اب اور کیا کہیے
کچھ سال قبل ایک انڈین فلم دیکھی تھی جس میں کسی کردار کو غالباً وہ آرمی میں تھا اس کی بیوہ یعنی ہیرو کی ماں اپنے۔۔۔
کچھ سال قبل ایک انڈین فلم دیکھی تھی جس میں کسی کردار کو غالباً وہ آرمی میں تھا اس کی بیوہ یعنی ہیرو کی ماں اپنے صاحبزادے سے کہتی ہے کہ بیٹا ! تیرا باپ شہید ہوگیا، اپنے دیش کی رکھشا کرتے'' اور بیٹے صاحب بھی اس لائن پر لگ جاتے ہیں یعنی آرمی جوائن کر لیتے ہیں۔ فلم کے اداکار کون کون سے تھے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں لیکن شہید کا لفظ جس انداز سے استعمال کیا گیا وہ ذرا توجہ طلب ہے یعنی شہید سے مراد کیا تھی، اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب میں اس کے معنی کیا نکلتے ہیں؟ ویسے تو ہمارے مذہب میں شہید کا درجہ بہت بلند ہے اور شہادت کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو خاصی طوالت درکار ہے کیونکہ یہ چند سطروں میں سمٹ نہیں سکتی۔ کہتے ہیں کہ شہید سیدھے جنت میں جاتے ہیں۔
ہمارے یہاں بہت سے بڑے بڑے نام شہادت کے درجے پر فائز ہیں اور آج تک ہم انھیں سید احمد شہید، ٹیپو سلطان شہید، احمد شاہ ابدالی شہید کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اس سے ان کے درجات کا اندازہ ہوتا ہے پھر اس قسم کے الفاظ کسی اسکرپٹ کا وہ بھی غیر اسلامی بیک گراؤنڈ کے ساتھ۔۔۔ کیا معنی رکھتا ہے۔ بہرحال فلم تو فلم ہے لیکن ہم اکثر ایسا ڈراموں میں بھی دیکھتے رہتے ہیں صرف یہ ہی نہیں بلکہ انشاء اللہ، ماشاء اللہ وغیرہ بھی سنتے رہتے ہیں۔حال ہی میں پڑوس کے کسی ڈانس مقابلے کے پروگرام میں ایک جج صاحبہ کو دیکھا جو کسی بچی کے رقص پر ایسی فدا ہوئیں کہ بے ساختہ کہہ اٹھیں انشاء اللہ آپ بہت اوپر جائیں گی۔
ان تمام باتوں سے ظاہر تو یہی ہوتا ہے کہ اسلام کے علاوہ بھی دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو ان مفید کلمات کا ادراک تو ہے اور بلاجھجک یہ باقاعدگی سے ان کی گفتگو میں شامل بھی رہتے ہیں لیکن ان کلمات کے ساتھ جو خوبصورت سا چمکتا صرف اللہ لکھا ہے اس پر پھر بھی یقین نہیں کرتے، کیا سوچ ہے؟ اس قسم کے کلمات کو غیر مسلم اپنی محبت یا فوائد کے تحت تو استعمال کرتے ہی رہتے ہیں لیکن مسلمانوں کا غیرمسلموں کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال غلط ہے مثلاً ہم یہ بھی سنتے ہیں جب یکم مئی کو شکاگو کے مزدوروں نے احتجاج کیا اور ایک تاریخ رقم کر ڈالی جن کی یاد میں آج تک دنیا بھر میں یوم مئی منایا جاتا ہے۔
ڈیڑھ دو صدی پہلے ان مزدوروں کی یادیں جنہوں نے ایک عظیم مشن کے تحت اپنی آواز بلند کی اور اپنی جانیں گنوائیں انھیں شہید کا درجہ دینا کیا درست ہے؟ کیونکہ شہید تو صرف مذہب اسلام کا ایک خوبصورت مقام ہے اور اس درجے پر پہنچنا بڑی بات لیکن غیر مسلموں کو شہید کہنا ہرگز درست نہیں لیکن بہت سی باتیں جاننے اور سمجھنے کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہوتا ہے اور مطالعہ؟ اسی طرح 9/11 میں مرنے والوں کے لیے بھی ہم کچھ اسی طرح کے الفاظ سنتے ہیں اب اسے اپنی کم علمی سمجھیں یا اعلیٰ ظرفی۔۔۔۔ذرا مختلف ٹی وی چینلز پر غور فرمائیے گا۔
اسلام ایک بہت عظیم مذہب ہے جس میں ذات پات، چھوت چھات اور درجات کی قید نہیں، ایک وسیع، کھلا، نقائص سے پاک مذہب جسے ہم میں سے اکثرکم علم وضاحت کے ساتھ نہیں جانتے کیونکہ ہم خوش قسمتی سے مسلمان ہی پیدا ہوئے ہیں لیکن ہمیں ذرا بھی اندازہ نہیں کہ ہمیں پروردگار نے کس قدر خوش قسمت پیدا کیا اس کا اندازہ ان لوگوں کو دیکھ کر لگائیے جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے اور اس کی محبت کی پاداش میں انھیں اپنے سگے ماں باپ، بہن بھائی اور رشتے داروں کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ یہ تو صرف ایک رشتے ناتے کی بات ہے اگر غور کریں تو ہمیں اپنی ساری باتیں، سارے دکھ درد، ساری تکلیفیں شیئر کرنے کے لیے کسی اور جگہ جانے، گھر سے نکلنے کی ضرورت نہیں، بس یا تو پانچ وقت کی کسی نماز میں یا بہت ڈپریشن میں دو رکعت نفل گھر میں ہی پڑھ کر ذرا اس ذات باری سے شیئر کرکے تو دیکھئے اس سے بڑھ کر اور کیا ہے جب ایک ایسی ہستی جسے ہم پوری کائنات کا خالق مانتے ہیں۔
اتنا عظیم معروف لیکن پھر بھی آپ کو پکا یقین ہے کہ وہ آپ کی بات سن رہا ہے اور آپ کے دکھ درد کو سمیٹنے کے لیے بھی بہت کچھ بن رہا ہے یہ سہولت ہمیں صرف مذہب اسلام میں ملتی ہے۔ یہ سچائی صرف لفظوں میں نہیں بلکہ اس کی ٹھوس حقیقت ہے۔ آپ خود تجربہ کرکے دیکھ سکتے ہیں، یہ رشتہ اتنا خوبصورت اور مضبوط ہے جس کی سچائی کو جھٹلانا دراصل اپنے آپ کو وہم میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔ انڈین مشہور فلم ''میرا انڈیا'' کی ہیروئن اداکارہ نرگس کے عشق میں ایک نئے اداکار سنیل دت ایسے مبتلا ہوئے کہ انھیں بھی اپنی محبت کے رنگ میں کچھ یوں ڈبو دیا کہ شادی سے پہلے نرگس مسلمان تھیں لیکن سنا ہے کہ شادی کے ساتھ ہی انھوں نے مذہب بھی بدل لیا اور نرملا نام رکھا، یہ بھی سنا ہے کہ وہ باقاعدہ پوجا پاٹ بھی کرتی تھیں اور اسی حالت میں دنیا سے بھی گزر گئیں لیکن ان کو باقاعدہ اسلامی انداز میں کفن دیا گیا اور نماز جنازہ بھی ادا کی گئی اور سننے میں آیا ہے کہ یہ ان کی اپنی خواہش تھی اس کے ساتھ ہی ہندوؤں نے ان کی چتا بنائی اور اپنی پوری رسوم ادا کیں، حالانکہ ان کی ساری اولاد ہندوانہ انداز میں زندگی بسر کر رہی تھیں۔ سنجے دت ان ہی کے صاحبزادے ہیں۔
ان دنوں یہ دیکھا جارہا ہے کہ بہت سے غیر مسلموں کے ساتھ لوگ مرحوم کا لفظ بھی استعمال کر لیتے ہیں جو غلط ہے، غیر مسلموں کے لیے آنجہانی کا لفظ استعمال کرنا چاہیے جب کہ مرحوم کے معنی ہیں اللہ کی اس پر رحمت ہو جب کہ غیر مسلموں کے لیے یہ استعمال کرنا کم علمی کا ثبوت ہے۔ ابھی میں کہیں پڑھ رہی تھی کہ اندرا گاندھی کی جب آخری رسومات ادا کی جارہی تھیں، اسے ٹی وی پر براہ راست دکھایا جارہا تھا جہاں ایک جانب ہندوؤں کی کتاب گیتا پڑھی جارہی تھی اور دوسری جانب تلاوت قرآن پاک پڑھی جارہی تھی اور سامنے چتا جل رہی تھی۔
یہ ایک عجب سا تضاد تھا لیکن چل رہا تھا۔ حالانکہ غیر مسلم کے لیے دعا، استغفار اور ایصال ثواب کی کوئی گنجائش تو نہیں ہوتی لیکن پھر بھی ایسا ہوا۔ آج کے تناظر میں اگر ہم اس وقت کی صورت حال کو دیکھیں تو مسلمان اس وقت بھی ہندوستان میں سیکولر ملک کہلائے جانے کے باوجود ابتری کی زندگی گزار رہے تھے اور آج بھی مسلمان اسی طرح کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا آج کی دنیا کے لوگ جن کا تعلق اسلام سے نہیں ہے انھیں اس مادی زندگی کے بعد کی زندگی کے بارے میں ادراک ہے؟ کیا وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کی موجودگی کوئی وہم نہیں حقیقت ہے اور اس حقیقت کا تعلق مذہب اسلام سے ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں اللہ نے ہمارے لیے نہ صرف اسلام کا تحفہ بھیجا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ایک مثال بنا کر پیش کیا، یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج ہم مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ چکے ہیں اس سبق کو بھول رہے ہیں جو اسلام کی روح ہے۔ ہم اس کی مخالف سمتوں میں دوڑ رہے ہیں اور شدت پسند، دہشت گرد اور تنگ نظر جیسے القابات اپنے دامن میں سمیٹ رہے ہیں۔ دراصل شیطان ہماری صفوں میں آ گھسا ہے اور اسی طرح دوسری جانب بھی شیطانیت پنجے گاڑے ہوئے ہے جو سب کچھ سوچتے سمجھتے ہیں پھر بھی حقیقت سے آنکھیں چرائی جارہی ہیں بس توبہ کی ضرورت تو ہمیں بھی ہے اور انھیں بھی ذرا سوچیے تو۔۔۔۔۔!