کرونا وائرس
کرونا وائرس سے تین سو سے زائد افراد مر چکے ہیں جب کہ چودہ ہزار تین سو سے زائد وہ افراد ہیں جو اس وائرس سے متاثر ہیں۔
کرونا وائرس ایک خوف کی علامت بن چکا ہے، جس نے چین کے خوبصورت ترقی پذیر اور پھلتے پھولتے صوبے ہوبے کے مرکز ووہان میں تباہی مچا دی ہے۔ 2019ء کے اختتام تک وہاں ترقی کا دور تھا ، انجینئرنگ یونیورسٹیز ، کالجز ، تحقیقاتی ادارے ، اسکولز ، کاروباری ادارے سب رواں دواں تھے۔
نئے قمری سال کی تیاریاں بھی عروج پر تھیں کہ جس کے استقبال کے لیے چینی عوام بڑی پر جوش اور متحرک رہتی ہے کہ اچانک ایک کے بعد ایک اموات ہونا شروع ہو جاتی ہیں یہ سارے لوگ پہلے سے نہ تو بیمار تھے اور نہ ہی قریب المرگ۔ ان میں سے جوان ہٹے کٹے تھے پھر ایک کے بعد ایک اموات کا ہونا ڈاکٹرز کے لیے تشویش کا باعث بنا ، سب کو تقریباً ایک ہی جیسی شکایات لاحق تھیں ، علامات بھی یکساں تھیں اور تحقیق شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ کوئی عام سردی کی وجہ سے ہونے والا نمونیا ، نزلہ ، زکام یا کھانسی نہیں تھی بلکہ یہ مریض تو کرونا وائرس سے متاثر تھے، خطرے کا بگل بجا دیا گیا، مرنے والوں کا ہندسہ سو سے گزر گیا۔
حکام بالا نے فوری طور پر ووہان شہر کو مکمل طور پر لاک کرا دیا ، لہٰذا تئیس جنوری سے تمام فلائٹس ، ٹرین سروس اور باقی آمد و رفت کے ذرایع جو ووہان شہر کو ہوبے کے دوسرے شہروں اور علاقوں سے جوڑتے ہیں معطل کر دیے گئے ، ہنستا بستا ، خوشیوں سے گھرا شہر ویران ہو گیا۔
کرونا وائرس سے تین سو سے زائد افراد مر چکے ہیں جب کہ چودہ ہزار تین سو سے زائد وہ افراد ہیں جو اس وائرس سے متاثر ہیں یہ ایک خطرناک وائرس ہے جو جانوروں اور انسانوں کو براہ راست اور بالواسطہ متاثر کرتا ہے یعنی یہ ایک انسان یا جانور سے دوسرے انسان یا جانور کو منتقل ہو جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہوا اور اشیا کو چھونے سے بھی یہ منتقل ہو جاتا ہے۔ 1968ء میں پہلی بار اس کرونا وائرس کی اصطلاح سنی گئی جب اس قسم کے وائرس نے دنیا کو اپنی موجودگی سے متعارف کرایا تھا۔ اس سے پہلے ہم سوائن فلو اور برڈ فلو کی تباہیاں بھی دیکھ چکے ہیں۔ اس وبائی مرض سے بچنا اور فرار کیا ووہان کے باشندوں کے لیے ممکن ہے کیونکہ اب وہاں سڑکوں پر جیسے روحوں کا بسیرا ہے۔ ان پابندیوں سے جو حکام بالا کی کچھ تاخیر سے دوسرے ممالک میں بھی پہنچنے کا اندیشہ ہے کیا کوئی تریاق بھی ہے؟
ابھی تک ووہان کی صورتحال یہ ہے کہ مریضوں کے لیے فوری طور پر عارضی اسپتال بنایا گیا ہے کیونکہ عام اسپتالوں میں بیڈز ناکافی ہیں صرف یہی نہیں ، اس کی تحقیق کے لیے خاص کٹ بھی کمیاب ہے، لوگوں کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا دشوار ہے کیونکہ ٹرانسپورٹ بند ہے لہٰذا لوگ پیدل چل کر ہی شفا خانے جا سکتے ہیں بوڑھے افراد کے لیے یہ نہایت اذیت ناک ہے کیونکہ اسپتال کے لیے کئی کلومیٹر چلنا ان کے لیے ناممکن ہے۔
چینگ شا نامی ایک خاتون کی کہانی خاصی درد ناک تھی جسے بعد میں اس نے ڈیلیٹ کر دیا تھا لیکن اس سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر وہ وائرل ہو چکی تھی جس نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ووہان کے لوگوں کے لیے ان کا ہتک آمیز رویہ درست ہے اور اس کے بعد ہی حکام نے ووہان سے آئے مسافروں، سیاحوں اور پناہ گزینوں کے لیے ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز مخصوص کر دیے جو تئیس جنوری سے پہلے وہاں سے نکل چکے تھے۔
