنے اِس دور میں جس قدر آہنی شکنجے میںکسے گئے اُس کا احوال تو وہ خود ہی بتاسکتے ہیں۔
مشہور زمانہ میموگیٹ اسکینڈل کی باز گشت تو آج بھی ایک اہم شخصیت کے کانوں میں گونج رہی ہونگی جس کی شدت کے سبب وہ شدید اضطرابی کیفیت میں ایک ماہ کے لیے خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور ہوگئے تھے۔ دبئی کے خوبصورت محلات میں ایک ماہ اُن کے لیے کتنا کٹھن اور تکلیف دہ گذرا تھا اگر خان صاحب کو گذارنا پڑ جائے تو بہت ممکن ہے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے۔ اِسی طرح میاں محمد نواز شریف نے بھی جب جب وزارت عظمیٰ کی ظاہری دلکشی اور سحر انگیزی سے لطف اندوز ہونے کے شوق میں اپنی جان کو اِس دلفریب شکنجے میں پھنسایا تو اُنہیں بھی اُس کی باطنی اور مخفی خرابیوں اور خامیوںکا بخوبی اندازہ ہوگیا۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں کالا کوٹ پہن کر عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے والے میاں صاحب جب خود ڈان لیکس اسکینڈل میں زیر عتاب آئے تو اُنہیں یقینا آصف علی زرداری کی بے بسی اور لاچاری کا احساس ہوگیا۔
زرداری صاحب تو کسی نہ کسی طرح اِس مصیبت سے باہر نکل آئے لیکن ڈان لیکس کیس میاں صاحب کے لیے ایسا وبال جاں بنا کہ بالآخر تخت وتاج سے محروم کر کے ہی چھوڑا۔ وہ اپنے بہت ہی عزیز دو چار ساتھیوں کی قربانی دیکر بھی اپنی جان بخشی نہ کروا پائے۔ بعد میں آنے والا پانامہ اسکینڈل تو ایک ظاہری مسئلہ تھا ، در پردہ ڈان لیکس کا معاملہ ہی اُن کے زوال و معزولی کا سبب بنا۔ اِس کے علاوہ کچھ مبصرین کے خیال میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی اُن کی قبل از وقت معزولی کی ایک بنیاد بنا۔
اُن کی مجبوری تو یہ ہے کہ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اپنی اِس بے بسی کا اعتراف نہیںکر پا رہے۔ اپنے دوراقتدار میں کن کن مجبوریوں کا سامنا رہا وہ اگر اپنی کوئی سوانح حیات لکھنا چاہیں تو ایک اچھی خاصی کتاب لکھ سکتے ہیں۔ اُن کے سینے میں چھپے ایسے کئی اہم راز دفن ہیں جن کا سر عام تذکرہ کرتے ہوئے بھی وہ ڈرتے اورگھبراتے ہیں۔ کارگل واقعہ کے بارے میں وہ ایک تحقیقاتی کمیشن بنانا چاہتے تھے مگراب بنانا تو درکنار وہ اُس کے بارے میں لب کشائی سے بھی گریزاں ہیں۔
عمران خان آج کل اپنے پہلے دور اقتدار کی دلنشینی اور رعنائیوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اُن کا لب و لہجہ بتا رہا ہے کہ وہ ابھی تک اُس کی سحر انگیزی میں مسرور اور کھوئے ہوئے ہیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد اُنہیں بھی آٹے دال کا بھاؤ پتا لگ جائے گا اور عنقریب وہ بھی اُسی قطار میں کھڑے دکھائی دینگے جہاں ماضی کا ہمارا ہر سویلین حکمراں کھڑا ہوا ہے۔