فلسطین دو ریاستیں اور ٹرمپ ری الیکشن
1946 میں اقوامِ متحدہ نے سفارش کی کہ فلسطین کو دو ریاستوں یعنی عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے
324 عیسوی تک عیسائیوں کی نظر میں یروشلم کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس وقت تک عیسائی یروشلم کی زیارت کے لیے وہاں نہیں آتے تھے۔ 326 عیسوی میں رومن حکمران کانسٹن ٹائن کی والدہ نے یروشلم کا دورہ کیا اور دعویٰ کیا کہ اس نے اصلی صلیب دریافت کر لی ہے۔ 613 عیسوی تک ارضِ فلسطین پر رومی بازنطینی تسلط رہا۔ مئی 614میں ایرانی بادشاہ خسرو کی فوج یروشلم میں داخل ہو گئی۔623 عیسوی میں بازنطینی حاکم ہرقل نے دوبارہ یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ انھی حالات کا ذکر قرآنِ کریم کی سورۃ روم کی ابتدائی آیات میں ملتا ہے۔
ہرقل نے ایک فرمان کے ذریعے 629 عیسوی میں یہودیوں کو یروشلم میں داخل ہونے، عبادت کرنے اور سکونت اختیار کرنے سے روک دیا۔ سیدنا عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں یروشلم فتح ہو کر مسلمان ریاست کا حصہ بن گیا۔ سیدنا عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یروشلم کے عیسائیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ یہودیوں کا اس معاہدے میں کوئی ذکر نہیں کیونکہ یہودیوں کے اوپر عیسائی حکمرانوں کی لگائی ہوئی پابندی کی وجہ سے کوئی یہودی وہاں رہائش پذیر ہی نہیں تھا۔ تاریخی اوراق اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ستر یہودی گھرانوں کو یروشلم آنے اور وہاں آباد ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
سلطنتِ عثمانیہ نے 1517عیسوی میں یہ علاقے فتح کر لیے اور عثمانی خلیفہ نے یہودیوں کو دعوت دی کہ وہ اس کی سلطنت میں جہاں چاہیں رہیں۔ ان کے لیے فلسطین خاص کر یروشلم کے علاقے کھول دیے گئے۔ پہلی جنگِ عظیم سے پہلے سلطنتِ عثمانیہ اور روس کے مابین ایک معاہدے کی وجہ سے روسیوں کو سلطنتِ عثمانیہ کے مختلف علاقوں میں آنے جانے اور رہائش رکھنے کی بڑی سہولت تھی۔ اس سہولت سے روسی یہودیوں نے خاص کر بہت فائدہ اٹھایا اور وہ ارضِ فلسطین کی طرف مسلسل ہجرت کرتے رہے۔ انھوں نے فلسطین میں اپنی ایک زیرِ زمین تنظیم قائم کر لی۔ جب ان پر کوئی دباؤ پڑتا تھا تو مقامی عرب آبادی ان سے ہمدردی کرتے ہوئے انھیں اپنے اندر چھپا لیتی تھی۔ ان یہودیوں نے انگریزوں کی مدد کرنی شروع کر دی اس طرح انگریزوں اور یہودیوں کے درمیان ایک ذہنی ہم آہنگی اور اپنائیت پیدا ہو گئی۔
پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانیہ اور فرانس نے یہ طے کیا کہ جنگ کے خاتمے پر سلطنتِ عثمانیہ کے جو علاقے ان کے قبضے میں آجائیں گے ان کو وہ آپس میں بانٹ لیں گے۔ 1916 عیسوی میں ایک معاہدے کے مطابق فلسطین کو برطانیہ کے حوالے، یروشلم کو اتحادی انتظامیہ کے ماتحت اور شام و لبنان کو فرانس کے حوالے کرنا طے پا گیا۔ برطانیہ نے عربوں کی حمایت اس شرط پر کرنے کی حامی بھری کہ عرب سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف جنگ کا حصہ بنیں گے اور کھل کر اتحادی افواج کی مدد کریں گے۔
اس وجہ سے 1916 عیسوی میں شریف حسین مکہ نے ترک حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔ تا کہ برطانیہ عربوں کی ترکی سے آزادی میں ان کی مدد کرے۔ 1917 میں برطانیہ نے بالفور اعلامیہ جاری کیا جس میں برطانیہ نے فلسطین کے اندر ایک یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کی۔ جنگ کے خاتمے پر 1919 میں ایک امن کانفرنس پیرس فرانس میں منعقد ہوئی۔ یہودی اور عرب دونوں طرف کے نمایندے اس کانفرنس میں موجود تھے۔ امیر فیصل یہودی ریاست کے حامی تھے لیکن وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ شام کے بارے میں فیصلہ ان کی خواہشات کے مطابق ہو۔ جب شام فرانس کے حصے میں ڈال دیا گیا تو امیر فیصل نے یہودی ریاست کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔
