بھارتی اشتعال انگیزی جنگ کا باعث بن سکتی ہے مائیکل کوگلیمن

معاشی میدان میں عمران حکومت ناکام ہوگئی،امریکی ماہر کی ’’دی ریویو‘‘ میں گفتگو


رضوان شہزاد February 09, 2020
صدر ٹرمپ کو کشمیر پر گہری تشویش ہے، وہ دورہ بھارت میں اس پر بات کریں گے۔ فوٹو:فائل

امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور جنوب ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''دی ریویو'' میں کامران یوسف اور شہبازرانا سے گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہا دونوں ملکوں کے تعلقات اس وقت سے بھی زیادہ خراب ہیں جب پلوامہ اور بالاکوٹ کے واقعات رونما ہوئے تھے۔بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے نے تناؤ میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے، اگر اب پلوامہ جیسا کوئی واقعہ ہوا تو صورتحال میں کشیدگی کو کم کرنا بہت مشکل ہو جائیگا، ماضی میں امریکا اور دیگر عالمی کھلاڑیوں نے کشیدگی کم کرنے میں مدد کی لیکن آئندہ ایسا کرنا بہت مشکل ہوگا۔

انھوں نے کہا مجھے بھارت کی طرف سے کسی اشتعال انگیزی کا خدشہ ہے کیونکہ بھارت کی سینئر قیادت کی طرف سے آزاد کشمیر پر قبضے کے حوالے سے اشتعال انگیز بیانات آ رہے ہیں، اس طرح کے بیانات پہلے بھی دیئے جاتے تھے مگر اب اس کی شدت زیادہ ہے۔

اس سوال پر کہ کیا بھارت جنگ چھیڑنے میں سنجیدہ ہے کوگل مین نے کہا میں یقینی طور پر تو کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم جس طرح بھارتی حکومت نے ماضی کے برعکس اپنی دھمکیوں پر عملدرآمد کیا خواہ وہ آرٹیکل 370کی منسوخی ہو، شہریت کا نیا قانون یا رام مندر کی تعمیر توایسے میں جنگ شروع کرنے کے اقدام پر مجھے حیرت نہیں ہوگی۔

پاکستان کی معاشی صورتحال کے حوالے سے مائیکل کوگل مین نے کہا عمران خان حکومت کی اس میدان میں بڑی ناکامی ہے۔پی ٹی آئی حکومت اقتصادی مسائل ٹھیک کرنے کے مینڈیٹ کے ساتھ آئی تھی لیکن معاشی صورتحال بہت خراب ہے اور یہ حکومت سے چیلنج سے نمٹنے کے قابل نظر نہیں آتی۔

انہوں نے کہا پاک، امریکہ تعلقات میں بہتری آئی ہے تاہم امریکی صدر ٹرمپ کا یہ کہنا درست نہیں کہ دونوں ملکوں میں تعلقات کبھی بہتر نہیں رہے۔ حالانکہ ماضی میں یہ تعلقات زیادہ بہتر تھے۔ ٹرمپ کا شایدیہ مطلب ہے کہ تعلقات پچھلے ایک سال میںکافی زیادہ بہترہوئے ہیں کیونکہ پاکستان نے افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے امریکہ کی مددکی ہے اسکے نتیجے میں پاکستان اورامریکہ کے تعلقات اب بہت بہتر ہوئے ہیں۔

امریکہ پاکستان سے اپنے تعلقات کوافغانی عینک پہن کردیکھ رہاہے ایک مرتبہ جب امریکی سپاہی افغانستان چھوڑدیں گے یعنی افغا نستان سے امریکی بوٹوں کے نشانات مٹے تو یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ امریکہ کیلئے پاکستان کی دوستی امریکہ کے مفادمیں کارآمدرہتی ہے یا نہیں، یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت امریکی پالیسی سازپاکستان کواپنا دوست اور سٹریٹجک پارٹنرسمجھتے ہیںیا نہیں جب انہیں افغانستان سے کچھ لینادینا نہ ہو۔ ٹرمپ انتظامیہ پرواضح ہے کہ وہ پاکستان کوصرف بھارت کے حوالے سے دیکھتاہے۔

انڈو پیسفک اسٹریٹجی ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ایک انتہائی اہم پالیسی ہے اسکامطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ افغان انخلاء کے بعدبھی دونوںممالک کے درمیان طویل المیعادتعاون کی امید باندھی جاسکتی ہے۔ امریکی صدرکو کشمیر پر گہری تشویش ہے امریکی صدردورہ بھارت میں کشمیر پر بات کریں گے۔

ایف اے ٹی ایف پاکستان کے اقدامات سے خوش ہے۔ اگرامریکہ پاکستان کو معاشی طور پر سپورٹ کرنے کیساتھ یہاں سرمایہ کاری کرے توپاکستان کوکیاپڑی ہے کہ چین کی طرف دیکھے سی پیک پر تنقیدکے پیچھے چین کا عمل دخل زیادہ ہے نہ کہ پاکستان کاکیونکہ امریکہ اورچین میںبہت گہری دشمنی ہے۔

مائیکل کوگلمین نے کہاکہ بھارت اورپاکستان کاڈبل ایجنٹ ہونے کے ساتھ مجھ پر افغان ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایاجاتا ہے اس طرح تو میںٹرپل ایجنٹ ہوا لیکن اسکایہ مطلب ضرورہے کہ میںکچھ درست ہی کررہاہوں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں