ابھی مہنگائی عوام کے لیے قابل برداشت
بادشاہ کو مشیر خاص کا مشورہ پسند آیا، اس نے دریا عبور کرنے کے لیے ٹیکس لگا دیا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی سلطنت میں نئے بادشاہ نے تخت سنبھالا۔ بادشاہ نے اپنے مشیر خاص کو طلب کیا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری رعایا مجھے ایک دریا دل اور رحم دل بادشاہ کے طور پر جانے۔ اس لیے میں کیا کروں۔ بادشاہ کی سلطنت میں ایک دریا بہتا تھا۔ اس کی رعایا دریا کے ایک طرف رہتی تھی اور کام کاج کے لیے دریا کے دوسری طرف جاتی تھی۔ مشیر خاص نے مشورہ دیا کہ آپ پہلے دریا عبور کرنے پر ٹیکس لگا دیں۔ جب لوگ یہ ٹیکس ختم کروانے کے لیے آپ کے دربار میں فریاد لے کر آئیں گے تو آ پ ٹیکس ختم کر دینا، لوگ واہ واہ کریں گے اور آپ کو ایک رحم دل بادشاہ کہیں گے۔
بادشاہ کو مشیر خاص کا مشورہ پسند آیا، اس نے دریا عبور کرنے کے لیے ٹیکس لگا دیا۔ اب لوگ روز صبح دریا عبور کرنے کے لیے ٹیکس ادا کرنے لگے۔ لیکن کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ بادشاہ نے مشیر خاص کو دوبارہ بلایا اور کہا کہ لوگ نہیں آئے، اب کیا کریں۔ ٹیکس خود ہی ختم کر دیں۔ لیکن مشیر خاص نے کہا، اس طرح تو آپ دریا دل نہیں بن سکیں گے۔ بادشاہ نے کہا پھر کیا کریں۔ مشیر خاص نے کہا کہ آپ کوتوال سے کہیں جو بھی دریا عبور کرے اسے ساتھ دو جوتے بھی مارے جائیں۔ اب لوگ ضرور آئیں گے۔ بادشاہ نے ہر دریا عبور کرنے والے کو ٹیکس کی ادائیگی کے ساتھ دو جوتے بھی مارنے کا حکم دے دیا۔
کچھ دن گزرنے کے بعد لوگ بادشاہ کے دربار میں آ گئے۔ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا آج ٹیکس بھی ختم کر دوں گا۔ جوتے بھی ختم کر دوں گا۔ لوگ مجھے دریا دل اور رحم دل کہیں گے۔ بادشاہ دربار میں پہنچا۔ بادشاہ نے سوال کیا کہ کیوں آئے ہیں؟ کیا چاہیے؟ عوام کے ایک نمایندے نے جان کی امان چاہتے ہوئے درخواست کی کہ انھیں ٹیکس اور جوتے مارنے پر اعتراض نہیں۔ جوتے مارنے کے لیے صرف ایک سپاہی مامور کیا گیا۔ درخواست ہے کہ لائن بہت لمبی لگ جاتی ہے اور کام پر جانے میں دیر ہو جاتی ہے۔ اس لیے درخواست ہے کہ جوتے مارنے والے سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے۔ تا کہ وقت ضایع نہ ہو۔ بادشاہ خاموش ہو گیا اور مشیر خاص کی طرف دیکھنے لگا۔ اور جوتے مارنے والے سپاہیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا۔
آج مہنگائی میں پاکستانی عوام کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے بھی وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے کسی مشیر خاص سے مشورہ کیا کہ کس طرح پاکستان کے لوگ انھیں دریا دل اور رحم دل وزیر اعظم جان سکیں۔ ان کے مشیر خاص نے انھیں مشورہ دیا کہ آپ مہنگائی کریں۔ جب لوگ مہنگائی سے تنگ آپ کے پا س آئیں گے تو آپ کچھ مہنگائی کم کر دینا۔
اسی لیے سب سے پہلے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا گیا۔ گیس کی قیمتوں میں ڈیڑھ سو فیصد سے زائد ضافہ کیا گیا۔ بجلی قیمت اتنی بڑھائی گئی اس ماہ میں میرے گھر جو بجلی کا بل آیا ہے اس میں 44 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کی قیمت وصول کی گئی ہے۔ سب کا خیال تھا کہ بجلی گیس کی قیمتوں میں اس قدرا ضافہ کے بعد لوگ باہر آئیں گے اور احتجاج کریں گے۔ لیکن لوگوں نے خاموشی سے یہ اضافہ قبول کر لیا۔ اور بل دینے شروع کر دیے۔
لگتا ہے کہ بادشاہ کی طرح عمران خان نے مشیر خاص کو دوبارہ طلب کیا۔ اور کہا کہ لوگ نہیں آئے۔ مشیر خاص نے مشورہ دیا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جائے۔ لوگ ضرور باہر آئیں گے۔ حکومت نے پہلے خود ہی ادویات کی قیمتوں میں کئی کئی گنا اضافہ کیا۔ معاملے کو اچھالنے کے لیے اپنے وزیر کو فارغ بھی کر دیا۔ لیکن لوگ باہر نہیں آئے اور انھوں نے مہنگی ادویات لینی شروع کر دیں۔ آپ اندازہ لگائیں جس ملک میں شوگر کے مریضوں کی تعداد لاکھوں میں ہو، وہاں انسولین کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا۔ بلڈ پریشر کی ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ ٹیسٹوں کی فیسوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ لیکن لوگ باہر نہیں آئے۔
حکومت ایسی معاشی پالیسیاں لے کر آئی جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ شرح سود اتنی بڑھا دی کہ ملک میں کاروبار کرنا ممکن ہی نہ رہے۔ گزشتہ سال دس لاکھ لوگ بیروزگار ہوئے ہیں۔ اور اس سال بارہ لاکھ لوگ مزید بیروزگار ہوںگے۔ ملک میں غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ میڈیا انڈسٹری کو تباہ کیا گیا۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں صحافی بیروزگار ہوئے ہیں۔ صحافی مرنے لگ گئے لیکن باہر نہیں آئے۔ تنخواہیں کم ہوئی ہیں۔ بر وقت تنخواہ ایک خواب بن گیا۔ آرام سے سارا ظلم برداشت کیا ہے۔ صنعتیں بند ہوئی ہیں۔ صنعتکاروں نے لوگ نکالے ہیں۔ حال ہی میں گورنر پنجاب جب فیصل آباد گئے تو لوگوں نے صنعتوں کی چاپیاں سامنے پھینک دیں۔ ترقی کی شرح کو ختم کر دیا۔ روپے کی قدر کم کر دی۔ اسٹاک ایکسچینج بٹھا دی گئی۔ زراعت تباہ ہو گئی۔ لیکن عوام نے سب برداشت کیا ہے۔ کوئی باہر نہیں آیا۔
حکومت کی یہاں بھی بس نہیں ہوئی۔ اس نے کہا لوگ ابھی روئے نہیں ہیں۔ رلانے کا وعدہ تھا۔ اس لیے آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ صرف آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ بلکہ چائے دال گوشت گھی آئل صابن شیمپو سمیت ہر چیز کی قیمت میں کئی کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ آٹے چینی کی قیمتوں میں اضافے پر جو شور نظرآ رہا ہے۔ یہ عوام نے نہیں مچایا ہے۔ یہ تو حکومت نے چور مچائے شور کی مصداق خود ہی مچا دیا ہے۔ ایک وزیر نے بیان دینے شروع کر دیے کہ اسے چینی مافیا نے دھمکیاں دی ہیں۔ دوسرے نے بیان دینا شروع کر دیا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کے خلاف سازش ہے۔
حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ لوگوں نے یہ اضافہ بھی خاموشی سے قبول کر لیا تھا۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں اشیا مہنگی کرنے والے اب اشتہار بھی دے رہے ہیں کہ وہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے یہ اشیا مہنگی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان سے بھی کوئی نہیں پوچھ رہا اور وہ خود حکومت کا اہم حصہ ہیں۔ نیب تو اتنا مصروف ہے کہ اس کے پاس حکومت میں شامل مہنگائی مافیا کی انکوائری کا وقت نہیں ہے ۔ اپوزیشن فرار ہے۔ اگر حکومت خود مہنگائی کا شور نہ مچائے تو اپوزیشن بھی اس پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسا لگ رہاکہ اپوزیشن اب جتنی بات کر رہی ہے۔ حکومت کی مرضی اور اجازت سے کر رہی ہے۔
مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ابھی عوام میں مزید مہنگائی برداشت کرنے کا حوصلہ موجود ہے۔ حکومت کا مزید مہنگائی کرنے کا حوصلہ جواب دے گیا ہے۔ عوام میں ابھی مزید بیروزگاری سہنے کا حوصلہ موجود ہے لیکن حکومت کا بیروزگار کرنے کا حوصلہ جواب دے گیا۔ کئی دفعہ ظلم سہنے والا نہیں تھکتا بلکہ ظالم تھک جاتا ہے۔ اور ظالم کا ظلم کرنے کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے۔ شائد مشیر خاص کے پاس بادشاہ سلامت کو دریا دل اور رحم دل منوانے کی تدبیریں ختم ہو گئی ہیں۔ پندرہ ماہ میں حکومت نے اللہ کے فضل وکرم سے گاڑی سے لے کر سوئی تک ہر چیز مہنگی کر دی ہے۔ لیکن لوگ باہر نہیں آئے۔ اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔
حکومت ایسے ہی پریشان ہو رہی ہے۔ اللہ کی رسی دراز ہے کی مصداق اس حکومت کی رسی بھی دراز ہے۔ انھیں ظلم کرنے کی کھلی آزادی ہے۔ نوے کی دہائی کا ذکر ہے ایک دفعہ مرحوم بابائے سوشل ازم شیخ رشید سے میں نے پوچھا تھا کہ آپ جس انقلاب کی بات کرتے تھے وہ کیوں نہیں آیا۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے مجھے جواب دیا کہ تمھارے گھر روٹی پک رہی ہے۔ میں نے کہا جی۔ اللہ کا شکر ہے۔ انھوں نے کہا اسی لیے نہیں آیا۔ جس دن روٹی نہیں پکے گی انقلاب آ جائے گا۔ ان کی بات آج بھی سچ ہے۔ ابھی روٹی پک رہی ہے۔