1930 میں پِیل کمیشن Peel Commission کے نام سے ایک کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کمیشن نے ارضِ فلسطین میں ایک بڑی اور ایک چھوٹی یعنی دو ریاستوں کے قیام کی سفارش کی۔ اس نے فلسطین کے اصلی عرب باشندوں کے لیے ایک بڑی ریاست اور یہودیوں کے لیے ایک چھوٹی ریاست کے قیام کی سفارش کی۔
سعودی عرب کے بادشاہ نے کمیشن کی سفارشات کو یکسر رد کر دیا جس کی وجہ سے یہ کمیشن ناکام ہو گیا۔ 1946 میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے فلسطین نے سفارش کی کہ فلسطین کو دو ریاستوں یعنی عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس کمیشن نے القدس الشریف کو بین الاقوامی اتھارٹی کے ماتحت کرنے کی بھی سفارش کی۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ پلان 29 نومبر 1947کو منظور کر لیا۔ اس وقت کی دونوں سپر پاورز امریکا اور روس نے بھی اس پلان کی حمایت کر دی۔ یہودیوں نے اس پلان کو منظور کر لیا لیکن عرب ممالک کے حکمرانوں نے اس پلان کو بھی رد کر دیا۔
اصل میں عربوں کے درمیان نہ تو ہم آہنگی تھی اور نہ ہی کوآرڈینیشن۔ ہر عرب ملک کا اپنا ایجنڈا تھا اور وہ اپنے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے تھے۔ اردن دریائے اردن کے معربی کنارے کو اپنے اندر شامل کرنا چاہتا تھا جب کہ مصر غزہ کی پٹی پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ اس طرح کوئی بھی عرب ملک دل سے فلسطینی ریاست کا وجود نہیں چاہتا تھا۔
اردن کے شاہ اور اسرائیل کی وزیرِ اعظم کے درمیان خفیہ ملاقاتوں کے ایک سلسلے میں اردن کے شاہ کو یہ بھی آفر تھی کہ اردن اگر اس معاملے میں نہ پڑے تو اسرائیل بھی اردن کے خلاف کوئی محاذآرائی نہیں کرے گا۔ عرب حکمران فلسطینی عرب ریاست کے قیام میں کبھی مخلص نہیں رہے۔ وہ اس مسئلے کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ 18 مئی 1948کو اسرائیلی ریاست قائم ہوئی۔ اس وقت سے عرب حکمران عرب عوام کے سامنے فلسطین کو عرب مسئلہ بنا کر پیش کرتے آئے ہیں۔ ہر عرب اس ماحول میں پلا بڑھا ہے کہ فلسطینی عرب ریاست کا قیام اس کا مطمعِ نظر ہے اس لیے عرب حکمران سچ نہیں بولتے اور سامنے آ کر نہیں کہتے کہ ہمیں فلسطینیوں کی ریاست نہ بننے اور ان کے حقوق چھن جانے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جب کہ ایک عام عرب فلسطینیوں کا حامی ہے۔
عرب حکمران مغرب اور خاص کر امریکی صدر ٹرمپ کے جارحانہ اسرائیل نواز رویہ سے بہت دبے ہوئے ہیں۔ 2020 امریکی صدارتی انتخاب کا سال ہے۔ ٹرمپ بین الاقوامی محاذ پر ابھی تک کوئی کامیابی امریکی عوام کے سامنے نہیں لا سکے۔ وہ اب امریکا کے اندر یہودیوں کو مکمل طور پر اپنی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں۔
اپنے یہودی داماد جیرڈ کُشنر کو انھوں نے اسی کام پر لگایا ہوا تھا، کشنر نے تین سال کی محنت سے وہ پلان تیار کیا جس کا چند دن پہلے ٹرمپ نے اعلان کیا۔ اس پلان کے ذریعے اسرائیل کو عرب حکمرانوں کی تائید اور حمایت سے وہ سب کچھ دینا مقصود ہے جس کا سوچا جا سکتا ہے۔ اگر یہ پلان کامیاب ہو جائے تو فلسطینی عرب اپنے ہاتھوں اپنی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں گے اور ٹرمپ یہودی ریاست کا سب سے بڑا محسن بن جائے گا۔ اس طرح یہ امید کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ کو تمام یہودیوں کی حمایت حاصل ہونے پر ری الیکشن میں آسانی ہو گی۔