صادقین عجوبہ روزگار 

صادقین پڑھے لکھے ہیں، جی بالکل نہیں لگتا تھا۔ وہ درو دیوار پر الٹی سیدھی لکیریں بناتا رہتا تھا۔


Dr Tauseef Ahmed Khan February 08, 2020
[email protected]

سید سلطان احمد نقوی کا شمار بائیں بازوکے کارکنوں میں ہوتا ہے۔ وہ آج کل انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی کے سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ یہ معروف مصور صادقین کے بھتیجے ہیں۔ صادقین نے ساری زندگی فن کی آبیاری کی۔

سلطان نقوی نے اپنے چچا کے بارے میں شایع ہونے والے مضامین کو ایک خوبصورت کتاب شاعر، مصور، خطاط، صادقین (خاکے خود نوشت مضامین) کے عنوان سے مرتب کیا۔ راشد اشرف اور ڈاکٹر پرویزحیدر نے اس خوبصورت کتاب کو شایع کیا، یوں 457 صفحات پر مشتمل ایک کتاب تیار ہوئی اورکتب بینی کا ذوق رکھنے والے صاحبان کو اس مصور کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔

صادقین جن کا پورا نام سید صادقین احمد نقوی تھا۔30 جون1930میں ہندوستان کے شہرامروہہ میں پیدا ہوئے۔ صادقین نے 1948 میں پاکستان ہجرت کی۔ صرف 57 سال کی عمر میں 10 فروری 1987کو وفات پاگئے۔ طب کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر پرویز حیدر کے مضمون صادقین سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں توکئی بار سوچتا ہوں کہ امروہہ ایک ڈسٹرکٹ بھی نہیں ہے لیکن نامعلوم کیسے سادات کی ایک چھوٹی سی جگہ سے ایسے مشہور لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے عالمی شہرت پائی۔

معروف ادیب احمد ندیم قاسمی نے ایک مضمون بہت برسوں پہلے صادقین کی انفرادیت کے عنوان سے تحریرکیا تھا۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ میں حیران ہوتا تھا کہ اس کے اندر تخلیق فن کا آتش فشاں کہاں سے آیا ہے۔ سابق بیوروکریٹ سید ہاشم رضا نے ایک عہد ساز شخصیت کے عنوان سے لکھا ہے کہ صادقین کا نام ان کے فن سے زیادہ جاوید بن گیا۔ ان کا فن ان کی زندگی پر اس طرح محیط ہوا کہ انھیں شریک حیات کے انتخاب کی فرصت ہی نہ ملی۔

سول سروس کے ایک اور افسر نور الحسن جعفری نے صادقین سے ملاقات کی خواہش کا حال یوں بیان کیا ہے کہ 1961میں میری تقرری لاہور میں بحیثیت ممبر فنانس واپڈا ہوئی۔ دریائے سندھ پر متبادل نہروں اور بندوں کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو 1962 یا 1963 میں یہ فیصلہ ہوا کہ دیوار پر میورل بنایا جائے اور یہ کام صادقین کریں گے۔ عالمی بینک اس مصوری کی قیمت ادا کرنے پر تیار ہوا، خاصی خطیر رقم تھی۔ منگلا میں بجلی گھر کا کام شروع ہوا۔ صادقین سے ملاقات کی خواہش پیدا ہوئی۔ میں ادا جعفری اور بچوں کے ساتھ منگلا پہنچ گیا۔

پاور ہاؤس کے اندر ایک طویل اور خاصی اونچی دیوار ہے۔ اس پرکچھ پینل لگے ہوئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ صادقین ایک الگ کمرے میں پینل پرکام کررہے ہیں اور وہیں ملاقات ہوگی۔ جب ہم اس جگہ پر پہنچے تو صادقین تو غائب تھے کچھ پینل جن پر وہ کام کر رہے تھے موجود تھے۔کمرے میں بے ترتیبی نمایاں تھی۔ میں نے دفتر والوں سے پوچھا کہ صفائی کیوں نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ صادقین صاحب کا حکم ہے اس کمرے کی کسی چیزکو ان کے حکم کے بغیر چھیڑا نہ جائے۔ جب میں نے صادقین کے بارے میں معلوم کیا تو عملے کا جواب کچھ معذرتی تھا۔ صادقین کو میری آمد اور ملاقات کی خواہش کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ وہ کہیں چلے گئے تھے۔ بتایا گیا کہ وہ کسی افسر سے ملاقات نہیں کرتے۔

80 کی دہائی میں دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں پریس قونصلر کے فرائض انجام دینے والے منیر احمد شیخ صادقین ایک عجوبہ روزگار کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ یہ 1981 کا ذکر ہے ۔ ایک روز انڈین پرائم منسٹرکے سیکریٹریٹ سے فون آیا کہ (بھارت کی وزیر اعظم) مسز اندرا گاندھی پرسوں رومانیہ کے دورے پر جارہی ہیں۔ وہ کل 10 بجے صبح صادقین سے ملنا چاہتی ہیں۔ پوچھا صادقین کب آرہے ہیں۔ کہا کہ اس وقت ہوائی جہاز میں ہیں۔ یہ فلائٹ 2 بجے بعد دوپہر دہلی پہنچ رہی ہے۔ وقت دیکھا تو ایک بجا تھا۔ اس وقت بھاگم بھاگ پالم کے ہوائی اڈے پہنچا تو وہ مسافروں سے الگ تھلگ ایک جانب پاسپورٹ ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔

میں نے بتایا کہ کل صبح مسز اندرا گاندھی آپ سے ملاقات کی منتظر ہونگی۔ دوسرے روز انھیں اپنے ہمراہ لے کر وزیر اعظم کے دفتر پہنچ گیا۔ انتظار گاہ میں ہمارے سامنے لکڑی کے صوفے پر تین فوجی جرنیل وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے انتظار میں بیٹھے تھے۔ غالبا انھیں اسی وقت آنے کے لیے پہلے کہا گیا تھا۔ مگر وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری نے آکر انھیں کہا کہ آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔ مسزگاندھی پاکستان سے آئے ہوئے آرٹسٹ سے پہلے ملنا چاہتی ہیں۔

منیر احمد شیخ مزید لکھتے ہیں کہ ملاقات کے بعد ابھی ہم باہر جانے کے لیے سیڑھیاںاترنے ہی والے تھے کہ مسزگاندھی کا پرنسپل سیکریٹری بھاگا بھاگا پیچھے آیا اور ہانپتے ہوئے آواز دی۔ صادقین صاحب ، صادقین صاحب ، ذرا ٹھہریے۔ وزیر اعظم پوچھ رہی ہیں کہ آپ امروہہ کس دن جا رہے ہیں۔ صادقین نے کہا کہ اس ماہ کی 8 تاریخ کو جارہا ہوں۔ پرنسپل سیکریٹری نے کہا نہیں آپ 11کوجائیں۔ صادقین نے کہا کہ میں اپنے عزیز و اقارب کو اطلاع دے چکا ہوں۔ سیکریٹری نے کہا کہ پہلے شہر آپ کو ریسیو کرنے کی تیاری کر لے پھر آپ جائیے گا۔

مجتبی حسین صادقین کے بھارت کے دورے کا حال یوں بیان کرتے ہیں۔ صادقین نے اگرچہ 14 ماہ ہندوستان میں گزارے ، ان چودہ مہینوں میں جتنا وہ ماضی میں پھیلے ہیں اتنا ہی مستقبل میں جڑ گئے۔ ڈاکٹر محمود الرحمن صادقین ان ہی کہانی کے عنوان سے یوں بیان کرتے ہیں کہ صادقین بولے وہ میری کہانی کا کیا معاملہ ہے۔ اسے آپ بھی نہیں جانتے۔ آپ کے والد صاحب نے سید ہاشم رضا کو سنائی کہانی یہ تھی۔

صادقین پڑھے لکھے ہیں، جی بالکل نہیں لگتا تھا۔ وہ درو دیوار پر الٹی سیدھی لکیریں بناتا رہتا تھا۔ گھر کی تمام دیواریں اس کی سیاہ لکیرو ں سے بھرگئیں تو محلہ کی دیواریں تختہ مشق بن گئیں۔ محلے والے شریف اور وضع دار تھے۔ میرا خیال کر کے کچھ نہیں بولتے تھے مگر مجھے صادقین کی اس حرکت پر غصہ آتا رہتا۔ اسے منع کرتا ، پھر اسے اسکول میں داخل کرادیا تھا۔ اسکول سے شکایت آئی کہ پڑھتا وڑھتا تو خاک نہیں پینسلوں اور برش سے دیواروں پر لکیریں کھینچتا رہتا ہے۔