چینگ شا بیس جنوری کو ووہان چھوڑ چکی تھی اس نے لکھا تھا کہ جب وہ ریلوے اسٹیشن پہنچی تو اس نے دیکھا کہ کوئی ٹرین اس اسٹیشن پر نہیں رک رہی تھی، اس کے لیے اس نے پولیس سے مدد لینا چاہی تو انھوں نے اسے '' ریلیف اسٹیشن '' میں پناہ لینے کا مشورہ دیا ، تنگ آ کر اس نے ووہان کے میئر سے ہاٹ لائن پر رابطہ کرنا چاہا لیکن اسے یہاں بھی ناکامی ہوئی ، صرف یہی نہیں اس نے اپنا چیک اپ بھی کروایا لیکن کسی ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس نے اسے ووہان سے آنے کے باعث پناہ نہ دی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس وائرس کے متاثرین کو تو کسی محفوظ مقام پر ہونا چاہیے جب کہ اسے تو کوئی پناہ گاہ ہی میسر نہیں ہے، بعد میں تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اس خاتون کو کسی گیسٹ ہاؤس میں پناہ مل گئی تھی لیکن عوام کا یہ رویہ خود لوگوں کے لیے اور حکومت کے لیے سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔
پاکستان سے بھی بہت سے نوجوان پڑھائی کے سلسلے میں چین میں مقیم ہیں جن میں سے بہت سے تو وطن لوٹ چکے ہیں جب کہ اب بھی وہاں بہت سے طالب علم مقیم ہیں ، ایک شخص جو کرونا وائرس سے متاثر اپنے خاندان کی کہانی سناتے غمگین ہو گیا ، اس کا بیٹا جو پہلے معمولی بخار نزلے کا شکار تھا جو بعد میں تندرست ہو گیا وہ شخص اپنے والدین کے ہمراہ اسپتال کے چکر لگاتا رہا اور آٹھ دنوں کے بعد اسے اور اس کے والد کو اس وائرس سے متاثر ہونے کا سانحہ سننا پڑا۔ کیا کوئی شخص جو چند دنوں پہلے تندرست تھا سوچ سکتا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں اسے موت کا پروانہ جاری کر دیا جائے گا وہ بھی ایک ایسی صورتحال میں جب اس کے شہر کی سڑکیں ویران سنسان پڑی ہوں، اداسی ہر جگہ ڈیرے ڈالے ہوئی ہو، موت کی پرآشام چمگادڑیں سی فضا میں رقصاں ہوں ، یہ سب کیا ہے ، کیوں ہے، کیا انسان کا اس پر کچھ اختیار ہے؟
ابھی چند روز گزرے جب ایک شخص کو ماسک پہنے سڑک پر مردہ پڑا دیکھا اس کے نزدیک حفاظتی مخصوص سفید لبادوں میں گارڈز بتوں کی مانند کھڑے تھے یہ تصویر اخبار میں چھپی تھی ، دل دہلا دینے والی اس تصویر کے ساتھ تحریر تھا کہ کرونا وائرس سے متاثر شخص اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گیا ، کرونا وائرس صرف انسانی صحت کے لیے ہی نقصان دہ ثابت نہیں ہو رہا بلکہ وہ چین کی معاشی و اقتصادی صورتحال کے لیے خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ ایکسپورٹ چین سے ہی ہوتی ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں چین سے بنی مصنوعات کی مانگ بھی ہے جس نے امریکا جیسے بڑے جن کو بھی کنٹرول کر لیا تھا لیکن اب ایسا کیوں ہو رہا ہے کیا قدرت کی جانب سے یہ ایک اشارہ ہے بے شک کل کائنات کا خالق و مالک ایک ہی رب ہے، اور اس کی مرضی ہی جاری و ساری نظر آتی ہے۔
انسان کی ہدایت کے لیے رہنمائی کے لیے زندگی کو ایک ضابطہ اخلاق کے تحت چلانے کے لیے پیغمبران اور رسولوں کو بھیجا جاتا رہا اور غور کریں تو ہمارے لیے یہ ایک نعمت کا ذریعہ ہے جو ہمارے آخری نبیؐ کے ذریعے ہم پر واضح کر دیا گیا اور اگر انسان اس نعمت سے بے نیاز ہو جائے اور زندگی گزارنے کا خود کوئی ضابطہ تیار کرے تو کیا وہ خوش اور کامیاب و پرسکون رہ سکے گا، کیا چمگادڑیں، سانپ، کتے، چوہے اور دیگر حرام اشیا اپنی غذاؤں میں شامل کر کے ماڈرن بنا جا سکتا ہے، اللہ کے بندوں ان کے ماننے والوں کو اپنی عصبیت کا نشانہ بنا کر اذیت دے کر اس مادی دنیا میں بھی ہمیشہ زندہ رہا جا سکتا ہے۔
ہم غلط ہیں ہماری سوچ چھوٹی ہے لیکن دنیا کا قانون بنانے والی ایک ہی ذات ہے اور اشارے سب کے لیے ہیں ، چاہے وہ سونامی ہو ، سوائن فلو ہو یا کرونا وائرس۔