قتل ناحق
یاد رکھنا کہ اللہ کے ہاں دیر ہے نا اندھیر وہ جو بھی کرتا ہے وقت پرکرتا ہے بس بندوں کی سمجھ میں دیر سے آتا ہے
وہ میرے سامنے بیٹھی رو رہی تھی، اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو ایک ایسی داستان کی طرح تھے جسے اس کی چشم نم بھی سنانے سے قاصر تھی۔ آنسو ہچکیوں میں بدل رہے تھے اور ہچکیاں سسکیوں میں ، کچھ دیر میں میرا صبر بھی جواب دے گیا، میں بھی آنسوؤں کی برکھا میں کسی بے ربط تسلی کی طرح بہہ گیا۔ سوچا کچھ کہوں ! مگر خاموش رہا۔ یکبارگی اس نے میری جانب ایک امید بھری نگاہ ڈالی اور استفسارکیا
''عامر بھائی! کیا مجھے انصاف مل جائے گا نا؟ ''میں کیا کہتا؟ کیسے کہتا اور یقین دلانے کوکوئی بہانہ بھی تو نہ تھا ! پھر اس نے میرے سامنے ایک خستہ حال اسکول بیگ کھولا اْس میں ایک چپل کی جوڑی ، ایک کاپی اور چند پنسلیں موجود تھیں۔ میں دم بخود دیکھتا رہا یہ پوچھنے کی ہمت نہیں تھی کہ ''آپ نے یہ بیگ کیوں سنبھالے رکھا ہے؟'' لیکن اْس ماں نے میری مشکل خود ہی آسان کر دی، تھوڑا روتے اور تھوڑا ہنستے ہوئے وہ یوں گویا ہوئی'' عامر بھائی! یہ حنیف کا بیگ ہے، اسے ننجا ٹرٹل بہت پسند تھا، اْس نے ضد کرکے اپنے ماموں سے یہ بیگ منگوایا تھا ، بہت شوق سے اسکول لے کر جاتا تھا، آپ کو پتہ ہے یہ اس کی وہی چپلیں جو آخری بار اس نے پہن رکھی تھیں، میں نے اس کے ننھے پیروں سے اْتارکر اپنے پاس رکھ لیں، کیوں دوں میں اپنے بچے کی چپل کسی اورکو؟ صحیح ہے نا عامر بھائی؟'' میں جوکہ تصوارت کی ابھرتی پرچھائیوں میں گْم تھا گڑبڑا کے جواباً اتنا ہی کہہ سکا کہ '' ہاں! ہاں! بہن! بالکل ٹھیک کیا ! یہ ہمارے حنیف کی چیزیں ہیں جو آپ کے علاوہ کسی اور کے پاس ہونی ہی نہیں چاہیئیں تھیں۔''
محمد حنیف جناح آباد نمبر 2 سربازی محلے کے چمنستان کا ایک ایسا پھول تھا جسے ایک ظالم نے ڈالی سے توڑ کرمسل کے رکھ دیا، ایک زیر تعمیر عمارت کی تیسری منزل پر اسے بلا کر نفس امارہ کے غلام نے پہلے اْس کے ساتھ زیادتی کی، پھر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے تیسری منزل سے نیچے پھینک دیا اور تنگ جگہ میں پھنسے رہنے کے سبب وہ تین دن تک زندہ رہا لیکن پھر تڑپ تڑپ کراْس 9 سالہ پھول نے اپنی پنکھڑیاں خود ہی جھٹک دیں اور جان، جان آفریں کے سپرد کر دی۔
خصوصی عدالت میں کیس چلا، عمر قید کا پروانہ جاری ہوا لیکن ملزم کے باپ نے اعلیٰ عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا، تین برس تک سماعتیں ہوتی رہیں اور پھر عدالت نے اسے 28جنوری2020 کو بری کردیا۔'' عامر بھائی! ہمارے پاس وکیل کی فیس کے لیے پیسے نہیں۔ کیا آپ سپریم کورٹ میں میرے بچے کا کیس لڑیں گے ؟'' میں نے اشک بار آنکھوں کو ماں سے چھپاتے ہوئے نظریں نیچی کر کے جواب دیا '' اماں میں وکیل تو نہیں لیکن میں آپ کے لیے وکیل کروں گا۔''
وہ جیسے مطمئن ہوگئی کہ جیسے سوکھے تن میں جان آگئی کہ جیسے اس کی دلی آرزوکو دوام مل گیا ہو۔ تشکر بھری نگاہیں گویا مجھ پر ذمے داری کی نگہبان بن گئی تھیں اور میں ایک ایسا جوابدہ کہ جس کے پاس جواب دینے کے لیے کچھ نہیں۔ کب تک نوری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے ''حوضِ نور'' کی بے حرمتی سہتے رہیں گے؟ کب تک '' کائنات'' کی عزت پامال کرنے والے بچتے رہیں گے؟ کب تک زینب انصاری کے قاتل برسوں سزا کے انتظار میں جیلوں میں پر سکون زندگی گذاریں گے؟ اور سزا بھی تب ہی ملے گی جب دوبارہ انصاف کی آوازیں آسمان کا کلیجہ چیر دیں گی۔ زینب الرٹ بل کو ایوان بالا میں لٹکا کر اس کی تشریحات کی گتھیوں میں الجھے قانون سازکبھی آہنگ وساز کی آوازوں کے ساتھ اپنی آوازملائیں گے؟
مجھے نہیں معلوم کہ شہید محمد حنیف کے مبینہ قاتل کا انجام کیا ہوگا؟ میں نہیں جانتا کہ عدالت عظمی کیا فیصلہ سنائے گی؟ مجھے اندازہ تک نہیں کہ جرم کی اس گھناؤنی داستان کا آخری موڑ تختہ دار ہوگا یا باعزت رہائی لیکن میں مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اس قول سے ہمیشہ سے آشنا تھا اور اب تلک آشنا ہوں کہ '' کفرکی حکومت قائم رہ سکتی ہے، لیکن ظلم کی حکومت نہیں'' میرا خیال ہے ہماری اجتماعی تربیت کے لیے شاید اب یہ جملہ بھی کافی نہیں رہ کہ '' اللہ دیکھ رہا ہے'' اسی لیے مہلت کو طاقت سمجھنے والے روز آخرت کو جھٹلا کر جرم کیے جا رہے ہیں۔ یاد رکھنا کہ اللہ کے ہاں دیر ہے نا اندھیر وہ جو بھی کرتا ہے وقت پرکرتا ہے بس بندوں کی سمجھ میں دیر سے آتا ہے۔ محمدحنیف تم ضرورکامیاب ہوگے۔
ان شاء اللہ!