ایک دن اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے بلوا بھیجا تواس نے مجھے اسکول کی تمام دیواریں دکھائیں اورکہا کہ صادقین حد سے بڑھ گیا ہے۔ جب شام کو میاں صادقین گھر آئے تو میں نے اس کی خوب مرمت کی۔ سید صاحب نے اسے اس قدر ماراکہ وہ ادھ موا ہوگیا مگر اس کی لت نہ گئی۔ آخر تھک ہارکر میں نے بھی اسے چھوڑ دیا کہ جو چاہے بنائے اپنی زندگی خراب کرے۔ سینئر صحافی مختار زمین نے اپنے مضمون میں لکھا کہ میرے عزیز دوست سابق جوائنٹ سیکریٹری افضال زیدی نے ایک عجیب واقعہ سنایا۔ دو برس ہوئے جب صادقین نے کراچی آنے کا ارادہ کیا۔

ڈاکٹر سعید بٹ نے انھیں اسلام آباد میں روکنے کے لیے بہت کوشش کی مگر صادقین نے کہا کہ وہ لاہورکا حسن دیکھ چکے۔ اسلام آباد کی دلکشی سے لطف اندوز ہوچکے لیکن پرندے اور جانور جب مرنے لگتے ہیں تو واپس اپنے 'فلاک' یا گروہ میں چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا اب انھیں جانا ہی پڑے گا۔ زاہدہ حنا نے صادقین کی تصویریں سماج کے عنوان سے لکھا ۔

عشق تو انھوں نے دراصل کاغذ سے کیا اپنی خود نوشت میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح زمانہ طفلی میں بھی کاغذ اور وہ بھی سادہ کاغذ میری کمزوری رہا ہے۔ مجھے میرے بزرگوں نے بتایا کہ جنھوں نے مجھے لکھتا ہوا دیکھا تھا سینئر صحافی شیخ عزیر نے اپنے مضمون میں لکھا کہ صادقین انوکھا بندہ تھا۔ اس لیے انوکھا نہ تھا کہ اس نے مصوری اور خطاطی کا Discipline اپنایا ہوا تھا۔ بلکہ اس لیے کہ اس نے اس میدان میں ایسی نئی راہیں دکھائی تھیں کہ شاید ہی اس سے پہلے کوئی وہاں سے گزرا ہو۔

سلطان احمد نقوی نے اپنے چچا جان کے بارے میں اپنے مضمون میں لکھا کہ مشرق و مغرب کے اکثر ممالک کو دیکھا ، ماہرین فن سے داد تحسین حاصل کی۔ لوگوں نے کہا کہ مستقبل کے پکا سو ہے جب ان کا نام آرٹ کے بڑے بڑے مراکز میں روشن ہورہا تھا تو سب کچھ چھوڑ کر اپنے ملک واپس آگئے اور ایسے آئے کہ سوائے مختصر دوروں کے دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کیا۔ اس کتاب کا ایک مضمون صادقین کی خود نوشت پر مشتمل ہے۔ اس طرح عظیم شاعر فیض احمد فیض نے صادقین کو یوں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

صادقین نے قلم اٹھایا۔ سب سے پہلے مروجہ خطاطی کے قواعد وضوابط پر لفظ لکھا۔ پھر لفظ کے بجائے حروف کو تحریرکی اکائی قرار دیا۔ اس کتاب میں معروف مصور ایم ایف حسین، علی سردار جعفری، ڈاکٹر نثار فاروقی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، سید امجد علی، ریاض صدیقی، سبط حسن، مالک رام، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، خاطر غزنوی جیسے جید علماء کے مضامین شامل ہیں، صادقین کی رباعیاں بھی موجود شامل ہیں۔

صادقین 10 فروری 1987 کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کی برسی پر یہ کتاب صادقین کے چاہنے والوں کے لیے شاندار تحفہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں