مقبوضہ جموں وکشمیرکی انسانی صورتحال پہلا حصہ
مجموعی طور پر مقبوضہ جموں وکشمیر میں ، میں ایک لاکھ اسی ہزار نئے فوجی تعینات ہیں
یوم یکجہتی کشمیرکی مناسبت سے ملک بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تقریبات منعقد کی گئیں ، عوامی مقامات پر سفید رنگ کے بڑے بورڈ نصب کیے گئے ، جن پر اردو ، انگریزی اور دیگر زبانوں میں کشمیرکے بارے میں پیغامات لکھے گئے۔ 20 فروری تک تعلیمی اداروں میں مضمون نویسی کے مقابلے اور مباحثے ہورہے ہیں ، ملک کی تمام آرٹس کونسل میں کشمیر سے متعلق تصویری نمائشوں کا انعقاد جاری ہے۔ 31 جنوری سے 8فروری تک ملک میں تمام ہوائی اڈوں ، ریلوے اسٹیشنز ، موٹر وے اور نیشنل ہائی ویز پر یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے بینرز آویزاں کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکومنٹریز اور کشمیری نغموں کا اہتمام کیا گیا ہے، یوم یکجہتی کشمیرکے موقع پر بھر پور عوامی شرکت سے تقریبات اور ریلیاں منعقد کی گئی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سات دہائیوں سے جاری وساری ہے لیکن گزشتہ 7 مہینوں سے ان مظالم میں اس وقت شدت آگئی ہے جب 5 اگست 2019ء کو بھارت کی مودی حکومت نے صدارتی فرمان جاری کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیرکی نیم خود مختاری خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370اور 35 اے ختم کرتے ہوئے ریاست کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ کہلائے گا، جس کی قانون سازاسمبلی ہوگی ۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ وادی کو 2حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں وکشمیرکو لداخ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لداخ کو وفاق کا زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا جس کی قانون ساز اسمبلی نہیں ہوگی۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370اور35اے ختم کرنے کا بل بھی پیش کیا تھا۔ امیت شا نے جموں وکشمیرکو مرکزکے زیر اہتمام دو علاقوں یعنی لداخ اور جموں کشمیر میں تقسیم کرنے کا بل (جموں وکشمیر ری آرگنائزیشن بل ) بھی پیش کیا جس کی ایوان نے منظوری دی۔ بل کے مطابق لداخ کے پاس قانون ساز اسمبلی نہیں ہوگی، جب کہ جموں و کشمیرکے پاس دہلی اور پڈوچیری کی مانند مقننہ ہوگی۔
خیال رہے کہ آرٹیکل 370کے تحت مقبوضہ کشمیر کو بھارتی وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتا جب کہ سرکاری نوکریوں ، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف کشمیری باشندوںکو حاصل تھا۔ دفعہ 370 اور35کی منسوخی سے مقبوضہ کشمیرکی آبادیاتی، جغرافیائی اور مذہبی صورتحال یکسر تبدیل ہو جائے گی ، وہاں کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہوجائے گی اور وہاں ہندوؤں ،غیر مسلموں اور غیر کشمیریوں کا بسایا جائے گا۔ پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کی پر زور مذمت کرتے ہوئے انھیں مسترد کرچکا ہے اورکہا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے کوئی یک طرفہ اقدام بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اس متنازع علاقے کی حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دو اجلاس منعقد ہوچکے ہیں ، سلامتی کونسل نے بھی بھارتی اقدام کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف قرار دیا ہے۔ بھارت کا یک طرفہ فیصلہ غیر قانونی ، غیر آئینی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روح کے منافی ہے۔ بھارتی فیصلے سے برصغیر کے لیے تباہ کن نتائج رونما ہوں گے۔
بھارت نے اپنے اس اقدام سے قبل ملک کے مختلف علاقوں سے پیرا ملٹری فورسزکے مزید 8 ہزار اہلکاروں کو مقبوضہ علاقے میں تعینات کیے گئے جب کہ اس سے قبل 38 ہزار اہلکار پہلے ہی سے موجود تھے ۔
مجموعی طور پر مقبوضہ جموں وکشمیر میں ، میں ایک لاکھ اسی ہزار نئے فوجی تعینات ہیں۔ دوسری طرف کشمیری قیادت کوگھروں میں نظر بند کر دیا گیا، انھیں گرفتارکیا گیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا، اس دن سے تا حال مقبوضہ جمو ں وکشمیر میں کرفیو نافذ ہے ، ہرطرح کی مواصلات بند کر دیے گئے ہیں۔
ایک طرح سے مقبوضہ جموں وکشمیر کو جیل خانہ بنادیا گیا ہے جہاں سے نہ کوئی باہر نکل سکتا ہے اور نہ ہی باہر کا کوئی انسان اندر داخل ہوسکتا ہے ، جس صورت میں خدشہ ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی المیہ نمودار ہوسکتا ہے ، مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے عید بھی قید میں گزاری ہیں، نمازیں بھی گھروں میں ادا کی جاتی رہی ہیں، وہاں کی سب سے بڑی جامع مسجد پر چھ ماہ سے تالے پڑے رہے،کہیں بار کشمیریوں نے کرفیوکے خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور ''پاکستان زندہ باد ،کشمیر بنے گا پاکستان'' کے نعرے لگائے۔ جس سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشتگردی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ آئے روز بھارتی فوج نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران کشمیری نوجوانوں کو شہید اورگرفتارکررہی ہے۔ محاصرے کے دوران علاقے سے گولیوں کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں، جس سے عوام میں خوف وہراس پھیل جاتا ہے۔ بھارتی اقدام سراسر انسانی حقوق کے خلاف ورزی ہے۔
مقبوضہ جموں وکشمیرکی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے ٹویٹر بیان کہا کہ مقبوضہ کشمیرکی لیڈر شپ کا دو قومی نظریہ کو ٹھکراتے ہوئے بھارت سے الحاق کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا۔ بھارت کا یک طرفہ فیصلہ غیر قانونی وغیرآئینی ہے، آج بھارتی جمہوریت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، بھارتی فیصلے سے برصغیر میں تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہوگیا۔
بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ جموں وکشمیرکے عوام خوف وہراس کا شکار ہوجائیں ۔ بی بی سی کو انٹرویو میں محبوبہ مفتی نے کہا بھارتی حکومت جموں وکشمیر کو غزہ کی پٹی کی طرح بنانا چاہتی ہے اورکشمیر کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتی ہے جو اسرائیل فلسطین کے ساتھ کررہا ہے۔ بھارت کوکشمیرکا علاقہ چاہیے وہ یہاں کے عوام کے لیے فکر مند نہیں، بھارتی حکومت کا ارادہ مسلمانوں سے پاک انڈیا بنانے کا ہے ، جن بوتل سے باہر آچکا ہے اورکچھ عرصے بعد انھیں یہ نہیں علم ہوگا کہ اسے واپس بوتل میں کیسے بند کریں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہم پاکستان پر انڈیا کو ترجیح دینے میں غلط تھے۔
یاد رہے کہ 27اکتوبر 1947ء کے دن بھارتی فوج نے جموں وکشمیر پر چڑھائی کی تھی اورکشمیریوں کی خواہشات کے خلاف اور برصغیرکی تقسیم کے منصوبے کو پامال کرتے ہوئے زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔ واضح رہے کہ تقسیم ہند کے موقعے پر ایک منظم سازش کے تحت کشمیر پر بھارتی قبضہ جمانے کے لیے گورداس پور کے مسلم اکثریتی علاقے کو بھارت کے نقشے میں شامل کر دیا گیا جس سے بھارت کوکشمیر پر فوج کشی کے لیے زمینی راستہ مل گیا اور 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج نے کشمیریوں کی آزادی اور خود مختاری پر شب خون مارتے ہوئے ریاست پر اپنا قبضہ جما لیا۔
ایشیا میں واقع جغرافیائی اعتبار سے کشمیر انتہائی اہم علاقہ ہے جنوبی اور مشرقی ایشیا سے اس کے تاریخی رابطے ہیں اور یہ پاکستان ، افغانستان ، چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے۔ اس کا رقبہ88900 مربع میل ) ہے۔ ایک تہائی شمال مغربی حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے جس میں پونچھ ، مظفر آباد،جموں وکشمیر کے علاوہ گلگت اور بلتستان کے علاقے شامل ہیں۔ (شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر) بھارت وسطی اور مغربی علاقے (جموں وکشمیر اور لداخ ) اور چین شمال مشرقی علاقوں (اسکائی چن اور بالائے قراقرم علاقہ) کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ بھارت سیاچن گلیشیئر سمیت تمام بلند پہاڑوں پر قابض ہے، پاکستان کے حصے میں نسبتا کم اونچے پہاڑ ہیں۔
(جاری ہے۔)